Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کٹا چنگ …. قادر خان یوسف زئی

شیئر کریں:

اس وقت پاکستان میں جو سیاسی شور ہے، وہ صرف لاڑکانہ اور لاہور میں ہے، لاڑکانہ تو اس وجہ سے کہ وہ صوبہ فتح نہ ہوسکا جب کہ پنجاب فتح کرلیا گیا اور پھر لاہور پر حاکمیت کرنے والے عہدہ برآ بھی ہوگئے، شہباز پہلے دن سے خاموش نواز بھی کچھ روز بعد خاموش ہوگئے۔ اس صوبے کی حکومت حاصل کرنے کے لیے سرائیکی صوبے کا نعرہ لگایا گیا، جس میں جدت یہ پیدا کی گئی کہ اس کے نام کا تسلسل قائم رکھا گیا، پنجاب کا جنوبی حصہ بتایا گیا، اس نعرے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چولستان میں ہزاروں ایکڑ زمین پر قابضین طاقتور لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ تمہاری طاقت کو کوئی چیلنج نہیں کرے گا، یوں نئی سیاسی قوت حاصل ہونے کے بعد یکدم صوبہ بنانے کا وعدہ بھلادیا گیا اور وہ لوگ جنہیں ساتھ ملایا گیا تھا، انہیں غیر موثر کردیا گیا، بلکہ احتساب کا ایسا خوف ظاہر کیا گیا کہ کسی میں بولنے کی قوت نظر نہیں آرہی، عام آدمی پر خوف طاری کرنے کے لیے کئی اداروں کو اس انداز میں متحرک کیا گیا کہ کریانے، ہوٹل کھوکھے والے بھی نہیں بچ سکتے۔ ٹریفک انرجی اور ٹیکنیکل ایرا میں بھی ریاستی قوت سرپرست نہیں بلکہ خوفناک انداز میں طاقتور دکھائی گئی۔ خان پور ضلع رحیم یار خان کے رہائشی ظفر اقبال جتوئی اپنے دل کے دُکھڑے مجھے سنارہے تھے اور میں ملکی حالات پر پریشان عوام کی حالت بہتر نہ ہونے پر اپنی کم مائیگی کا اظہار کررہا تھا۔ لاہور ہو یا لاڑکانہ کی سیاست پر زور شور کے ملاکھڑے سے متعلق اپنے گزشتہ اظہاریے میں لکھ چکا تھا، لیکن ظفر اقبال جتوئی جیسے کئی احباب ہم لکھاریوں کو سمجھتے ہیں کہ ارباب اختیار کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے ہم اپنے کردار کا درست استعمال نہیں کررہے۔ مجھے شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے کہ جب ارباب اختیار عوام سے کیے وعدے فراموش کردیتے ہیں اور معصوم عوام ہم جیسے بے اختیار لکھاریوں کو ہاتھی کی سونڈھ ہلانے کو کہتے ہیں۔

میں جتوئی صاحب کے غم و غصے کو کم کرنے کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں، کیونکہ پنجاب میں طبقاتی تفریق اور احساس محرومی نے اس بُری طرح پسماندہ رکھے جانے والے شہروں و علاقوں کو گھیر رکھا ہے کہ جس طرف نظر اٹھائیں، الجھن کی سلجھن سمجھ نہیں آتی۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ اگر ملکی اداروں کو سیاست سے پاک کرلیں مگر کچھ معاملات بیشتر اداروں میں ایسے ہیں، جنہیں پاک کرنے کی کسی میں ہمت نہیں اور جو تجربے پر تجربے کیے جارہے ہیں، اس سے استحکام آنا ممکن نہیں۔ میرے عزیز، برادر میں متفق ہوں کہ اس دوغلے نظام میں کسی کو پانی سے دھوکر میک اپ کرکے بٹھایا جائے تو بھی ان پر چپکی میل لوگوں کو نہیں بھولے گی، کیونکہ یہ ان کی زد میں آئے ہیں۔ ضلع رحیم یار خان میں گندم کٹائی کے وقت جن عناصر کی آپ نے نشان دہی کی، وہ ضبط تحریر میں نہیں لاسکتا، لیکن میں ایسے اداروں یا اُن کے اہلکاروں سے ضرور یہ کہوں گا کہ خدارا، کسانوں کی محنت پر جبر کا ہل مت چلائیں، بھوک و افلاس میں مجبور بے کس محنت کش سال بھر کاشت کی گئی گندم سے اپنے پیٹ کی آگ کو بجھاتے ہیں۔ ضلع رحیم یارخان میں کچے کے علاقے میں اس جبر کے عمل سے بھوک و افلاس میں مبتلا کسی بھی خاندان کو اتنا بے بس نہ بنائیں کہ وہ جرم کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو۔

میں برادر جتوئی کی داستاں کے غم میں نوحہ کناں تھا کہ مجھے قاسم علی قاسم نے مزید الجھادیا۔ مشہور کہاوت
ہے کہ کسی زمیندار کی بھینس نے دودھ دینا بند کردیا، زمیندار بڑا پریشان ہوا، اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا، ڈاکٹر نے ٹیکے لگائے لیکن کوئی فرق نہ پڑا، تھک ہار کر وہ بھینس کو شاہ جی کے پاس لے گیا، شاہ جی نے دھونی رمائی، دم کیا، پھونک ماری لیکن وہ بھی بے سود رہی۔ اس کے بعد وہ بھینس کو کسی سیانے کے پاس لے گیا، سیانے نے دیسی ٹوٹکے لگائے لیکن وہ بھی بیکار ثابت ہوئے، آخر میں زمیندار نے سوچاکہ شاید اس کا کھانا بڑھانے سے مسئلہ ٹھیک ہوجائے وہ اسے ماں جی کی خدمت میں لے گیا، ماں نے خوب کھل بنولہ کھلایا، پٹھے کھلائے کسی چیز کی کسر نہ چھوڑی لیکن بھینس نے دودھ دینا شروع نہ کیا۔ لاچار ہوکر وہ اسے قصائی کے پاس لے کر جانے لگا کہ کسی کام کی نہیں ذبح ہی کرالوں، راستے میں اسے ایک سائیں ملا۔ سائیں بولا، پریشان لگتے ہو، زمیندار نے اپنی پریشانی بیان کی، سائیں نے کہا، ’’تم کٹا کہاں باندھتے ہو؟‘‘۔ زمیندار بولا، بھینس کی کُھرلی کے پاس۔ سائیں نے پوچھا، ’’کٹے کی رسّی کتنی لمبی ہے؟‘‘ زمیندار بولا، ’’کافی لمبی ہے‘‘ سائیں نے اونچا قہقہہ لگایا
اور کہا، ’’سارا دودھ تو کٹا چُنگ جاتا ہے تمہیں کیا ملے گا، کٹے کو بھینس سے دُور باندھو۔‘‘

قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قریباً 50 کمیٹیاں ہیں۔ اور ہر کمیٹی کا ایک چیئرمین ہے۔ ہر چیئرمین کے ذاتی دفتر کی تیاری پر 1994 میں دو دو کڑور روپے خرچ ہوئے تھے۔ ہر چیئرمین ستر ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے، اسے گریڈ 17 کا ایک سیکریٹری، گریڈ 15 کا ایک سٹینو، ایک نائب قاصد، 1300cc کی گاڑی، 600 لیٹر پٹرول ماہانہ، رہائش، رہائش کے سارے اخراجات بل وغیرہ اس کے علاوہ ملتے ہیں، اس کے علاوہ اجلاسوں پر لگنے والے پیسے، دوسرے شہروں میں آنے جانے کے لیے مفت جہاز ٹکٹ۔ ایک اندازے کے مطابق یہ کمیٹیاں اب تک کھربوں روپے کا دودھ ’’چُنگ‘‘ چُکی ہیں، اگر ان کٹوں کی رسّی کو کم نہ کیا گیا تو یہ اجلاس اسی طرح جاری رہیں گے اور یہ کٹے ایسے ہی کھربوں روپے کا دودھ ’’چُنگتے‘‘ رہیں گے، پیٹ پر پتھر باندھنے اور کفایت شعاری کے بھاشن صرف عوام کے لیے ہیں۔

اب بات لاہور، لاڑکانہ کی نہیں رہی بلکہ پورے پاکستان کی ہے کہ یہ سب ہوکیا رہا ہے۔ مجھے عوامی مسائل کا ادراک اس لیے ہے کیونکہ میں خود عوام میں سے ہوں۔ ہر مسئلے کو سمجھنا میرا کام ہے، لیکن ان کے حل کے لیے اختیارات اُن کے ہاتھ میں ہیں جو عوام سے وعدے کرکے منتخب ہوتے ہیں، عوام کو سُہانے خواب دکھاتے ہیں اور وہ اُن کی مدھر دُھن ہر سر دُھنتے ہوئے ہر اُس بات پر یقین کرلیتے ہیں جس کا حل نکلنا آسان ہے، لیکن پہلے اس کو مشکل اور ناممکن بنادیا جاتا ہے۔ یہاں بات صرف اقبال ظفر جتوئی اور قاسم علی قاسم کی نہیں۔ میں ان کی سماجی حیثیت کو نمایاں نہیں کرنا چاہتا کہ ان کا کتنا بلند مرتبہ ہے اور کس قدر اہمیت کی حامل شخصیات ہیں۔ لیکن یہ عوام سے ہیں اور لوگوں کے دکھ کو اپنا سمجھ کر ہم جیسے لکھاریوں سے شیئر کرتے ہیں۔ شاید انہیں اس بات کا یقین ہو کہ ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح سن ہی لی جائے، لیکن کون سنے گا۔

میں بھی انتظار کررہا ہوں ایک ایسے اچھے وقت کا، جس کا وعدہ کروڑوں عوام سے کیا گیا ہے، نوکریوں کی برسات کا جس سے بے روزگار نہال ہوجائیں۔ مضبوط معیشت کا جس سے ہم سب غربت کی سطح سے اوپر آجائیں۔ سرائیکی صوبہ ہو یا جنوبی پنجاب، یا پھر کراچی میں انتظامی تقسیم، فاٹا کے حقوق کا معاملہ۔ تو آئیے ہم سب کر سہانے خواب دیکھنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ بغیر سوچے کہ اس کی کیا تعبیر ہوگی۔ ہم جی رہے ہیں یا ہم سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ بس خاموش ہوجائیں کیونکہ ہم جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے والے عوام ہیں۔ ہم میں شعور کب پیدا ہوگا۔ یہ ہمارے لاشعور میں بھی نہیں، کیونکہ ہم تو ’’کٹا چُنگ‘‘ بھی نہیں..


شیئر کریں: