Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان …. محترم المقام ضیاء اللہ بنگش صاحب!….محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

سر ! مجھے پتہ ہے کہ سر کاری ملازم پر کسی طرح کا بھی کوئی مضمون میڈیا پہ شائع کرنے پر پابندی ہے ۔میں ایک اُستاد ہوں اس لئے اپنے آپ کو اس غیرت مند قوم کا خادم سمجھتا ہوں سرکاری ملازم نہیں ۔۔سر ! غیرت مند قوم کا استاد قابل فخر ہوتا ہے ۔۔اس کو اس بات پہ ناز ہوتا ہے کہ اس کے ارد گرد اس کی تربیت کردہ افراد ہوتے ہیں ۔۔کوئی بڑا آفیسر ہوتا ہے ۔۔کوئی بڑا جنرل ہوتا ہے ۔۔کوئی وکیل ۔۔کوئی صدر وزیر اعظم ۔۔وزیر اعلیٰ ۔وزیر مشیر جو بھی ہے و ہ کسی نہ کسی اُستاد کی تربیت کردہ ہو تا ہے اس لئے ایک استاد ہی وہ فرد ہے جو احترام کاسزاوار ہو تا ہے ۔اس کوکسی قسم کا خوف ڈر یا اندیشہ نہیں ہوتا کہ اس کو کوئی برا کہے ۔۔وہ واحد فرد ہے جس کے منہ سے کسی کے لئے شکایت ، تنقید یا اعتراض نہیں نکلتا ۔۔اس کے دل سے دعا الفاظ بن کر ہر ایک کے لئے نکلتی ہے۔وہ اگر اردو انگریزی نہیں بھی پڑھا سکتا ہو تب بھی تو سچ بولنا سیکھاتا ہے ۔۔اُٹھنے بیٹھنے کے اداب سیکھا تا ہے ۔بچے کے د ل میں محبت ،ہمدردی اور احترام انسانیت بھر دیتا ہے ۔یہ واحد ہستی ہے جومحسن ہے ۔۔اس کے کوئی مقاصد نہیں ہوتے سوائے انسانیت کی تربیت کے ۔۔استاد پر رحمت کا سایہ ہوتا ہے ۔۔وہ محبت بانٹتا ہے ۔احترام سمیٹتا ہے ۔۔اساتذہ کرام سے متعلق آپ سے منسوب جو تبصیر ہ سوشل میڈیا میں کیاجاتا ہے مجھے اس بات پہ بالکل یقین نہیں ۔۔اس لئے کہ پی ٹی آئی کی حکومت صوبے میں پچھلے چھ سالوں سے ہے ۔۔اس نے اساتذہ کرام کو جومقام دیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مانیٹرنگ سسٹم ،این ٹی ایس سسٹم ،شفاف تقرریاں ،اساتذہ کے کام کی نگرانی ،کارکردگی پر انعام ،کئی ہزار اسامیوں کوپر کرنا،محکمانہ ترقیاں ۔مراعات میں اضافے ۔۔یہ خدمات کبھی بھلائی نہیں جائیں گی ۔موجودہ حکومت جس انداز سے اساتذہ کی اہمیت کو اجاگر کر رہی ہے ۔سمجھنے والے سب سمجھتے ہیں ۔ایک ایسی حکومت کا ذمہ دار لیڈر اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ استاد اہم نہیں ۔۔بنگش صاحب آپ کی حکومت استاد کوعزت دینے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے ۔۔اس کی پہچان کے لئے یونیفارم بہترین اقدام ہے ۔اس کی خدمات کو اہمیت دینا ،اس کی حوصلہ افزائی کرنا،اس کے مسائل حل کرنا موجودہ حکومت کا شیوا رہا ہے۔۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ۔اب میں ایک استاد ہوں۔۔ کیسے یقین کروں کہ موجودہ حکومت میں استاد کو اہمیت نہیں دی جا رہی ۔۔البتہ اس بات سے مجھے مکمل اتفاق ہے کہ سب اساتذہ ایک جیسے نہیں ہوتے ۔جان جھوکوں میں ڈال کر محنت کرنے والے کم ہوتے ہیں ۔اپنے مضامین پر عبور رکھنے والے بھی شاید کم ہوں ۔اس میں سسٹم کابھی قصور ہے وہ پرانے اساتذہ نئے نصاب اور جدید طریقہ تدریس سے واقف نہ ہوں ۔اس کے لئے ان کے ساتھ محنت کرنی ہو گی ان کوتیار کرنا ہو گا ۔ ان کی حوصلہ افزائی کرکے ان کویقین دلانا ہو گا کہ ان کا کام مہا کام ہے ۔ان کی ذمہ داری اہم ہے ۔ان کا مقام بلند ہے ۔پھر بھی اگر کوئی استاد اپنا مقام نہ سمجھے اپنا فرض منصبی نہ پہچانے تواس کا ذمہ دار خود اس کے سوا کون ہو سکتا ہے ۔وہ کسی رو رعایت کا مستحق نہ ہو گا ۔نہ اس کی کوتاہی قابل معافی ہے کیونکہ قومیں اساتذہ کے ہاتھوں بنتی اور بگڑتی ہیں ۔۔اگر استاد اپنا محاصبہ کرنے کی بجائے گلے شکوے کرنا شروع کرے تو یہ اس کی نااہلی ہوگی ۔آج کے استاد کو سمجھنا چاہیے کہ اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق قوم کی تربیت کرنی ہے ۔خود اس کے پاس وہ سب صلاحیتیں ہوں جو وقت تقاضا کرتا ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس تیز ترین دور میں استاد ہی سب کچھ ہے ۔۔آج کے استاد کو روایات سے ہٹ کر اپنے اندر قابلیت صلاحیت اور محنت کاجذبہ پیدا کرنا چاہیے ۔آج کے استاد کو سائنسدان ہونا چاہیے ۔جدید دور میں پھیلتے علو م پر دسترس حاصل کرنا چاہیے ۔اگر استاد ان صلاحیتوں سے عاری ہے ۔تو استاد کا وہ نام اور مقام کہاں سے آئے گا اساتذہ ہمیشہ محترم رہے ہیں ۔اگر وہ احترام کے قابل ہوں تو ان کی اہمیت اور احترام میں کبھی کمی نہیں آئے گی ۔۔وہ تہذیب ،انسانیت ،شرافت سیکھائیں ۔۔وہ مفید شہری پیدا کریں ۔۔وہ ہنر مند افراد اور اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان قوم کو دیں ۔۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ استاد ہی قوم کو سر فروش دیتا ہے ۔استاد ہی قوم کو محافظ دیتا ہے ۔استاد ہی قوم کوپاسبان دیتا ہے ۔استاد ہی قوم کولیڈر اور راہنما دیتا ہے ۔ڈاکٹر ،انجینئر دیتا ہے ۔استاد ہی قوم کو منصف اور معمار دیتا ہے ۔ایسی ہستی کی تکذیب نہ کسی سے ہوئی ہے نہ ہوگی ۔یہ قوم اساتذہ پہ فخر کرتی رہی ہے ۔اور کرتی رہے گی ۔کسی بھی کامیاب حکومت کے پیچھے عظیم اساتذہ ہوتے ہیں ۔ان کی دعا اور حمایت کسی بھی حکومت کا سرمایہ ہے ۔موجودہ حکومت نے این ٹی ایس کے ذریعے بہترین تعلیم یافتہ جوانوں کو اس میدان میں اتارا ہے ۔آج پرائمری سکولوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی جوان پڑھا رہے ہیں ۔۔یہ اس حکومت کی کریڈٹ ہے ۔اگر ان کی مذید حوصلہ افزائی ہوگی اور سسٹم مضبوط ہوگا تو ملک خداداد علم کی روشنی سے منور ہو جائے گا ۔قوم اساتذہ سے توقع کر رہی ہے ان کو اپنا محاصبہ کرنا چاہیے ۔۔وہ مغرب جس نے اس امت سے علم کی روشنی حاصل کرتا رہا آج ہمیں کیا سیکھائے گا ۔اگرخود ہم میں سیکھنے سیکھانے کی اہلیت نہ ہو۔سرکاری سکولوں میں تبدیلی آرہی ہے ۔اس میں دو رائے نہیں ۔میڈیا کا برا ہو کہ غلط فہمیاں پھیلارہا ہے ۔۔استاد معاشرے کاسنجیدہ طبقہ ہے ۔لیکن اس کو اپنے کام کو ’’صرف مزدوری جیسا کام نہیں ‘‘ مشن سمجھنا چاہیے ۔۔یہ استاد کی شان ہے ۔آپ جو بھی ہیں استاد کے لیڈر ہیں ۔۔اس قوم کے بڑے ہیں ۔اس پاک سر کے صدقے اقتدار کا تاج آپ کے سر پہ سجا ہے ۔۔آپ بھی اس اقتدار کا احترام کریں اس کو اللہ کی امانت سمجھیں ۔خدمت کا اور تبدیلی کا عزم لے کے آگے بڑھیں دیکھیں گا کہ یہی استاد جان ہتھیلی پہ رکھ کے آپ کا ساتھ دے گا اور آپ کوا س پہ فخر ہوگا۔


شیئر کریں: