Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ویساکھی:استقبال بہار……………..ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

(14اپریل ،سکھوں کے مذہبی تہوارکے موقع پر خصوصی تحریر)
سکھوں کاکیلنڈر’’نانک شاہی‘‘کیلنڈر ہے جو شمسی تقویم سے ملتاجلتاہے۔یہ کیلنڈرباباگرونانک ،بانی سکھ مذہب،کی پیدائش والے سال 1469ء سے شروع ہوتاہے اور حسب دیگر بارہ مہینوں پر مشتمل ہے۔نانک شاہی تقویم کے مطابق ’’چیٹ‘‘کے مہینے سے سال کاآغازہوتاہے اور دوسرے مہینے ’’ویساکھ‘‘کی آمد سے دھان کی کٹائی کاعمل شروع ہوجاتاہے۔اس فصل کی کٹائی کامطلب سال بھر کے رزق کی کامیاب فراہمی ہے۔فصل کی کٹائی کے آغازپر یعنی ویساکھ کی پہلی تاریخ سے پنجاب بھر’’ویساکھی‘‘کے میلوں کاآغاز ہوجاتاہے۔سکھوں کے ہاں یہ میلہ ایک مذہبی رسم کی شکل میں منایاجاتاہے جب کہ غیرسکھ پنجابی اس دن کو فصل کی کامیاب کٹائی اورموسم بہارکی آمد کے طورپر مناتے ہیں۔فصل کی کامیاب کٹائی پر خداکاشکراداکیاجاتاہے اور آئندہ سال کے لیے دعائیں ومناجات بھی کی جاتی ہیں۔سکھ مذہب کے مطابق ان تاریخوں میں چونکہ خالصہ کااستحکام ہوا تھاچنانچہ یہ مذہبی و علاقائی تہوارسکھوں کے ہاں بڑی اہمیت کاحامل ہے۔ہندوکاشتکاروں کے ہاں بھی ان تاریخوں میں فصل کی کامیاب کٹائی کے باعث ایک تہوار منایا جاتا ہے لیکن اس کے مختلف نام ہیں جیسے ’’پاہیلا بیشاک‘‘یا’’نابوبارشو‘‘یا’’بوہگ باہو‘‘ وغیرہ۔
گروامرداس(1479-1574) سکھوں کے دس میں سے تیسرے گروتھے جنہوں نے سکھ ملت کے لیے تین تہواروں کاانتخاب کیا۔’’مہاشیوراتری یاماگھی‘‘،’’دیوالی‘‘اور’’ویساکھی‘‘۔یہ تینوں تہوار ہندؤں میں جاری تھے چنانچہ تیسرے گرونے سکھوں کو بھی اجازت دے دی کہ وہ بھی ہندؤں کے ساتھ مل کران تہواروں کو مذہبی و ثقافتی طورپر منائیں گے۔گروامرداس ہندوتھے لیکن ان کی بہو ’’بی بی امرو‘‘سکھوں کے دوسرے گرو،گروانگددیوکی بیٹی تھیں،جو سکھوں کی مقدس کتاب ’’گرنتھ صاحب‘‘کی تلاوت کررہی تھیں۔گروامرداس اس کتاب کے مندرجات سے متاثرہوئے اور سکھ مذہب اختیارکرلیااور دوسرے گرونے اپنی وفات سے پہلے انہیں بطور خلف روگروکے نامزد کردیا۔چنانچہ دوسرے گروکی وفات کے بعد گروامرداس نے بطورتیسرے گروکے سکھ ملت کی امامت کی۔گروامرداس اس لحاظ سے بہت اہم گروہیں کہ انہوں نے سکھ ملت کو نئے مذہبی شعائرسے آشناکیا،انہوں نے بچوں کے نام رکھنے کے آداب،نکاح اور جنازہ کے طریقے اور مذہبی تہوار متعارف کرائے۔مذہبی تہوار منانے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے ’’گوردوارہ‘‘نامی عمارت کاتصورپیش کیاجو ایک مذہبی عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ سکھ تہواروں کے مواقع پر سکھوں کے اجتماعات کے لیے مرکزی مقامات کی حیثیت کی حامل ہیں۔اسی لیے بیساکھی کاتہوارمیں تب سے گوردوارہ کو مرکزی مقام حاصل رہاہے۔ان سے ایک کتاب بھی منسوب ہے جس میں ان کے اقوال درج ہیں۔بیساکھی کامیلہ انہوں نے ہی سکھ مذہب میں داخل کیا۔
ویساکھی کاموقع ایک اور حوالے سے بھی سکھ مذہب میں تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ اس دن سکھوں کے دسویں اور آخری گرو،گرو گوبندسنکھ(1666-1708) نے 1699ء میں آنندپورصاحب کے اندر ’’خالصہ پنتھ‘‘کی داغ بیل ڈالی۔اس دن انہوں نے پہلے پانچ پیاروں کو’’امرت پان‘‘کرکے خالصہ بنایا۔انہوں نے بھرے مجمعے میں پہلے ایک زبردست تقریر کی پھرننگی تلواردکھاکراعلان کیاکہ کون مجھے اپنا سر دے گا،ایک سکھ ان کے خیمے میں چلاگیا،باقیوں کو محسوس ہواکہ اسے قتل کردیاگیاہے کیونکہ گروخون آلود تلوارکے ساتھ باہر نکلے تھے۔پھردوسراسکھ گیا،تب بھی لوگوں کو یہی محسوس ہوا،پھرتیسرا،چوتھااورپانچواں گیا۔گروکی خون آلودتلوارکے باعث لوگوں نے سمجھاکہ سب قتل ہوچکے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد گروگوبندسنگھ ان پانچوں کو کیسری رنگ کی پگڑی پہناکرباہرلائے اوراعلان کیاکہ یہ میرے ’’پنج پیارے‘‘ہیں۔ان کے نام؛
1۔ دیاسنگھ:اس کانام’’دیارام‘‘تھا جو کھتری نسل سے تعلق رکھتاتھااورلاہور کارہنے والا تھا،اس کانام بعد میں ’’دیاسنگھ’‘ ہوگیا۔
2۔دھرم سنگھ:یہ دھرم داس تھاجو سہارنپورکارہائشی تھاجوبعد میں ’’دھرم سنگھ‘‘کہلایا۔
3۔ہمت سنگھ:ہمت چندنامی یہ سکھ ضلع پٹیالہ کارہنے والاتھاجوبعد میں ‘‘ہمت سنگھ‘‘کے نام سے موسوم ہوا۔
4۔محکم سنگھ :محکم چند چھنباجوانبالہ کاباسی تھااور بعد میں ’’محکم سنگھ‘‘سے مشہورہوگیا۔
5۔صاحب سنگھ :صاحب چند جوہوشیارپورکاایک نائی تھا اور بعدمیں ’’صاحب سنگھ‘‘کہلایاجانے لگا۔
یہ پانچ افراد مختلف نسلوں اور پیشوں سے تعلق رکھتے تھے،گرونے سب کوایک کر کے یہ نسلی و علاقائی تفاخر مٹادیا۔اس موقع پرپہلی دفعہ سکھوں کے لیے ’’سنگھ‘‘کالاحقہ ایجادہوا،گرونے نے پنج پیاروں کے نام کے ساتھ ’’سنگھ‘‘کااضافہ کیااور خود کے لیے بھی ’’گروگوبندرائے‘‘کی بجائے’’گروگوبندسنگھ‘‘کہلائے۔یہ ایک طرح سے سکھوں میں عسکریت کاآغازتھاجس کامقصد سکھ ملت کااجتماعی دفاعی کرنا مقصود تھا۔چنانچہ ویساکھی کے تہوارکو خالصہ کے وجود کایوم آغازہونابھی میسرہے۔اسی موقع پر دسویں گرونے سب سکھوں کے لیے ’’سنگھ‘‘کاخطاب جاری کیااور انہیں ایک ضابطہ اخلاق بھی مرحمت کیاجس کے مطابق سگریٹ،شراب اور زناکی ممانعت کر دی گئی۔اسی ویساکھی کے دن دسویں گرو،گروگوبندسنکھ نے سکھوں کے لباس میں میں پانچ چیزیں داخل کیں جن کا تلفظ ’’ک‘‘سے شروع ہوتاہے:
1۔کیس یعنی لمبے بال؛سکھوں کے گرو اپنے جسم سے بال نہیں کاٹتے تھے،چناچہ سکھ اپنے لمبے بالوں کو چھپانے کے لیے پگڑی پہنتے ہیں۔
2۔کنگھا؛لمبے بالوں کوالجھاؤسے بچانے کے لیے سکھوں کے ہاں کنگھارکھناایک مذہبی رسم ہے۔
3۔کڑاجو کلائی میں پہناجاتاہے؛اسٹیل یاکسی دھات کی بنی موٹی چوڑی جو قوت کے نشان کے طورپر کلائی پر چڑھائی جاتی ہے۔
4۔کچھا،زیرجامہ؛یہ گھٹنوں تک کی لمبائی کا زیرناف پہناواہے جو چاک و چوبند اور چست و چالاک رہنے کی علامت سمجھاجاتاہے۔
5۔کرپان یعنی خنجر؛یہ چھوٹی ساتلوارنماہتھیارہے جو دفاع کے مقصد کوپوراکرتاہے۔
یہ پانچ ’’ک‘‘سے شروع ہونے والے پانچ ککے کہلاتے ہیں جنہیں سکھ مذہب میں شعائرکاتقدس حاصل ہے۔ان کی ابتدابھی ویساکھی کے دن ہوئی۔سکھ مذہب میں ان پانچ ’’ککوں‘‘ کی بہت پابندی کی جاتی ہے اور دنیاکے کسی خطے میں یاکسی پیشے سے وابسطہ ہوں سکھ مذہب کے لوگ اپنی ان مذہبی علامات کو ترک نہیں کرتے ۔
اس دن کی ایک اوراہمیت غم و اندوہ سے بھراہو’’جلیانوالہ باغ‘‘کاخونین واقعہ بھی ہے۔یہ 13اپریل 1919ء کادن تھاجب برطانوی سیکولرسامراج نے ہندوستانیوں کے جمہوری غصب کرکے توکرفیوکے نام پر مارشل لاء نافذکیاہواتھا۔برطانوی احکامات کے مطابق چارسے زائدافرادکاایک جگہ جمع ہونا منع تھا۔امرتسرجوسکھوں کے لیے مقدس شہرکی حیثیت رکھتاہے وہاں ویساکھی کے میلے میں گردونواح کے ہزاروں سکھ زائرین سالانہ میلے کے لیے حسب سابق جمع تھے اوران کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بدیسی سیکولرحکمرانوں نے پابندیاں لگارکھی ہیں۔یہ خالصتاََایک مذہبی و سماجی وثقافتی میلہ تھاجہاں قرب و جوار کی بستیوں اورچھوٹے شہروں سے آئے ہوئے سکھ یاتری اپنا تہوارمنانے آئے تھے۔انگریز حاکم جنرل ڈائراپنی گورکھافوج کے نوے سپاہیوں اوردو بکتربندگاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔باغ کے پانچ دروازوں کاراستہ اتناتنگ تھاکہ بکتربندگاڑی کااندرجانا ممکن نہ تھا۔نوے میں سے چالیس گورکھاسپاہیوں کے پاس لمبی لمبی سنگینیں تھیں اور پچاس کے کے پاس تھری ناٹ تھری کی بھاری بھرکم بندوقیں تھیں۔سہ پہر5-30بجے جب میلہ اپنے جوبن پر تھاتب ظالم انگریزجنرل نے اپنی گورکھاررسالے کو گولیاں چلانے کاحکم صادرکردیا،دس منٹ تک بندوقیں آگ اگلتی رہیں یہاں تک کہ گولیاں ختم ہوگئیں تب اس خون کی ہولی نے تھمنے کانام لیا۔ماہرین کے مطابق تھری ناٹ تھری کی گولی ایک سے زائد جسم چھلنی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔چنانچہ ہزاروں زائرین موقع پر ہلاک ہوئے اور زخمیوں کو بھی بوجہ کرفیوہسپتال پہنچانے کی اجازت نہ دی گئی جس کے باعث رات گئے تک کئی زخمی بھی چل بسے۔جمہوریت اور انسانیت کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں اس واقعے کے بعد اس طرح کے احکامات بھی سامنے آئے کہ جوہندوستانی کسی انگریزسے ایک لاٹھی کے فاصلے تک آیااسے سرعام کوڑے مارے جائیں گے اورایک خاص سڑک پر سے گزرنے والے ہندوستانیوں کو حکم دیاگیاکہ وہاں سے ہاتھوں پاؤں کے بل چل کرگزریں گے۔اوران سب پر مستزاد یہ کہ بہت سے برطانویوں نے اس قتل عام کے اصل مجرم جنرل ڈائرکو برطانیہ کاہیروقراردیا۔
ویساکھی کادن جب بھی آتاہے تومیلے اور قتل عام ۔دونوں کی یادتازہ کرتاہے۔بہرحال وقت بہت بڑامرہم ہوتاہے جس سے دکھوں کے گھائل بھرجاتے ہیں۔ایک صدی سے زائدگزرجانے کے بعد اب اگلی نسلوں کے رنگ ڈھنگ بدل چکے ہیں اورپنجاب بھرمیں ویساکھی کادن رنگ و نور کی برسات لیے طلوع ہوتاہے۔’’گردواروں‘‘جوسکھ مذہب کی عبادت گاہیں ہوتی ہیں ،انہیں خوب سجایاجاتاہے،ان میں ’’کرتان کار‘‘جو قوال ہوتے ہیں ،وہ براجمان ہوجاتے ہیں۔لوگ گردواروں میں آنے سے پہلے جھیلوں میں دریاؤں میں نہاتے ہیں۔پھر سب لوگ مذہبی عبادت گاہوں میں جمع ہوجاتے ہیں جہاں کرتان کار موسیقی کے ساتھ گاکر انہیں پندونصائح کرتے ہیں۔یہ کرتان کار پہلے گلیوں میں چکرلگاتے ہیں،ان میں سے پانچ نے ’’پنج پیاروں‘‘کاسالباس پہناہوتاہے ،باقی سب ان کے پیچھے چلتے رہتے ہیں۔گلیوں میں ان کرتاران کے پیچھے پیچھے باقی سکھ بھی جمع ہوتے رہتے ہیں اور مل کر گاتے بھی رہتے ہیں۔بعض سکھوں کے ہاتھوں میں ان کی مقدس کتاب ’’گرنتھ صاحب‘‘بھی ہوتی ہے۔بعض مقامات پر صرف کرتان کارگاتے ہیں اور باقی شرکاء سنتے ہیں جب کہ بعض مقامات پر سب مل کر گاتے ہیں،یعنی پہلے کرتان کار گاتے ہیں پھر انہیں کاگایاہوا شرکاء بھی گاکر دہراتے ہیں اور بعض مقامات پر ایک حصہ سوال کے طورپر کرتان کار گاتے ہیں اور پھرجواب میں شرکاء بھی گاکر جواب دیتے ہیں جب کہ آلات موسیقی بھی اس دوران شرکاء کاساتھ دیتے رہتے ہیں۔اس موقع پر بہت سے سکھ ’’خالصہ‘‘بن جاتے ہیں یعنی ایک مذہبی رسم کے بعد انہیں اخلاص عطاکردیاجاتاہے ۔معبدسے فراغت کے بعد باہم ملنے جلنے کاعمل شروع ہوتاہے جو پورادن جاری رہتاہے۔لوگ اکیلے اوراپنے اہل خانہ کے ہمراہ دوسروں کے گھروں میں جاتے ہیں ،طرح طرح کے پکوان تیارکیے جاتے ہیں اور مہمانوں کی آمد پر سجاسجاکر ان کے سامنے چن دیے جاتے ہیں۔پرتکلف کھانوں اور لذیزپکوانوں سے اس تہوارکامزہ دوبالا ہوجاتاہے۔گھروں میں بھی چھوٹے اور بڑے پیمانے پر تقریبات منعقدکی جاتی ہیں جن میں کھانے پینے کے علاوہ موسیقی بھی شامل ہوتی ہے۔
’’آوت پاؤنی‘‘یہ ایک اور سکھ مذہب کی رسم ہے جو بیساکھی کے موقع پر پوری کی جاتی ہے۔اس رسم کے مطابق تما م کسان،مزدور،زمینداراور کھیتوں میں کام کرنے والے اور والیاں کل افرادکھیتوں میں اورفصلوں میں جمع ہوجاتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں۔’’آوت پاؤنی‘‘پنجابی زبان کی اصطلاح ہے جس کالفظی مطلب ہے کہ سب آجاؤاور جمع ہوجاؤ۔چنانچہ ویساکھی کے موقع پر فصلوں کی کٹائی کے لیے مشینوں کے استعمال سے پہلے کل برادری،یاردوست،مہربان،محسن،پڑوسی،رشتہ داراوروہ لوگ جو دوردرازعلاقوں میں گئے ہوتے ہیں، وہ بھی جمع ہوجاتے ہیں اورمل کر فصل کی کٹائی کو تہوار کی حیثیت سے مناتے ہیں۔اس موقع پر بڑے بڑے ڈھول لاکر بجائے جاتے ہیں اور ’’پنجابی ڈوہڑے‘‘گائے جاتے ہیں۔فصل کی کٹائی کے دوران اور بعداز تکمیل اس رسم کے شرکاء ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں اور’’لڈی‘‘ یا’’بھنگڑا‘‘ڈالتے ہیں جواجتماعی رقص کی ایک علاقائی رسم ہے۔’’لڈی‘‘یا’’بھنگڑا‘‘سے مرادسب لوگ ایک دائرے کی شکل میں ڈھول کے گرد جمع ہوکر ناچتے ہیں رہتے ہیں اور دائرے میں چلتے بھی رہتے ہیں۔ڈھول والایاکوئی اور پنجابی شعر پڑھتاہے تو سب لوگ اس شعرکادوسرامصرع مل کردہراتے ہیں،پھرگانے والا اگلا شعر پڑھ دیتاہے۔اس موقع پر میزبانوں کی طرف سے روایتی کھانے پینے کابھی انتظام ہوتاہے جیسے گھی شکر،کڑھائی حلوہ،دودھ،دہی،لسی وغیرہ جو شرکاء کو وقتاََ فوقتاََ پیش کیاجاتے رہتے ہیں۔اس ساری رسم میں خواتین بھی اپنے آپ کو ڈھانپتے ہوئے شرم و حیاکے لبادے میں جزوی طورپر شریک رہتی ہیں۔
اسلام کے بعد سکھ وہ واحدمذہب ہے جو شرک سے پاک ہے۔سکھ اپنے خداکواسی شرائط کے ساتھ مانتے ہیں جو سورہ اخلاص میں قرآن کے اندروارد ہوئی ہیں۔صدیوں تک ہندوؤں کے درمیان رہنے کے باوجود اس مذہب میں بت پرستی داخل نہیں ہوسکی اورپتھروں کے سامنے رام رام جپنے والے سکھوں کوشرک نہیں سکھاسکے۔سکھ اپنے مذہب کے پکے لوگ ہیں اورمسلمانوں کے لیے ان کے ہاں بہت کچھ نرم گوشہ موجودہے۔قومیں قوموں کو معاف نہیں کرتیں کے مصداق تقسیم ہندکے وقت مسلمان قافلوں کے راستے میں مشرقی پنجاب ایک جغرافیائی مجبوری تھی لیکن سکھوں نے ان مہاجروں کے ساتھ جو سلوک کیاوہ زخم آج بھی تازہ ہے۔اگرچہ سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تباہی سے صرف برہمن نے فائدہ اٹھایالیکن اگست1947ء کی خون آشام راتیں،لٹے پھٹے قافلے اور لاشوں سے بھری ریل گاڑیاں تاریخ کے وہ اندوہناک اسباق ہیں جو پاکستان کوکبھی نہیں بھولیں گے۔سکھوں کے کرپان کس طرح مسلمانوں کے سینوں میں پیوست ہوئے اور مشرقی پنجاب میں عصمت اسلام کس طرح تارتارہوئی ،کربناک لمحات سینہ بہ سینہ آج بھی ازبرہیں۔ظلم و ستم کی ناقابل فراموش داستانیں سکھ ملت پرلہولہورلانے کاقرض ہیں۔جس برہمن کی آشیربادکے لیے سکھ مسلمانوں پرقہربن کرٹوٹے اسی سودخور نے 1984ء میں سکھوں کی گولڈن ٹیمپل جیسی مقدس عبادت گاہ کوخون میں نہلاکراورناپاک فوجی بوٹوں تلے روندکر سکھوں پرایک اوربھاری قرض چڑھادیا۔تاریخ کادھارابہت تیزی سے آگے بڑھ رہاہے ،کہیں نہ کہیں اس قرض کو چکانا ہے کہ قومیں قومیں کبھی معاف نہیں کرتیں خواہ نسلیں اور صدیاں ہی بیت جائیں۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
20994