Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پاکستان سپر لیگ اور’’ عورت مارچ ‘‘کی گہماگہمی پیامبر……. قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

متحدہ عرب امارات سے پی ایس ایل سے مرحلہ وار منتقلی سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کی توقعات بڑھتی جا رہی ہیں۔ کرکٹ کے ساتھ پاکستانی عوام کی دلچسپی جنون کی حد تک ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے انعقاد کو لاہور میں سرلنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردی کے حملے کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ۔ تاہم جس طرح پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کامیابیاں حاصل کیں اسی طرح کرکٹ جیسے جنٹلمین کھیل کی رو نقیں بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ کراچی عالمی مقابلوں کا اہم مرکز رہا ہے لیکن کراچی کے بے امنی کی وجہ سے جہاں تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں تھی تو دوسری جانب کراچی میں امن قائم ہونے کے باوجود روایتی سرگرمیوں کی بحالی میں مسائل کا سامنا رہا ۔ تاہم وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ میں کرکٹ بحالی کے لئے کراچی میں پی ایس ایل منعقد کرانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے اجڑا کراچی کرکٹ اسٹیڈیم دوبارہ آباد کیا گیا اور گذشتہ پی ایس ایل میں برق رفتاری کے ساتھ کراچی کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر نو کرکے کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے حالیہ پی ایس ایل میچوں میں کراچی کی نمائندگی زیادہ رکھی گئی تاہم بھارت اور پاکستان کشیدگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہنگامی طور پر پی ایس ایل کے تمام میچوں کو کراچی میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ قلیل ترین وقت میں کراچی میں فائنل سمیت تمام میچوں کا انعقاد بلا شبہ سندھ حکومت اور سیکورٹی اداروں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔جو وزیر اعلیٰ سندھ نے قبول کیا اور بالاآخر پاکستان سپر لیگ کا ازسرنو ترتیب دیئے گئے پروگرام کے مطابق نو مارچ: لاہور قلندرز بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ،دس مارچ: کراچی کنگز بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز،11 مارچ: لاہور قلندرز بمقابلہ ملتان سلطانز، کراچی کنگز بمقابلہ پشاور زلمی،13 مارچ: پہلے اور دوسرے نمبر کی ٹیموں کے درمیان کوالیفائر،14 مارچ:تیسرے اور چوتھے نمبر کی ٹیموں کے درمیان ایلیمنیٹر ون،15 مارچ: ایلیمنیٹر ٹو اور17 مارچ کوفائنل ہوگا۔اہل کراچی پی ایس ایل کے انعقاد کے حوالے سے انتہائی پرجوش ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہل کراچی اپنے شہر کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بننے پر مسرت کا اظہار کررہے ہیں ۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کی آمد بھی اہل کراچی کے لئے مسرت کا باعث بنی ہوئی ہے لیکن قومی کھلاڑیوں اور میچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے کی جانے والی اپیل پر مثبت رجحان کراچی پرجوش نظر آتے ہیں۔پی ایس ایل میچوں میں چوکے چھکوں اور مسرت و جوش کے لمحوں نے دنیا بھر میں محبت امن و آشتی کا پیغام پہنچایا۔۔
گو کہ پاکستان پر بھارتی جارحیت اور جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں لیکن قوم کو اپنی فوج پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ زمینی ، سمندری اور فضائی نگرانی میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض بھرپور طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔اس لئے اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ایک جانب بھی بھارت کی عوام کو خوف و ہراس و جنگی جنون میں مبتلا کیا ہوا ہے بھارتی عوام کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں تو دوسری جانب پاکستانی عوام مکمل اظہار یکجہتی بھی کررہی ہے اور کسی بھی قسم کا خوف کا شکار ہوئے بغیر خوشیوں کو اپنی اپنی جھولی میں بھر رہی ہیں۔ پی ایس ایل کے بقایا تمام میچوں کا انعقاد اہل کراچی کے لئے کسی خوبصورت تحفے سے کم نہیں ہے ۔ جس کا لطف اٹھانے کے لئے کراچی کرکٹ اسٹیڈیم ہی نہیں بلکہ کراچی میں موجود معروف نجی کرکٹ اسٹیڈیم میں بھی پی ایس ایل میچوں کو دکھانے کے لئے خصوصی اہتمام کئے جا رہے ہیں۔ بڑی الیکٹرونک اسکرین پر اُن شایقین کو بھی میچوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جارہا ہے جو کرکٹ ٹکٹ لینے سے محروم رہ گئے تھے ۔ کیونکہ اس بار پی ایس ایل میں ٹکٹ کی قیمتیں کم رکھی گئی تھیں اس لئے تمام ٹکٹوں کی فروخت سے کراچی کرکٹ اسٹیڈیم اور اطراف میں لگائی جانے والی اسکرینیں عوام کو اپنی فیورٹ ٹیم کی پرفارمنس کو دیکھنے سے لطف اندوز ہوسکے گی ۔ دعا گو ہیں کہ تمام میچ اچھے ماحول میں منعقد ہوجائیں اور امید بھی یہی ہے کہ سیکورٹی اداروں کے فل پروف انتظامات کی وجہ سے پی ایس ایل کا پر امن اور پرجوش انعقاد ممکن ہوسکے گا ۔ جس کے بعد اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں بین لااقوامی کرکٹ ٹیموں کا رخ واپس پاکستان کی جانب ہوجائے گا اور پاکستانی عوام بھی عالمی کرکٹ کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر دیکھ سکیں گے۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی کوشش ہے کہ کراچی میں پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کے بعد اگلے ایڈیشن کے لئے حیدرآباد میں پی ایس ایل میچ کرائے جا سکیں ۔ اس بات کی امید ہے کہ اگلا ایڈیشن مکمل طور پر پاکستان میں منعقد ہوسکتا ہے کیونکہ اُس وقت تک پاکستان میں امن کا قیام مزید مستحکم ہوجائے گا ۔ ان شا اللہ
پی ایس ایل کے انعقاد کے علاوہ غیر سیاسی سرگرمیوں میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سماجی تنظیموں نے خواتین کے جائز حقوق کے لئے ’’ عورت مارچ‘‘ کے بھرپور انتظامات کئے ۔ ’’ عورت مارچ ‘‘ کے حوالے سے عوام میں آگاہی مہم چلائی گئی کہ ہمارے معاشرے میں صنفی امتیاز کی خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ دفاتر، تجارتی ، سرکاری اداروں سمیت تمام کاروباری مراکز میں خواتین کو مَردو ں کے برابر جائز حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں خواتین کے ساتھ گھریلو ماحول میں عزت و اقدار کو اسلام کے دیئے گئے اصولوں کے مطابق اپنانے کی ضرورت ہے۔ دین اسلام میں انسانیت کے ناطے تمام طبقوں کے لئے برابری کی سطح پر قوانین اور سنہرے اصول متعین کئے ہوئے ہیں، اسلام کے درخشاں اصول و قوانین کی درست تشریح کرکے خواتین کی خصوصی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مغرب زدہ ماحول سے ماحول سے متاثر اور مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کرنے والی ایسی این جی اوز بھی ہیں جو اسلامی اصولوں کی غلط تشریح کرتی ہیں۔جس سے اسلامی تشخص کو خود ساختہ اصولوں کے تحت مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام میں خواتین کی عزت حرمت کا جتنا زیادہ احترام رکھا گیا ہے ، مغرب بھی اس کا معترف ہے اور خواتین کی عزت و حرمت کے لئے اسلامی اصولوں سے استفادہ حاصل کرکے اپنے ناموس کو محفوظ بنانے کے لئے کھلے دل سے اعتراف بھی کرنے لگے ہیں۔ اسلام فوبیا کا خوف مغرب میں خصوصی ایجنڈے کے تحت پھیلایا گیا ۔ جسے مغرب خود ہی تحقیق کرکے دور کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ اسلام کے حوالے سے سنی سنائی باتوں اور سینکڑوں برسوں کی کچھ ایسی ناپسندیدہ روایات کو بھی اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے جس کا دین اسلام سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا ۔ خواتین کے احترام و حقوق کے لئے دین اسلام میں جتنی گنجائش دی گئی ہے اور خواتین کے حقوق دینے جتنے زیادہ احکامات دیئے گئے ہیں وہ دنیا کے کسی نظام میں نہیں پائے جاتے۔ فرق صرف نکتہ نظر کا ہے کہ اگر کسی لسانی اکائی نے سینکڑوں برسو ں سے رائج ایسی روایات کو تعلیم اور دین سے دوری کے سبب اپنا لیا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ اسلام کے احکامات ہیں۔ بلاشبہ خواتین کے ساتھ کئی معاملات میں صنفی امتیاز برتا جاتا ہے ۔ لیکن یہ صر ف کسی ایک شہر ، ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا عالمگیر مسئلہ ہے۔ جیسے ایک تراوز میں تولنے اور ماحول سے غیر مطابقت رکھنے کی وجہ سے جبری مسلط کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔عورت مارچ کے حوالے سے اُن کے تمام جائز حقوق کو تسلی کرنا اور انہیں تحفظ اور احترام مہیا کرنا ، خاندان، قوم ، حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے اور پدری نظام میں خواتین کی عزت و حرمت و ناموس سمیت تمام جائز و قانونی حقوق کی فراہمی مَردوں کے فرائض میں شامل ہیں۔ خاندانی رسم و رواج میں کسی خاتون کے ساتھ صنفی امتیاز یا بے انصافی کو کسی مخصوص قومیت یا مذہب سے جوڑنے کی روش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
19797