Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے سائے تلے انتخابات….. پیامبر……قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

بھارت میں لوک سبھا کی کُل 543نشستوں کے لئے 11اپریل سے19مئی 2019تک انتخابی عمل شروع ہوگا ۔ کسی بھی اکثریتی جماعت کے لئے 272نشستیں درکار ہوتی ہیں۔الیکشن کمیشن انڈیا کے مطابق 23مئی کو ووٹوں کی گنتی کے ساتھ اسی دن نتائج کا اعلان بھی کردیا جائے گا۔یہ بھارت کے17ویں لوک سبھا کے عام انتخابات ہیں۔ 2014میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے قومی جمہوری اتحاد کے بینر پر انتخابات موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت جیتے تھے ۔ نریندرمودی نے ہندو انتہا پسندی کی سیاست کو اپنا کر بھارتی عوام سے ووٹ حاصل کئے تاہم بی جے پی نے بھارتی عوام سے بڑے بلند بانگ دعوے بھی کئے تھے ۔ موجودہ انتخابات میں نیندر مودی کو اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کئے جانے پر سخت تنقید و مایوسی کا سامنا ہے۔ قومی جمہوری اتحاد کے مقابل انڈین نیشنل کانگریس کے زیر قیادت ترقی پسند اتحاد کو282کے مقابلے میں صرف44نشستوں پر کامیابی ملی تھی جو ایک بدترین شکست مانی گئی تھی۔ تاہم اُس وقت بھارتی جنتا پارٹی نے بھارتی عوام کو درپیش مسائل بد عنوانی ، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے حساس موضوع پر بھی اپنی انتخابی مہم کو بڑی کامیابی سے چلایا تھا جس کے سبب بھارتی عوام نے اُس وقت مودی کو کامیاب کروایا لیکن اب عوام کو اُن کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے جنگی جنون و ہندو انتہا پسندی میں الجھا دیا ۔ گو کہ اس وقت تک نریندر مودی کا ایک ایسا چہرہ بھی عوام کے سامنے تھا جس میں گجرات جیسے مسلم کش فسادات اور مسلم کشی سمیت ہندو انتہا پسندانہ سوچ عروج پر تھی ۔ ہندو انتہا پسندانہ سوچ و عزائم کی وجہ سے نریندر مودی نے بھارتی عوام مودی کے خوشنما نعروں پر یقین کر بیٹھی تھی۔ کیونکہ بھارتی انتخابات میں سنگین جرائم پیشہ امیدواروں کے گینگ کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے اس لئے موجودہ انتخابات بھی ان ہی عناصر کے دباؤ کے تحت ہونگے۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق بھارت لوک سبھا کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ جس کے مطابق11 اپریل کوآندھرا پردیش، اروناچل پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، جموں و کشمیر، مہاراشٹر، میزورم، منی پور، ناگالینڈ، اوڈیشا، سکم، تلنگانہ، تریپورہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال، انڈمان و نکوبار، لکشادیپ،18 اپریل کوآسام، بہار، چھتیس گڑھ، منی پور، جموں اور کشمیر، کرناٹک، مہاراشٹرا، اوڈیشا، تمل ناڈو، تریپورہ، اترپردیش، مغربی بنگال، پدوچیری،23 اپریل کوآسام، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، گوا، جموں و کشمیر، مہاراشٹر، اوڈیشا، کرناٹک، کیرلا، تریپورہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال، دادرا و نگر حویلی، دمن و دیو،
29اپریل کوبہار، جموں اور کشمیر، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیس، مہاراشٹرا، اوڈیشا، راجستھان، اترپردیش، مغربی بنگال،6 مئی کوبہار، جموں و کشمیر، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مغربی بنگال،12 مئی کوبہار، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مغربی بنگال، دہلی اور 19 مئی کوبہار، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، پنجاب، مغربی بنگال، چندی گڑھ، اترپردیش میں انتخابات منعقد ہونگے ۔
نریندری مود نے جب 12جنوری 2019سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو پاکستان دشمنی اور ہندو شدت پسندی انتخابی مہم کے پہلے نمایاں نکات تھے ۔ بھارت میں جب تک پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی نہ کی اُس وقت تک کوئی انتخابی مہم مکمل ہی نہیں ہوتی۔ ہندو شدت پسندی کو اس قدرپروان چڑھایا جاچکا ہے اس پر انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی ہے۔ لیکن مودی سرکار نے اقتدار کے حصول کے لئے کسی بھی قسم کے اخلاقی و سفارتی حدود کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ بھارت میں ہند انتہا پسندی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھارت کی مختلف ریاستوں کی جانب سے ایسے قدامات دیکھنے میں آتے رہے ہیں جس کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں ، خاص طور پر مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں کے مظالم و پرتشدد کاروائیوں کا نشانہ بننا پڑا ۔ سوشل میڈیا میں ان گنت ویڈیوز وائرل ہیں جس میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو بطور خاص نشانہ بنتے دیکھا جاسکتا ہے۔نریندر مودی2014میں بھاری اکثریت لے کر کامیاب ہوئے تھے ۔ مودی اپنے دوسرے دور میں بڑی کامیابی کا خواب لئے بیٹھے ہیں تاکہ مطلوبہ اکثریت حاصل کرکے من پسند قوانین ، جس میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاسکے اور بھارتی عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کرکے خطے میں ہتھیاروں کی خریداری کے عالمی ایجنڈے کو بھی تکمیل تک پہنچا سکیں ۔بھارت میں موجودہ انتخابات خالصتاََ ہندو قوم پرستی کی انتہا پسند کے تحت لڑے جا رہے ہیں اور اس سیلاب میں بھارتی عوام کے اصل مسائل پس پشت چلے گئے جس کی وجہ سے بھارتی عوام کی اکثریت اپنے اصل مسائل کو غائب ہوتے دیکھ کر بھی ہند انتہا پسندی کے خطرناک دور سے گذر رہے ہیں۔
مودی سرکار بھارتی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ اس کا اندازہ سب سے متعدد المناک واقعات میں بھارتی کسانوں کی43فیصد خودکشیوں میں اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔ کسانوں نے اناج کی قیمتوں کے نرخ کم ملنے اور حکومتی اقدامات پر سخت ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔ بھارتی کسان نریندر مودی کی حکومتی کارکردگی سے بُری طرح نالاں نظر آتے ہیں۔انہوں نے حکومت کے ملک گیر سطح پر مرکزی اور ریاستی سطحوں پر بڑے پیمانوں پر احتجاج بھی کیا ۔ بھارت کے عبوری بجٹ، 2019ء میں حکومت نے’’ پی ایک کسان اِسکیم‘‘ کا اعلان کیا تھا جس کی رو سے ہر چھوٹے کسان کو سالانہ 6000 روپئے ملنا تھے لیکن ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کے اس قدم کو ناکافی بتایا گیا ہے۔حکومت کی اسکیموں سے ناراض کسانوں نے بڑے احتجاجی مظاہرے کئے۔ اب تک کسان خودکشیوں کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ حکومت مغربی بنگال سے آل انڈیا ترنمول کانگریس اور حکومت مدھیہ پردیش سے انڈین نیشنل کانگریس نے پی ایم کسان اسکیم کی سخت مخالفت کی ہے۔راہل گاندھی نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کانگریس کی حکومت بنتی ہے تو کسانوں کے قرض معاف کر دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے اسے ووٹ حاصل کرنے والا جملہ قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ 2014میں نریندر مودی نے بھی کسانوں کی خود کشیوں پر کانگریسی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کیا تھا تاہم کسانوں کے مسائل نریندر مودی بھی حل کرنے میں ناکام رہے اور ہزاروں کسانوں نے بنیادی ضروریا ت ، قرضوں کی عدم ادائیگی مہنگائی اور کاشت کاری کے لئے حکومت ناکافی اقدامات کی وجہ سے خودکشیاں کیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے کسانوں سے اُن کے مسائل پر کسانوں سے تاثرات معلوم کئے تو ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے پیاز کے کاشت کار وں کا کہنا تھا کہ، ”وہ (وزیر اعظم مودی) آئندہ مہینوں میں چاہے کچھ بھی کر لیں، میں ان کے خلاف ہی ووٹ ڈالوں گا۔ 2014 والی غلطی نہیں دہرائیں گے‘‘۔ واضح رہے کہ 543نشستوں والی بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں میں اتر پردیش اور مہاراشٹر کی ریاستوں سے 128 قانون ساز منتخب کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں دیہی ووٹ ہی سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ الیکشن میں اگر صرف ان دونوں ریاستوں میں ہی ووٹروں نے مودی کو مسترد کر دیا تو وہ شکست سے دوچار ہو سکتے ہیں یا کم از کم مخلوط حکومت سازی پر مجبور ہو جائیں گے۔ مودی حکومت پر تنقیدکرتے ہوئے ان کسانوں کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت نہ تو فصلوں کی قیمتیں طے کر دینے کا کوئی پروگرام شروع کر سکی ہے اور نہ ہی وہ فصلیں ذخیرہ کرنے کے لیے زیادہ گودام بنانے کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کن اقدامات کر سکی ہے۔ ممبئی کے نواح میں واقع ہیوارگون نامی گاؤں کے کسانوں کا کہنا ہے کہ ’’گزشتہ الیکشن کے موقع پر مودی نے ان کے لیے اچھے دنوں کا وعدہ کیا تھا اور اسی لیے انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ ”لیکن اب ہمیں انتہائی برے حالات کا سامنا ہے۔” بھارتی کسانوں میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار وہ ہیں جن کی اپنی زمین نہیں ہوتی اور اچھی کاشت نہ ہونے پر ان پر قرض کا دباؤ خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے ۔
مودی سرکار کی ناقص پالیسیوں میں سب سے زیادہ جس اقدام نے بھارتی عوام کو مصائب کا شکار کیا وہ تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور سطح غربت سے نیچے آنے کے خطرناک مسائل ہیں۔ مختلف رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ کہ بھارت میں 500 اور 1000 کے نوٹوں کا اسقاط زر کی وجہ سے 1.5 ملین نوکریاں ضائع ہو ئیں۔بے روزگاری کا45برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔نئے ٹیکس کے نظام نے بھی بے روزگاری اور نوکری کی میں اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔نریندر مودی نے معاشی رپورٹ کو مسترد کیا اور7 فروری2019کو ایک بیان میں مرکزی حکومت میں نوکریوں کی کمی کے تاثر کو غلط قرار دیا ۔ تا ہم سی ایم آئی ای کے واضح کیا ہے کہ محض 2018ء میں 11 ملین نوکریاں ضائع ہوچکی ہیں۔حکومت بے روزگاری کی سرکاری رپورٹ شائع کرنے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے۔ قومی کمیشن برائے اعداد و شمار کے صدر نشین نے یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا ہے کہ حکومت نے سال 2017ء۔2018ء کی بے روزگاری کی رپورٹ شائع نہیں ہونے دی۔ ان کے علاوہ کئی سرکاری افسران نے بھی حکومت پر ان کو کام نہ کرنے دینے کا الزام لگاتے ہوئے احتجاجا استعفی دے دیا ہے۔ اسی دوران میں ایک رپورٹ لیک ہو گئی جس میں لکھا ہے کہ سال 2017ء۔2018ء بے روزگاری گزشتہ 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ لیکن حکومت نے بھارتی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ان رپورٹس کو مسترد کیا ، لیکن جواباََ مودی سرکار کو تنقید کا سامنا ہے کہ حکومت بے روزگاری کے حوالے سرکاری رپورٹ منظر عام پر نہیں لا رہی ۔ واضح رہے کہ 7 فروری 2019ء کو تقریباً 30 ہزار نوجوانوں نے قومی دارالحکومت علاقہ دہلی میں‘‘ینگ انڈیا ادھیکار‘‘ مارچ نکالا اور نوکریوں میں کمی کی وجہ سے حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ بزنس اسٹینٹدرڈ اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سیاسی تنازع اس وقت سامنے آیا جب نگراں چیئرمین اور ادارے کے دیگر اراکین نے نوکریوں کے ڈیٹا پر نظر ثانی کی اور بتایا کہ اس کے جاری ہونے میں تاخیر کی گئی جس میں ریاست کے دیگر اداروں کی مداخلت شامل ہے۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل سیمپل سروے آفس کی تشخیص کو جولائی 2017 سے جون 2018 کے درمیان کیا گیا جس میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد بتائی گئی جو 73۔1972 کے بعد سب سے زیادہ رہی۔اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے سربراہ راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ ’بے روزگاری کی شرح ’قومی تباہی‘ ہے۔ رپورٹ کے مطابق مودی کے ’بھارت بناؤ‘ منصوبے، جس کا مقصد مقامی سطح پر پیداوار کو کو بڑھا کر جی ڈی پی کو 17 فیصد سے 25 فیصد تک لے جانا اور 12 لاکھ نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جس میں 15 سے 29 سال کے شہری مرد 18.7 فیصد کے پاس کوئی کام نہیں اور اسی عمر کی شہری خواتین 27.2 فیصد بے روزگار ہیں۔اس سے بھی بری حالت افرادی قوت کی شراکت داری میں سامنے آئی، روزگار تلاش کرنے والی یا کام کرنے والی آبادی کے درمیان تناسب 19۔2017 کے درمیان 36.9 فیصد ہوگیا ہے۔نئی دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر ہمانشو، جو معاشی امور پر مہارت رکھتے ہیں، کا کہنا تھا کہ روزگار کا بحران ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ممبئی میں پی ایچ ڈی افراد کا ویٹر بننا یا گجرات میں چند ہزاروں روپے کی نوکری کے لیے لاکھوں افراد کا درخواست دینا یا ریلوے میں چند آسامیوں پر 1 کروڑ افراد کی درخواست دینے کی خبریں ثابت کرتی ہیں کہ یہ مسئلہ ہر جگہ موجود ہے‘۔واضح رہے کہ بھارت میں جولائی 2017 میں قومی سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے چھوٹے کاروبار میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے تھے۔ بڑھتی شرح غربت اور بے روزگاری کی اہم وجوہات میں مودی سرکاری کی گورنس پر بھی سوال اٹھایا ہوا ہے کہ حکومت تمام اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے۔ حکومتی اداروں اور کام کاج کا غلط استعمال پر 3 فروری 2019ء کو آل انڈیا ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی نے کولکاتا میں ’’دستور بچاو تحریک‘‘ دھرنا دیاتھا۔
مودی سرکار کی تمام سیاست کا دارومدار مذہبی ہندو انتہا پسندی پر ٹکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ مذہب کے نام پر ہندو عوام میں مہم چلاتے ہیں اور مذہبی فرقہ وارنہ رجحانات کی وجہ سے انتخابی ماحول کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ ریاستی انتہا پسندی میں مذہبی اقلیتوں میں سرکاری پشت پناہی کی وجہ سے انتخابی مہم کامیا ب ہوتی ہے ۔ اس کی مثال ایودھیا میں رام مندر و بابری مسجد جیسا تنازع ہے ۔ گذشتہ انتخابات میں رام مندر کے نام پر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی ۔ اس انتخابات میں بھی ہندو انتہا پسند رجحانات کو فروغ حاصل ہے۔ یوگی پر کئی مسلمانوں کے قتل کے الزامات ہیں اس کے باوجود ہندو انتہاپسندی کی وجہ سے انتہا پسندوں میں یوگی کو مقبولیت حاصل ہے اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو خوف کا سامنا ہے۔بھارت میں مودی سرکار نے انتہا پسندی کے کئی خطرناک معاملات کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جس میں خصوصی طور پر گاؤ رکھشا ، بیٹی بچاؤ ، گھر واپسی، مسلمان خاندانوں کو دوبارہ ہندو بنانا، دلتوں کے خلاف نفرت انگیز اور لو جہاد جیسے ان گنت انتہا پسند اقدامات ہیں جن کی وجہ سے ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کو انتخابات کے موقع پر پر تشدد واقعات کا سامنا رہتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایک مسلم آبادی کو اس لئے نشانہ بنا کر آگ لگا دی گئی کیونکہ انہوں نے ہندو انتہا پسندوں کو ووٹ دینے سے انکار کردیا تھا ۔مسلم نوجوانوں کو ہندو شدت پسندوں کی تشدد کا ہر وقت سامنا رہتا ہے جس میں شدت پسند گروپ کسی بھی مذہبی اقلیت خاص طور مسلمان پر بھیانک تشدد کرتے ہیں اور اُس سے ہندو دھرم کے نعرے لگواتے ہیں۔ قصابوں کو غلط اطلاعات پر گائے ذبیح پر سرعام قتل کردیتے ہیں۔ ایسے ان گنت واقعات سوشل میڈیا میں وائرل ہیں جس کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ انتخابات میں ہندو انتہا پسند جماعتوں و تنظیمیں اپنی جیت کے لئے کسی بھی قسم کے خطرناک اقدام سے دریغ نہیں کریں گے ۔ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی میں 30فیصد سے زیادہ جرائم پیشہ افراد کو الیکشن کے لئے ٹکٹ دیا گیا ہے جن پر سنگین الزامات و مقدمات ہیں جس میں نفرت انگیز اقدامات و قتل جیسے مقدمات بھی شامل ہیں۔
بھارتی جنتا پارٹی نے بھارتی عوام کو درپیش مسائل بد عنوانی ، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے اقدامات کو پاکستان مخالف نفرت انگیز مہم میں چھپانے کی کوشش کی ۔ پاکستان کے خلاف مسلسل لائن آف کنڑول کی خلاف ورزیوں میں عام شہریوں کی شہادت روز کا معمول بن چکی ہیں۔ مودی سرکار نے اپنے انتخابی منشور کی ناکامی کو چھپانے کے لئے خود ساختہ پلوامہ جیسا واقعہ کیا جس پر خود بھارت کی عوام اور اپوزیشن جماعتیں سوال اٹھا رہی ہیں کہ اتنے بڑے واقعے کے باوجود مودی کا فلم شوٹنگ میں مصروف رہنا اور ابھی تک پلوامہ کا دورہ نہ کرنا معنی خیز ہے۔ مودی سرکار نے بھارت میں جنگی جنون کو مزید بھڑکانے کے لئے بالا کوٹ میں پاکستانی حدود کی خلاف ورزی ، جس کے بعد پاکستان نے جب دوبارہ بھارتی طیاروں کی خلاف ورزی پر دو طیاروں کو نشانہ بنایا تو مودی سرکار کو اپوزیشن اور عالمی زرائع ابلاغ کو سوال کا جواب دینا مشکل ہوگیا کہ بھارت نے بالا کوٹ میں جو سرجیکل اسٹرییک کا دوبارہ جھوٹا دعوی کیا تھا اُس کے ثبوت کہاں ہیں۔ تو نریندری مودی نے شواہد طلب کرنے والوں کو غدار کہنا شروع کردیا ۔
پاکستانی افواج کے الرٹ رہنے کی وجہ سے بھارت کی ہمت نہیں ہو رہی کہ وہ پاکستان کے خلاد پھر کسی ایڈونچر کا مظاہرہ کرے ، تو دوسری جانب مودی سرکاری پر تنقید بھی کی جا رہی ہے ہے کہ مودی نے بھارتی فوج کو اپنی فوج کیوں کہا کیا بھارتی فوج بھارتیہ جتنا پارٹی کی فوج ہے۔ مودی سرکار نے عوام کی توجہ رافیل کرپشن سے ہٹانے کے لئے ایک خصوصی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت پر رافیل معاملے میں زیادہ قیمت اور ایک خاص کمپنی کو فائدہ پہونچانے کا الزام لگایا ہے۔ کانگریس نے اس معاملہ کو انتخابی مدعا بنایا ہے اور نریندر مودی اور بی جے پی ہر زبردست لفظی حملے کیے ہیں۔ کانگریس کے راہل گاندھی نے اپنی انتخابی مہم میں بھارتی عوا م سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد رافیل کرپشن کیس کی تحقیقات کرائیں گے۔مودی سرکار سیاسی طور پر ایک ناکام حکومت ثابت ہوچکی ہے تاہم ہندو انتہا پسند ی کے غبار میں انتخابات بھارتی عوام کے لئے بذات خود بڑا امتحان ہے۔کہ انہیں ان کے مسائل و غربت کو حل کرنے والی حکومت درکار ہے یا جنگی جنون اورانتہا پسند کی پہچان دینے والی ۔ فیصلہ بھارت کی عوام خود کرے۔بھارت کے موجودہ انتخابات خود بھارت کے لئے اس لئے اہم ہیں کہ ان کے دیرنہ مسائل حل کرنے بجائے مودی سرکار نے معاشی مسائل کے ساتھ جنگ کے بادل بھی ان پر مسلط کردیئے ہیں۔


شیئر کریں: