Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مودی حکومت کو کشمیر چاہئے کشمیری نہیں………… عابد انور نئی دہلی

شیئر کریں:

ہندوستان میں جس طرح گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے اتنا اضافہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ نفرت انگیز تحریکوں کے بانی ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ کے وابستہ لیڈران تھے جنہوں نے نفرت میں پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چوں کہ مسلمانوں کا اثر ، دبدبہ، ہندو مسلم اتحاد اور اخلاقی قدریں باقی تھیں اس لئے وہ بہت کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ لوگوں میں اس وقت جدوجہد آزادی کے اثار و نشان باقی تھے اور ہندومسلمانوں کی قربانی سے واقف تھے اس لئے بھی ان نفرت انگیز مہمات کا اثر ان پر نہیں پڑتا تھا لیکن جوں جوں اس کا اثر ختم ہوتا گیااس کی جگہ نفرت کی مہم جگہ لیتی گئی۔ اس مہم میں اس وقت ابال آیا جب لال کرشن اڈوانی نے خونی رتھ یاترا شروع کی۔ یہ رتھ یاترا جس جگہ سے بھی گزری وہاں اپنا خونی نشان چھوڑتی گئی اور پورا ملک فرقہ وارانہ فسادات کی زد میںآگیا اور پورے ملک میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ آخر کاربہار کے اس وقت وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے سمستی پور کے مسری گراڑی میں لال کرشن اڈوانی کے رتھ کو روکا اور انہیں گرفتار کیا لیکن اس وقت یہ یاترا پورے ملک میں خونی بیج بوچکی تھی۔ اس کے بعد پھر لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے رتھ یاترا شروع کی اور یہ رتھ یاترا بھی نفرت پھیلانے میں کافی معاون ثابت ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بابری مسجد ی کی شہادت ہوئی. اس شہادت میں بی جے پی اعلی قیادت سمیت تمام کم و بیش تمام لیڈران براہ راست یا بالواسطہطور پر ملوث تھے۔ سابق وزیر اعظم نے بابری مسجد کی شہادت سے عین ایک دن قبل بابری مسجد کی شہادت کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ کارسیوا کے لئے زمین کو ہموار کرنا پڑتا ہے لیکن ہندوستانی نظام عدالت کا کمال دیکھئے کہ وہ بے داغ نکلے اور جن لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر بھی ہوا اب تک ان میں. سے کسی کو ایک دن کی بھی سزا نہیں. ملی۔اس کی جگہ اگر مسلمان ہوتے ان میں کم از کم دو چار کو کب کی پھانسی کی سزا مل چکی ہوتی اور سب جیل میں سڑ رہے ہوتے۔اس کے بعد مسٹر اڈوانی کاخونی رتھ یاترا جاری رہا لیکن ہندوستانی نظام عدل کا کمال دیکھئے کبھی اس نے ان خونی یاتراؤں پر نہ توپابندی لگائی اور نہ ہی خونی رتھ یاترا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے لئے مسٹر اڈوانی کوذمہ دار ٹھہرایا۔اس طرح ملک میں نفرت کا ماحول مسلمانوں کے خلاف پیدا ہوتا گیااور اس طرح کے لیڈر نفرت پھیلاتے پھیلاتے ایوان اقتدار میں پہنچ گئے اور وزیر داخلہ اور وزیر اعظم تک بنے۔ نفرت کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت میں سب کو حصہ ملا لیکن ملک نفرت کی دلدل میں پھنستا گیا۔ اس وقت بات بات پر جو نفرت کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ کشمیر میں جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کے بہانے مسلمانوں پر نشانہ لگایا جاتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔سرحد پر جب سپاہی تعینات ہوں گے تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہی ہے لیکن اس معاملے کے لئے مسلمانوں کو گالی دی جاتی ہے لیکن یہی واقعہ چین کی سرحد پریا دیگر سرحد پرہوتا ہے یا نکسلی حملہ میں. درجنوں نیم فوجی مارے جاتے ہیں تو اس پرکوئی غصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی دیش بھکتی جاگتی ہے، نہ ہی ترنگا یاترا نکلتی ہے۔ سکما نکسلی حملے میں 75سیکورٹی اہلکار مارے گئے تھے لیکن اس وقت نہ بدلے کی بات کی گئی اور نہ ہی کوئی نفرت کاماحول پیدا کیا گیا اور نہ ہی ٹی و ی ڈیبیٹ میں بدلہ لینے کی بات کی گئی اور ٹی وی رپورٹر کو بھی کوئی غصہ نہیں آیا لیکن جب بھی کشمیر میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے اسے بہانہ بناکر نہ کشمیری مسلمانوں پر حملہ کیا جاتا ہے بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے لیتہ پورہ میں سری نگر جموں قومی شاہراہ پر جمعرات 14 فروری 2019 کو ایک ہلاکت خیز خودکش دھماکے میں 50سی آر پی ایف اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ یہ وادی میں سیکورٹی فورسز کے خلاف اپنی نوعیت کا سب سے بڑا خودکش حملہ تھا۔ حملے کی تحقیقات قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کررہی ہے۔جنگجوؤں کی جانب سے یہ تباہ کن خودکش دھماکہ ایک کار کے ذریعے کیا گیا۔ جنگجو تنظیم جیش محمد نے حملے کی ذمہ داری لی ہے۔ جیش محمد نے ایک مقامی خبررساں ایجنسی جی این ایس کو بھیجے گئے بیان میں خودکش حملہ آور کی شناخت عادل احمد ڈار عرف وقاص کمانڈو ساکنہ گنڈی باغ کاکہ پورہ پلوامہ کے بطور کی ہے۔ حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے۔ ‘سی آر پی ایف کی 78 گاڑیوں کا ایک قافلہ جو 2574 اہلکاروں پر مشتمل تھا، جموں سے سری نگر کی جانب رواں دواں تھا کہ سہ پہر قریب ساڑھے تین بجے خودکش حملہ آور نے اپنی کار ایک بس کے ساتھ ٹکرادی’۔ جس کے نتیجے میں سی آر پی ایف اہلکار ، سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ گئے، جبکہ متعدد دیگر بسیں بھی متاثر ہوئیں’۔مہلوک سی آر پی ایف اہلکاروں کا تعلق 76، 45، 176، 115 ، 92، 82، 75، 61، 35، 21، 98 اور 118 بٹالین سے تھا۔ مہلوک اہلکاروں میں سے قریب 10 ہیڈ کانسٹیبل جبکہ باقی کانسٹیبل تھے۔خودکش حملے کے لئے استعمال کی گئی گاڑی میں ڈھائی سو سے زیادہ کلو گرام وزنی آر ڈی ایکس نصب تھا۔ یہ وادی میں 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی مسلح شورش کے دوران اپنی نوعیت کا سب سے بڑاخودکش حملہ ہے۔
وادی کشمیر میں مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی شاہ گیلانی ، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں لیتہ پورہ پلوامہ میں پیش آئے ہلاکت خیز خودکش دھماکے پر کہا ہے کہ کشمیر کے عوام اور قیادت کو اس سر زمین پر ہر قیمتی انسانی جان کے تلف ہونے پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ ہم جو اپنے عزیزوں اور جوانوں کے جاں بحق ہونے پر روز اْن کے جنازے اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں اْس دکھ اور درد کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو مرنے والوں کے اہل خانہ اْن کے عزیز و اقارب اور اْن کے دوست و احباب کو ہوتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں تاخیر اور جموں کشمیر کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کو سمجھنے کے بجائے بنیادی طور ایک سیاسی اور انسانی مسئلے کو صرف فوجی ذرائع اور طاقت کے بل پر دبانے کی پالیسی نے کشمیر میں ایک خطرناک صورتحال کو جنم دیا ہے خاص کر نوجوان نسل اس کا شکار ہورہے ہیں۔ اگر موت اور تباہی کے اس رقص کو روکنا ہے تواس کا سب سے مہذب اور بااثر طریقہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سے جڑے تینوں فریقوں کی آراء اور اْن کے خدشات کو سمجھ کر انسانیت اور انصاف کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔دریں اثنا مزاحمتی قائدین نے گوجر نگر جموں میں چندشرپسند عناصر کی جانب سے کشمیریوں اور مقامی مسلمانوں کی گاڑیوں کو نذر آتش کئے جانے اور درجن بھر افراد کو زخمی کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات حد درجہ افسوسناک اور قابل مذمت ہیں۔جموں میں 1947 سے ہی چند عناصر کشمیر اور مسلم مخالف پالیسی پرکاربند رہتے ہوئے کشمیری عوام اور وہاں کے مقامی مسلمانوں کے خلاف شرارت آمیز کارروائیاں کرنے کے کسی بھی موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
پلوامہ حملے کے بعد جموں میں جمعہ کو ہجوم کے ہاتھوں مسلم آبادی والے گوجر نگر اور پریم نگر میں کم از کم دو درجن گاڑیاں جلادی گئیں، دیگر کئی درجن گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا اور متعدد رہائشی مکانات کے شیشے چکنا چور کردیے گئے۔ طرفین کے مابین پتھراؤاور پولیس کاروائی میں قریب ایک درجن افراد زخمی ہوگئے ہیں۔انتظامیہ نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر پورے ضلع جموں میں کرفیو نافذ کردیا تھا۔شہر کے مختلف حصوں میں فوج تعینات کردی گئی تھی۔ جموں شہر میں احتجاجی مظاہرین کے ایک گروپ جس میں سخت گیر ہندو تنظیموں جیسے بی جے پی، وی ایچ پی، راشٹریہ بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے وابستہ کارکن جموں شہر کی سڑکوں پر نکل آئے اور پلوامہ حملے کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ احتجاجیوں نے اپنے ہاتھوں میں ترنگے اٹھا رکھے تھے اور مسلم آبادی والے گوجر نگر اور پریم نگر پر دھاوا بول دیا۔ جموں کے جانی پور ہاؤسنگ کالونی میں رہائش پذیر کشمیریوں نے جمعہ کے روز کہا تھاکہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں کیونکہ مشتعل ہجوم ان کے مکانوں پر پتھراؤ کررہے ہیں۔ مظاہرین کو یہ نعرے لگاتے ہوئے سنا گیا : ‘دیش کے غداروں کو گولی مارو….کو، پاکستان ہائے ہائے، پاکستان مردہ باد، بھارت ماتا کی جے، انڈین آرمی زندہ باد، خون کا بدلہ خون سے لیں گے’۔سویم پنڈو نامی ایک احتجاجی نے پاکستان کے ساتھ جنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ‘مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ شروع کی جائے۔ بہت بات چیت ہوگئی۔ ہم سب قوم پرست ہیں۔ ہمارا یہ احتجاج صرف پاکستان کے خلاف نہیں ہے، بلکہ دیش میں رہنے والے ان غداروں کے خلاف بھی ہے، جو سوشل میڈیا پر ہندوستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ کل وہاں (کشمیر میں) خوشیاں منائی گئیں۔ ہم ان غداروں کے خلا ف احتجاج کررہے ہیں’۔’کشمیری کھاتے ہندوستان کا ہے لیکن پاکستان کے گیت گاتے ہیں۔
پلوامہ حملے کے بعد یہ نفرت طوفان کی شکل اختیار کرگئی اور پورے ملک میں کشمیری نوجوانوں، طالب علموں، طالبات، تاجروں، شال فروخت کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کشمیری اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کھیل کھیلنے والے فرقہ پرست عناصر جن میں بیشتر کا تعلق کسی نہ کسی صورت میں سنگھ پریوار سے ہوتا ہے ۔ پلوامہ حملے کے بعد تو حد ہی ہوگئی۔ سارے ٹی وی چینل والے نفرت پھیلانے میں مسابقت کر رہے تھے اس میں بی جے پی لیڈر کسی سے کم نہیں تھے ۔ بی جے پی لیڈرٹی وی ڈیبیٹ میں مسلمانوں کو گالی گلوج کر رہے تھے لیکن ملک کا قانون اپنی بے بسی پر خون کا آنسو بہار ہا تھا۔ اس بہانے پورے ملک میں خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں کی بی جے پی کی حکومت ہے یا بی جے پی حکوت میں شریک ہے وہاں طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے غنڈے لاٹھی ڈنڈے اور ہتھیار لیکر گھومتے اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے نظر آئے۔ ملک بھر میں کشمیری طلبہ و طالبات پر ،ان کے ہوسٹلوں پر حملہ کیا گیا،جگہ جگہ لڑکیوں کوزدوکوب کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج ہزاروں کی تعداد میں کشمیری لڑکیاں اور لڑکے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو کوئی خیرات میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں، اس کے لئے پیسے دیتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی بنیوں اور تعلیمی اداروں کے مالکان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ جموں و کشمیر کے علاوہ ملک کے دیگر حصے میں تقریباً 22ہزارکشمیری طلبہ وطالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں سے کشمیرمیں سامان جاتا ہے۔گیہوں مکمل طور پر ملک کے دیگر حصے سے کشمیر میں جاتا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار اور دیگر شدت پسند ہند جن کی تعداد بہت زیادہ ہے،یہ سوچتے ہیں کہ کشمیری ہندوستان کے رحم و کرم پر پل رہے ہیں اگرنئی دہلی بھیک نہیں دے گا تو کشمیری بھوکوں مرجائیں گے۔ ان کے کاروبار تباہ ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔سچ تویہ ہے کہ اس وقت کی حکومت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کو صرف کشمیر سے مطلب ہے کشمیریوں سے نہیں۔ ورنہ وہ اپنے غنڈوں کو ضرور سمجھاتی۔
بھارت وہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور میگھالیہ کے گورنر تتھاگت رائے نے آئینی عہدے پر رہتے ہوئے مسلسل غیر آئینی بیان بازی کرکے حکومت کو شرمسار کیا ہے لیکن مودی حکومت نے کبھی اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تتھاگت راے کے بیا ن کی حمایت کرتی ہے۔ پلوامہ واقعہ کے بعد تتھاگت رائے بہت ہی غیر ذمہ دارانہ اور غیر آئینی بیان دیا ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا ’’کشمیر نہ جائیں، امرناتھ نہ جائیں دوسال کے لئے، کشمیری سامان نہ خریدیں، کشمیری ایمپوریم سے سامان نہ خریدیں، کشمیری تاجروں سے سامان نہ خریدیں، موسم سرما میں کشمیر سے آنے والے شال تاجروں کا بئائیکاٹ کریں۔ اس بیان مودی حکومت نے تتھاگت رائے کی نہ مذمت کی اور نہ ہی ان سے استعفی طلب کیا جس کا سیدھا سیدھا مطلب ہے مرکز ی حکومت گورنر کے بیان سے متفق ہے۔ تتھاگت رائے یہیں نہیں رکے انہوں نے بالواسطہ طور پر فوج کو کشمیری خواتین کی آبروریزی کے لئے بھی اکسایا۔ سب سے لبرل اورآزاد خیال اور تعصب سے پاک کہے جانے والے فلمی ستارے بھی بی جے پی کے رنگ میں سرابوں نظر آرہے ہیں۔ وہ کھلے عام کہتے نظر آرہے ہیں کہ آپ اپنا غصہ ظاہر کیجئے ۔ اس کا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے کہ کشمیری اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت کااظہار کیجئے اور ان کو نشانہ بنائے۔
جہاں پورا ملک پلوامہ حملے سے غمگین تھا ،اپوزیشن نے اپنے سارے سیاسی پروگرام ملتوی کردئے وہیں ہمارے پردھان سیوک ریلیوں میں مصروف رہے اور اس دوران انہوں نے 16انتخابی ریلیاں کی، سات پروجیکٹ کا افتتاح کیا، دو انتخابی اتحاد کئے اور دو غیر ملکی دورے کئے۔ پلوامہ حملے کا ان پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کے برعکس اس کی ساری توجہ اس پر مرکوز ہوگئی کہ پلوامہ حملے کا انتخابی فائدہ کیسے اٹھایا جائے جس کا اظہار پردھا سیوک نے متعدد ریلوں میں کیا۔ اس کے علاوہ اس حکومت نے یہ ثابت کردیا ہے اس کو صرف کشمیر چاہئے کشمیری نہیں۔ وہ وہاں کے مسلمانوں کو تباہ کرکے وہاں کی زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ذرا سوچئے جو کشمیری طالب علم زدوکوب کا شکا ر ہوکر واپس کشمیر جارہے ہیں وہ کیا بنیں گے۔ آگے چل کر وہ جنگجو بن جاتے ہیں اس کی ذمہ داری کس کی ہوگی، کیا مرکزی حکومت ، بھارتیہ جنتا پارٹی، سنگھ پریوار اور یہاں کا ہندو سماج اس کے لئے ذمہ دار نہیں ہوگا۔ اتراکھنڈ کے متعدد تعلیمی اداروں ،ہوٹلوں میں بورڈ لگادیا گیا ہے کہ کشمیر یوں کو یہاں اجازت نہیں ہے۔ اتراکھنڈ اور ہریانہ سے دو ،دو سو کشمیری لڑکیوں کو جبراً بھیجا گیا ہے، ایک کشمیری ٹیچر کو جبراً معطل کیا گیا،۔ اس طرح کی حرکت سے ہندوستانی لیڈروں اور کچھ ریاستوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ افسوس ملک کے مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے جس طرح پلوامہ حملے کی مذمت کی اس طرح ملک میں کشمیریوں پر حملے کے خلاف نہ تو مذمت کی اور نہ ہی میدان میں آئے۔ اسی کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پلوامہ حملے سے کس کو فائدہ ہوا۔ پلوامہ حملے سے پہلے رافیل کا معاملہ گرم تھا، حکومت بیک فٹ پر چلی گئی تھی، اعلی طبقات کے ریزرویشن کے معاملے حکومت گھری ہوئی تھی، 13روسٹر بھی حکومت کی گلے کی ہڈی بن گئی تھی۔ کسانوں کی حالت، مہنگائی، بے روزگاری، ایس سی ، ایس ٹی اور دیگر مسائل پر حکومت چاروں طرف سے گھری ہوئی تھی جو پلوامہ حملے کے بعد غائب ہوگئے۔جانچ میں فائدہ کس کو ہوگا اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور اسی اصول پر مجرموں کو پکڑاجاتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
19441