Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہسپتال میں تین دن ……………….تحریر : اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

موجودہ د نیا کی معاشرتی زندگی پر سر دمہری اور شقی القلبی کا عنصر غالب ہونے کا تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے۔ باہمی محبت ،ہمدردی،رواداری، شرافت، اخلاق، غمخواری ،جذبہ خدمت،حسن سلوک وغیرہ دل آویز الفاظ کی چاشنی معدوم ہوتی جارہی ہے۔ خودغرضی،مفاد پرستی،بدعنوانی،بدخواہی ،بدکرداری اورحرام خوری جیسے الفاظ کو جلا نصیب ہورہا ہے۔ انسان ایک دوسرے کے لئے بھیڑے کے روپ میں نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر قسم کی نعمتوں اور سہولیات سے فیضیاب ہونے کے باوجود ان کی لذت اور اطمینان قلب کے لئے ترستا ہے۔ ہر کوئی پریشان،مغموم،سرگردان اور دل برداشتگی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ایسے ماحول میں انسانی اوصاف پر عمل داری کی جھلک کہیں نظرآنے پر حیرت کا اظہار کرکے واہ کہتے ہوئے ہاتھ بے ساختہ احتراماً سینے پر سجانے کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔انہی احساسات پر مبنی نظارے اپنی اہلیہ کی علالت پر ان کے ساتھ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال میں تین دن گزارنے کے دوران دیکھنے کو ملے۔ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور قابل حیرت ہونے کے باوجود نظام کائنات کی بقاکے ضامن ہونے کی علامت تصور کرنے کے حامل تھے۔
ایسے دور میں جبکہ اولاد والدین کی نگہداشت اور خاطر مدارت کے وصف سے ناآشنا ہیں۔ بازار چترال میں اپنی لاٹھی کو گھما کر کرخت آواز میں آن دیکھی مخلوق پر ہوا میں وار کرنے والے “جغور” گاؤں کے باسی “ملنگ” اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو سلاح لگواکر ہسپتال کے ایک پرائیوٹ روم میں استراحت کررہا ہے۔ دروش سے تعلق رکھنے والا ایک خدا ترس انسان اس لاوارث بند ۂ خدا کی رضائے الہی کی خاطر نگہداشت اور خدمت کررہا ہے۔ اس کے میلے کچلے کپڑوں کو اتار کر نئے کپڑے پہناتا ہے۔ روزانہ گرم پانی سے غسل کراتا ہے۔ اور اس کی طر ف سے ہر دیوانہ وار تقاضے کی برآوری خندہ پیشانی سے کرتے ہوئے مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آدھی رات کو اُٹھ کر باہر گھمانے اور چائے پلانے جیسے نیند پر اثر انداز ہونے والے تقاضوں کو بجا آوری میں بھی ذرا برابر تاخیر نہیں کرتے ۔ گالی دینے پر پیار سے اس کی پیشانی کو چومتے ہیں۔ اس کیفیت کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے انسان دوستی کا اعلیٰ نمونہ قراردیاجائے ۔تو بے جا نہ ہوگا۔ یقیناًیہ عمل انسانی معاشرے کی تاریکی میں روشنی کی ایک کرن کے مترادف ہے۔
چترال کی بیتی ہوئی معاشرتی زندگی کا رنگ ایک بیمار معمر خاتون کی تیماداری کرنے والے فرزند ارجمند کی کیفیت کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ ماں کے قدموں پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ماں لفظ پر قربان ہونے کو جی کرتا ہے۔ مگر افسوس اس لفظ سے موسوم انسان کے حقوق کی ادائیگی اس کے شایان شان نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ۹ مہینے پیٹ میں لئے پھیرنے، بچپن میں راتوں کی نیندیں حرام کرنے اور پوری زندگی اولاد کی کامیابی وکامرانی اور شادان وشادمانی کی آرزوں سے نوازنے کا صلہ دینا انسانی بساط سے باہر ہے۔ ماں کے بعدزندگی کی لذت ہی ختم ہوجائیگی۔ میرے مولا سے استدعا ہے۔ کہ میری عمر بھی میری ماں کو لگ جائے۔ ان دلسوز الفاظ کے ساتھ جب اس فرزند نے ماں کے قدموں سے سراٹھایا تو اس کی آنکھوں کے بہنے والے آنسووں سے ماں کے پاؤں بھیگ گئے تھے۔ ماں نے اس سے اپنے پاس بلاکر اس کی آنکھوں کو بوسہ دینے کے بعد کہا کہ میری جان! آپ اور آپ کی اہلیہ نے اپنی طرف سے خدمت کا حق ادا کردیا ہے۔ البتہ ایک پوتے کو گود لینے کی آرزو دل میں لئے جارہی ہوں۔ اللہ رب العزت اس نعمت سے بھی آپ کو نوازے۔
پرانے زمانے کے باسیوں کی سادگی،دُنیا کی آرائشیوں سے نااشنائی مکروفریب سے پاک دلوں کے حامل ہونے کی ایک جھلک بھی دیکھنے کو ملا۔ ایک چارپائی کے اردگرد پر یشان کھڑے افراد پر نظر پڑنے پر قریب جاکر دیکھا تو ایک معمر تریں شخص عارضہ قلب میں مبتلا زندگی کے اختتامی لمحات سے دوچار تھا۔ انتہائی دھیمی آواز میں ملتیجانہ انداز میں رب کائنات کے حضور استدعا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔کہ آئے عظیم اللہ پوری زندگی میر امنہ لقمۂ حرام سے محفوظ رہا ہے۔ میری آنکھیں کسی کی طر ف ناجائز طور پر اٹھنے سے ناآشنا رہی ہیں۔ کسی کی دل آزاری اور عزت وآبرو پر حملے سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ البتہ آپ کے حقوق کی ادائیگی میں مجھ سے کوتاہیاں ضرورسرزد ہوئی ہیں۔ مجھے کا مل یقین ہے کہ آپ مجھے معاف کریں گے۔ یہ چند جملے زبان سے نکلتے ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ چارپائی کے گرد کھڑے عزیز و اقارب میں سے کسی کے ہاتھ ان کی انکھیں بند کرنے کی طرف اٹھتے ہیں تو کوئی ٹھوڑی کو سنبھال کر کپڑے کے ٹکڑے سے اُسے سر کے ساتھ باندھنے میں سرگردان نظرآتے ہیں۔ بعض بازوں کو سیدھا کرنے اور بعض ٹانگوں کو سنبھالنے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ یوں دنیا کے دھندوں میں سرگردان زندگی کی شام ہوتی ہے۔ ان کے منہ سے اخری وقت نکلنے والے الفاظ ان کی پوری طرز زندگی کے غماز مغلوم ہوتے تھے۔ اور ان الفاظ میں اول الذکر دونوں واقعات سے متعلقہ افراد کے کردار کی بنیاد پر ان کی اختتامی زندگی کے رنگ کا تصور ابھر رہا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
19373