Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال میں شادی………..تحریر: دلشاد پری

Posted on
شیئر کریں:

چترال میں غیر مقامی افراد کی مقامی لڑکیوں سے شاد ی سے متعلق ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے بہن بھائیوں کے ذہنوں میں جو تصور یا خاکہ موجود ہے ، وہ نہ صرف عجیب ہے بلکہ ہتک امیز ی کی حد کو بھی چھوجاتی ہے ۔ ان کے معلومات کے مطابق یہاں پر بنت حوا شادی کے نام پر غیر مقامی لوگوں پر بھاری رقم کے عوض فروخت ہوتی ہے۔ایک دفعہ پشاور سے چترال آرہی تھی ایک پنجابی عورت کو ایک70سال کے باریش بڈھے مرد کے ساتھ چترال کی گاڈی میں بیٹھتے دیکھا،اتفاقآ مجھے بھی اس خاتون کے ساتھ سیٹ مل گئی۔باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کہ اپنے اس بڈھے دیور کے لئے چترال سے تعلیم یافتہ لڑکی خریدنے آئی ہے،دل تو چاہ رہا تھا کہ اس عورت کا منہ نوچ لوں مگر مہمان اور ماں کی عمر کا سمجھ کے اپنی اس خواہش کا گلہ گھونٹنا پڑا۔یوٹیوب پہ کوئی ویڈیو دیکھ رہی تھی کہ اچانک میری نظر ایک ویڈیو پہ پڑی جس کے اوپر لکھا تھاَ ؛؛چترال میں شادی کا آسان نسخہ؛؛اوپن کرکے دیکھاتو سر ہی گھوم گیا اتنی عجیب قیاس آرائیاں جن کی کوئی بنیاد ہی نہی تھی۔آخر یہ لوگ کیوں ایسے گندے سوچ ہمارے متعلق رکھتے ہیں؟کیوں یہ لوگ ہمارے روایات اور رسم و رواج کو غلط رنگ دیتے ہیں؟یہ منفی سوچ ان کا اپنا تخلیق کردہ ہیں جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور چترالی معاشرے میں لڑکی کو شادی کے معاملے میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کی یہاں ایک غریب لڑکی کی شادی بھی نہایت آسانی اور دھوم دھام سے ہو جاتی ہے جبکہ شہروں میں جہیز کی لالچ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ غریب ماں باپ کی بیٹی شادی کا ارمان سینے میں دبائے اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔

ہمارے رسم و رواج میں ایک رواج یہ بھی ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو لڑکے والوں کی طرف سے شادی کے خرچے کے لئے امداد کے طور پر رقم دی جاتی ہے جو صرف اس شادی پہ خرچ ہوتا ہے۔اور اسی کو ہمارے پنجابی اور پٹھان بھائی غلط رنگ دے کر کہتے ہیں کہ ہم اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں سے جو لڑکیاں پنجاب یا دیگر علاقوں میں بیاہی جاتی ہے اس کو وہ لوگ اپنا خریدا ہوا مال سمجھ کے بہت ناروا سلوک کرتے ہیںِ ،کیونکہ ماں باپ وہاں اتنی دور بیٹیاں بیاہ کے جیسے بھول جاتے ہیں پھر پیچھے آکے جب کوئی حال پوچھنے والا نہی ہوتا تو جتنا برا سلوک اس خریدے مال کے ساتھ کرنا ہوتا ہے وہ کر دیتے ہیں۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ہمارے روایات سے واقف ہیں اور جو تعلیم یافتہ ہیں وہ کسی حد تک ہماری بیٹیوں کو خوش رکھ سکتے ٰہیں۔اس لئے رشتے سوچ سمجھ کے کرنی چاہےئے۔جن ماں باپ نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں وہاں کی ہیں ان کو ضرور پتا ہوگا کہ اولآ اپنے بیٹے کی پہلی شادی کبھی چترال میں نہی کرتے اگر کرتے بھی ہیں تو ان کی جن کی پہلی بیوی مر چکی ہو یا جن کی اولاد نہ ہو رہی ہو جن کی بیویوں میں کوئی نہ کوئی نقص ہو۔میری ایک سہیلی نے یہاں تک بتا دیا کہ ہمارے ہاں جب بیوی شوہر کی نافرمانی کرتی ہے تو شوہر اس پر چترالی سوتن لانے کی دھمکی دیتا ہے جو بہت بڑا طعنہ سمجھا جاتا ہے۔کیوں ہمیں یہ لوگ اتنا ارزاں سمجھتے ہیں؟ہماری خواتین شہروں کے خواتین کی نسبت زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہیں اور سلیقہ شعار بھی ،پھر کیوں یہ لوگ ھمارے متعلق اتنے گندے سوچ رکھتے ہیں؟بہت سے علاقوں میں تو ہماری بیٹیوں کو مفت کا مال سمجھ کے قتل کرکے ہضم بھی کر دےئے گئے۔کوہاٹ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔اسلئے چترالی والدین سے میری اپیل ہے کہ بنا کسی ویریفیکشن کے اپنی بیٹی کو بوجھ سمجھ کے آسانی سے کسی کے حوالے نہ کر دے۔کیونکہ بیٹیاں بوجھ نہی ا للہ پاک کی رحمت ہوتی ہیں۔

اس منقی پروپیگنڈے کی تردید کے لئے یوٹیوب پہ چترال کے متعلق جو پروپیگنڈے والے ویڈیوز ا پ لوڈ کئے جاتے ہیں ان پہ پابندی لگا دی جائے۔اکژ جب چترال کی ثقافت کی بات آجاتی ہے تو صرف یہی ایک ڈانس دیکھائی جاتی ہے۔کیا اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہی۔اتنی سارے تاریخی عمارات ۔ثقافتی کھیل اور بھی بہت سے علمی و ادبی سرمایے ہمارے پاس ہیں،یہ لوگ تو سمجھتے ہیں کہ ہمیں ڈانس کے سوا کچھ نہی آتا۔اور ماں باپ سے التجا ہے کہ جب اپنی بیٹیوں کی شادیاں وہاں کرے تو ان کی خبر گیری اور حال و احوال بھی پوچھتے رہنا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
20705