Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سرُود……………..خود کشی ………….. شہزادی کوثر

شیئر کریں:

زندگی کتنی قیمتی ہے یہ اس انسان سے پوچھیں جو موت کی دہلیز پر قدم رکھے آخری ہچکیاں لے رہا ہو۔ ایک طرف سانسوں کی ٹوٹتی ڈور اور دوسری طرف زندہ رہنے کی شدید آرزو اس پر کیا قیامت ڈھاتی ہو گی ۔اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا،اپنے ماں باپ بہن بھائی اولاد دوست احباب کے غمزدہ اور آنسووں سے تر آنکھوں کو سوگوار چھوڑنا کوئی نہیں چاہتا،تو کیا وجہ ہے کہ کبھی انسان اپنی اتنی پیاری چیز یعنی زندگی کی شمع کو خود ہی بجھانے کا ارادہ کرتا ہے،ایسا کرتے ہوئے وہ انتہائی بز دلی اور خود غرضی کا ثبوت دیتا ہے،کیونکہ مشکلات سے ٹکرا کر ان پر فتح حاصل کرنا ہی اصل زندگی ہے ،لیکن وہ مشکلات کا سامنا کرنے سے پہلے ہی راہِ فرار اختیار کر کہ اپنی بزدلی پر مہر تصدیق ثبت کر دیتا ہے،اور خود غرض اس وجہ سے بنتا ہے،کہ اپنے مفاد کو حاصل کرنے میں ناکامی اس کی آنکھوں پر بے حسی کی پٹی باندھ دیتی ہے ،اور وہ یہ تک بھول جاتا ہے کہ زندگی صرف میری نہیں اس کے ساتھ اور بھی لوگ جڑے ہیں، میں اپنے ماں باپ کو کس گناہ کی سزا دینے جا رہا ہوں کہ میری موت کے غم کے علاوہ انہیں مجھ سے منسوب کی گئی کتنی بیہودہ باتیں سننا اور برداشت کرنا پڑیں گی۔یہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی رویہ ہے یا انسان کی شدید ذہنی پریشانی جو ایسا کرنے پر اسے مجبور کرتی ہے۔ زندگی سے زیادہ انمول چیز شاید ہی کچھ ہو اس کو اتنی بے وقعت اور بے حیثیت کیوں تصور کیا جاتا ہے،کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر موت کی آغوش میں سونے کو ترجیح دی جاتی ہے،چترال ان علاقوں میں سر فہرست ہے جہاں خود کشی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ نوجوان نسل میں برداشت کی اتنی کمی ہے کہ معمولی باتوں پر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ اس میں صرف وہی قصور وار نہیں ہوتے بلکہ ہمارا پورا معاشرہ بھی ہوتا ہے،بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ صرف پاس نہیں ہونا بلکہ فرسٹ آنا ہے، اب ان کے معصوم ذہنوں میں دوسرے نمبر پر آنا شکست کہ مترادف ہو کر بیٹھ جاتا ہے جب کہ کم نمبر لینا اور فیل ہونا گناہ ہے جس کا کفارہ وہ خود کشی کی صورت میں ادا کرتے ہیں ۔اس معاملے میں تعلیمی ادارے بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ نوجوانوں کی صحیح کونسلنگ کر کے ان کے ذہنون سے منفی خیالات اور منفی جذبات کو نکال باہر کریں ۔علما کرام اسلامی اصولوں، سنتِ نبویؐ اور قرآنی آیات کے ذریعے شیطانی وسوسوں سے ان کے دلوں کو صاف کر سکتے ہیں،گھر میں ایسا ماحول بنانا والدین کی ذمہ داری ہے جس میں بچے کو خود پر اعتماد کرنا سکھائیں، اگر بچہ کوئی مسلہ والدین سے شئیر کرنا چاہے تو اسے پوری توجہ اور دھیان سے سننا اور غور کرنا اس میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ ہم چیزوں کو اپنی نظر اور نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ہمارے لئے وہ کوئی بات نہیں ہو گی جو بچے کے لیے کرب ناک لمحہ یا مسلہ ہو سکتا ہے، ہمیں جذباتی اور معاشرتی طور پر ان کے لیول پر آ کر سوچنا چاہیے کہ اصل بات کیا ہے جو اسے پریشان کیے ہوئے ہے،ایسا نہیں ہوتا تو والدین کی طرف سے مایوس ہو کر وہ تباہی کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ اولاد کو بتانا ضروری ہے کہ صرف فرسٹ آنا ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا، دنیا میں کتنے عطیم اور کامیاب لوگ گزرے ہیں وہ بہت کم تعلیم یافتہ تھے یا ان پڑھ ہونے کے باوجود ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار مہیا کیے ہوئے ہیں ۔ہمارے لیے سب سے اہم آپ ہیں ، اپنی محنت جاری رکھیں تو اس کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں ملے گا۔ اس سے بچے پر ذہنی دباو بھی نہیں پڑےگا اور زندگی کے بارے میں اس کی سوچھ بھی مثبت ہو گی۔ایک اور بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ٹین ایج میں جزباتی عمل دخل زیادہ ہوتا ہے اور اپنے صنف مخالف کی طرف کھنچاو محسوس کیا جاتا ہے،ایسے میں وہ ہر وقت خیالی دنیا میں اڑان بھرتے رہتے ہیں ،زندگی کی حقیقی ڈگر سے ہٹ کر سوچنا اور خیالی دنیاووں کی سیر کرنے میں انہیں مزہ آتا ہے، ان کے احساسات کی دنیا میں ارتعاش یعنی وائبریشن ہونے لگتی ہے۔وہ ٹھوس حقیقت سے آنکھیں بند کر کے تصوراتی دنیا میں ٖفتح مندانہ جذبے سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں ،اور یہ تمام خیالات وہ سات پردوں میں چھپانے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اگر اس کا گھر والوں کو پتہ چل جائے تو وہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں ،اور انہیں اپنی نجات صرف موت میں ہی نظر آتی ہے،یہ دور انتہائی جذباتی اور خطرناک ہوتا ہے۔ اولاد کو ماں باپ کی ہر بات غلط اور بری لگنے لگتی ہے،وہ سچائی کو ماننے کے کیے کبھی تیار نہیں ہوتے یا ماننا نہیں چاہتے۔گویا اس عمر میں اولاد کا ا پنے والدین سے مخالفت اور دشمنی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ اس وقت انتہائی صبر و تحمل اور پیار سے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کریں تا کہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ اس کے علاوہ گھریلو ناچاقی کی وجہ سے خواتین بھی خود کو موجوں کی نذر کر دیتی ہیں ،اس کی بہت ساری وجوہات ہین جن کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے تاہم مذہب سے دوری،انٹر نیٹ ،الیکٹرونک میڈیا کا غلط استعمال بھی زندگی جیسے بیش بہا انعام کو ٹھکرانے کا سبب بنتے ہیں۔ دانش مندی اسی میں ہے کہ اپنے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ جانیں اور انتہائی برداشت سے ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہم کسی بھی بات اور جذبے کا رد عمل فورا ظاہر کر کے بعد میں پچھتانے والے لوگ ہیں،ہر کوئی اپنا نقطہ نظر ڈنڈے کے ذور پر دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے،ایک دوسرے کے بارے میں غلط خیالات کو جسم اور شکل عطا کر کے اپنی زندگی تباہ کرتے ہیں۔کیا پتا جو انسان شرافت کا پیکر نظر آرہا ہے وہ اندر سے جلاد ہو ،یا باہر سے شرابی اور بدمعاش دکھنے والا اندر سے ذاہد وعابد ہو۔ ہم اپنے ترازو پر ہر انسان کو نہیں تول سکتے۔صرف شک و شبہے کی بنیاد پر اپنی زندگی دوزخ بنانے سے پہلے اخلاقی طہارت ہر کوئی اپنے اندر پیدا کرے تو بہت سے معاشرتی مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔


شیئر کریں: