Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سرُود ………….. لوگوں کی قسمیں…………. شہزادی کوثر

شیئر کریں:

انسانوں کی اس بستی میں ہر قسم کے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو صرف شکل و شباہت میں ہی ایک دوسرے سے مختلف نہیں بلکہ جسامت ،رنگ ،سوچ اور کردار کے حوالے سے بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں ۔انسان نیک فطرت پہ پیدا ہونے کے باوجود ہر قسم کی خرابی میں گرفتار نظر آتا ہے۔ اسے انسان کی تقدیر تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ گناہ اور برائی کے اندر کشش ہوتی ہے جو ہمارے حواس اور عقل کو جامد کر کے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ حالات کے دھارے میں بہتا ہوا انسان کبھی اپنی کسی غلطی کی وجہ سے برائی میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتا۔ کچھ کے اندر ازلی کمینگی چھپی ہوتی ہے اور وہ موقع و محل کی مناسبت سے اس کا درشن کرا دیتے ہیں ، اس کے خیر خواہ چاہے جتنے بھی جتن کر لیں اس کی اصلیت نہیں بدلتی۔ ان کی حالت کتے کی دم جیسی ہوتی ہے جسے شکنجے میں جتنا چاہے کسو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی خرابیوں کا پتا ہوتا ہے، لیکن وہ ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ۔اور ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ان کی عقل ہی کامل ہے، صرف وہ درست ہیں باقی سب غلط۔۔ ایسے لوگوں کی یہ سب سے بڑی مصیبت ہوتی ہے کہ بیگانے ان کے لیے قابل بھروسا جبکہ گھر کے افراد قرآن کی قسم کھا کر بھی ان کا اعتبار نہیں جیت پاتے۔ بعض ایسی دنیا کے خواب دیکھتے ہیں جسکا وجود کہیں نہیں ہوتا ، اس کو احمقوں کی جنت کا نام دیں تو درست ہو گا۔ جس میں ہر چیز ان کی مرضی ،خواہش اور حکم کے مطابق ہو، ان کے آگے پیچھے جی حضور جی جناب کہنے والے موجود ہوں،وہ کسی کے لیے کچھ نہ کریں ہر چیز ان کے لیے ہی ہو۔ جو زندگی میں کچھ کر دکھانے کی ہمت نہ رکھتے ہوں وہ حقیقت کی دنیا کو چھوڑ کر تخیل کی مدد سے اپنا جہاں آباد کرتے ہیں ،یہ بڑے معصوم اور قابل رحم لوگ ہوتے ہیں ۔ وہ برے حالات کا مقابلہ کرنا نہیں جانتے اور نہ ہی برا روئیہ برداشت کرنے کا تصور کر سکتے ہیں۔ زیست کی سختیوں اور تنگیوں کا سن کر ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،یہ بڑے توجہ طلب اور تسخیر کی خواہش رکھتے ہیں ۔ ان میں غم کھانے کی سکت نہیں لیکن بے نام غم کے بادل ان کے چہرے کے ساتھ ان کی جنت پہ بھی چھائے رہتے ہیں۔ ان کا شعور تخیل کے پنجے میں ایسے گرفتار ہوتا ہے جیسے بے چارہ مرد ایک مکار عورت کے ہاتھ میں لاچار ہو۔ اگر انہیں خیالی دنیا میں اڑنے سے روکا جائے تو زندگی سے اکتا جاتے ہیں ۔حقیقی دنیا میں رہتے ہوئے رشتے داری نبھانے اور خدمت گزاری کے نام سے ہی بدک جاتے ہیں ۔ وہ زبردستی حقیقی زندگی کی بھینٹ چڑھ جانے کو کبھی تیار نہیں ہوتے ۔۔
کچھ ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو صرف زبانی کلامی ہی محبتیں نچھاور کرتے ہیں ،ان کی ساری محنت اپنی جھوٹی محبت کو زبان کی نوک پر لانے میں صرف ہوتی ہے جس میں مٹھاس کا شائبہ تک نہیں ہوتا ہر بات بے مزہ ، صاف پتا چلتا ہے کہ جھوٹا پیار نچھاور کیا جا رہا ہے۔ ایسے لوگوں سے اپنائیت کی گرمی کی جگہ بیگانگی کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔
لوگوں کی ایک قسم وہ ہے جو ہر وقت اپنا مطلب نکالنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ آپ کے فائدے کا کام ہو تو بھولے بھالے جبکہ اپنے کام کی معمولی بات کو بھی نظر انداز ہین کرتے۔ یہ دولت مند اور اثر و رسوخ والے لوگوں سے اپنے رشتے کا ایسا شجرہ نسب بنائیں گے کہ دماغ چکرا جائے۔ ایسے لوگوں کو رام کرنے کے لیے تھوڑی سی ہڈی جاہیئے جو وقت بے وقت ان کی طرف پھینکو تو اسے چاٹ کر کچھ دن سکون سے رہیں گے ۔ ایک گروہ حریص لوگوں کا ہوتا ہے جو کبھی سیر نہیں ہوتا ،ان کی بھوک دائمی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک رشتے ناطے اضافی چیزیں ہیں صرف دولت ،پیسہ اور اسٹیٹس ہی سب کچھ ہے۔ ایسوں کی گفتگو کا موضوع موبائل۔ شاپنگ، گاڑیاں بنگلے اور ریسٹورنٹ ہوتا ہے۔ان کی سوچ کا سفر معدے سے شروع ہو کر جسم پر ختم ہوتا ہے ۔ان کی بھوک سے زیادہ کھانا بھی مل جائے تب بھی بھوکے ہی نظر اتے ہیں۔
سب سے خطرناک طبقہ وہ ہے جو لوگوں کو کسی بھی حالت میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔ کسی کو خوش دیکھ کر انہیں دکھ ہوتا ہے ۔ان کے نزدیک زندگی کی کسوٹی سے صرف وہی واقف ہیں ۔کسی کو صحت مند دیکھنا ان سے ہضم نہیں ہوتا تو موٹاپے پر ایسا طنزیہ لکچر دینگے کہ موٹا ڈوب مرنا چاہے۔ اور دبلے پتلے سے ان کی تنگ دستی کی ایسی کہانی جوڑ دین گے کہ اسے خود سے گھن آنے لگے گی۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے دوسروں کو دکھی کرتے ہیں خود بھی خوش نہیں رہتے۔ ان کے منہ میں زبان کی جگہ زنبور کا ڈنک ہوتا ہے جس سے ایذا دیتے ہیں ایسوں کو سمجھانا شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے ۔ انہیں کسی کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہوئے اگر زبان پہ چھالے پڑتے ہیں تو ذہریلے الفاظ سے چھلنی کرنے کا حق بھی نہیں پہنچتا ۔
زنبور بے مروت و بے رحم سے کہو دیتا نہیں ہے شہد تو پھر ڈنک بھی نہ مار ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
21249