Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جنرل ضیا یونہی یاد نہیں آئے……عبدالکریم کریمی

Posted on
شیئر کریں:

گزشتہ ہفتوں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے روح فرسا واقعات نے نہ چاہتے ہوئے بھی جنرل ضیا کی یاد دلائی۔ جنرل ضیا سے لاکھ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ۔ میرے پیش نظر ہمیشہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمان رہتا ہے:

’’مکھی کی طرح ہمیشہ زخموں کی تلاش نہیں ہونی چاہئیے بلکہ بلبل کی طرح پھولوں کی صحبت میں بیٹھنا چاہئیے۔‘‘

اس لیے آج ہم ان خامیوں کا تذکرہ نہیں کریں گے جن پر ہمیں جنرل ضیا صاحب سے نظریاتی اختلاف ہے۔ بلکہ آج ان کی ایک اچھائی کا تذکرہ ہو رہا ہے جوکہ ہمارے سیاستدانوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بھی ہے۔

آمد برسرِ مطلب! ڈی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے ایک لڑکی کے اغوا اور زیادتی کو ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ کراچی میں مقیم گلگت بلتستان کی ایک ماں نے اپنی پھول جیسی بچی کو سمندر کی خوفناک لہروں کی نذر کرتے ہوئے ممتا جیسے پاکیزہ رشتے کو بھی داغدار کر دیا۔ ہم جیسے حساس لوگ ابھی ان واقعات کے گھاؤ سے سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ اشکومن تشنہ لوٹ کے چودہ سالہ طالب علم دیدار حسین کو انسان نما دس درندے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔ کچھ دن احتجاج کے بعد یہ واقعہ بھی ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔

آج کے اخبار نے تو ہلا کر رکھ دیا۔ کراچی کے علاقہ کورنگی میں ایک درندہ صفت باپ کیک نہ کھانے پر اپنی بیٹی کو قتل کر دیتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ننھی مسکان اپنی چٹھی سالگرہ منا رہی ہوتی ہے۔ باپ کو پہلے ہی فرمائش کرتی ہے کہ مجھے ایسا کیک لائے جس پر میرا نام لکھا ہوا ہو۔ باپ کیک تو لے کے آتا ہے لیکن کیک ننھی مسکان کو پسند نہیں آتا۔ وہ معصومیت سے اپنے پاپا سے کہتی ہے پاپا! یہ وہ والا کیک نہیں جو میں نے کہا تھا اس پر تو میرا نام بھی نہیں لکھا ہوا ہے۔ ننھی مسکان پاپا سے ناراض ہوتی ہے اور ناز و نعم میں وہ کیک نہیں کھاتی۔ لیکن ان کا وحشی باپ ننھی مسکان کو منانے کی بجائے ان پر بے جا تشدد کرتا ہے۔ ننھی مسکان دل میں ارمانوں کا ہجوم لیے اپنی چٹھی سالگرہ کی تیاریوں میں مصروف ہوتی ہے ان کو کیا پتہ کہ ان کے باپ (کہ جس کو باپ کہتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔) ہی ان کے ارمانوں کا خون کرے گا۔ ننھی مسکان باپ کی بے انتہا تشدد سے زندگی ہار جاتی ہے اور وحشی باپ فرار ہو جاتا ہے۔ اور ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ایک اور دلدوز کہانی پڑھ کر خود کو کوستے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں کہ جن کو انصاف دینا ہوتا ہے وہ تو ڈیم کے لیے چندہ اکٹھا کر رہے ہیں۔

Gen Ziaul Haq
ایسے حالات میں جنرل ضیا کی یاد آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کہتے ہیں انیس سو اکیاسی میں لاہور باغبان پورہ تھانے کی حدود میں پپو نامی ایک بچہ اغوا ہوتا ہے۔ بعد میں اس کی لاش ریلوے کے تالاب سے ملتی ہے۔ جنرل ضیا کا مارشل لا تھا۔ قاتل فوری گرفتار ہوتے ہیں۔ ٹکٹکی پر لٹکانے کا حکم فوجی عدالت سے جاری ہوتا ہے۔ تین دن بعد ٹکٹکی وہاں لگتی ہے جہاں آج کل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے۔ پورے لاہور نے دیکھا پھانسی کیسی لگتی ہے۔ چاروں اغوا کار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے۔ آرڈر تھا کہ لاشیں غروبِ آفتاب کے بعد اتاری جائیں گی۔

کہتے ہیں اس کے بعد کئی سالوں تک کوئی بچہ اغوا اور قتل نہیں ہوا۔ پھر جمہوریت بحال ہوگئی اور عصمتوں کے لٹیرے، قاتل، اغوا کار، بردہ فروش اور چور ڈکیت سیاستدانوں کے چھتری تلے آگئے۔ مسلک کے نام پر لوگوں کو بچایا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ ہر کسی نے اپنی ڈھیٹ انچ کی مسجد سے کفر کے فتاویٰ جاری کیے۔ یوں زانی، قاتل، چور ڈھٹائی سے واردات کرتے رہے کہ ان کے پشت پر کسی نہ کسی کا مسلکی ہاتھ تھا کہ ہر برائی کے بعد کچھ دن جیل اور پھر باعزت رہائی۔

اسی طرح دیدار حسین قتل کیس میں بھی سیاستدانوں کی طرف سے مکمل خاموشی اور فورس کمانڈر کا انصاف کی یقین دھانی کس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ہماری سیاست انتقال کر گئی ہے بس قل پڑھنا باقی ہے۔ ممکن ہے بہت جلد قاتل رہا بھی ہوں گے۔

کراچی میں ایک ماں کی طرف سے اپنے ہی لخت جگر کو سمندر کی لہروں کی نذر کرنا اور اس واقعے کے بعد صرف اسی ماں کا جیل میں ہونا۔ جبکہ اس قتل میں اس کا شوہر، ساس اور نندوں کا بھی برابر ہاتھ ہوسکتا ہے۔ لیکن مجرم ٹھہری تو صرف ایک بے بس ماں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئیے گا کہ ایک ماں ایسا انتہائی اقدام اٹھانے پر تب مجبور ہوتی ہے جب اس پر زمینی خدا سارے راستے بند کر دیتے ہیں۔ ماں نے سوچا ہوگا کہ مردوں کی اس دنیا میں جو حشر میرا ہوا وہ میری بیٹی کا نہ ہو۔ اس لیے انہوں نے اس ظالم سماج سے اپنی بیٹی کو چھینا اور سمندر کی لہروں کی نذر کی۔ کاش ملک میں قانون نام کی کوئی چیز ہوتی تو اس ماں کی جگہ اس کا شوہر اور نندیں جو بھابھی کے لیے میٹھا زہر ثابت ہوتی ہیں، جیل میں ہوتیں تاکہ آئندہ کوئی بھی شوہر، ساس اور نندیں ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتیں۔ غذر میں خودکشیوں کے پیچھے بھی شوہر کا اپنی ماں اور بہنوں کی الٹی سیدھی باتوں میں آکر بیوی کو تنگ کرنا ہے۔ حالانکہ اسلامی شریعہ کے مطابق بیوی کا کام صرف شوہر کی تابعداری ہے۔ گھر کا کام، ساس سسر کی خدمت اور نندوں کی فرمائیشیں پوری کرنا نہیں۔ اس کے لیے اسلامی شریعہ میں کنیزیں رکھنے کا حکم ہے۔ جتنے حقوق ماں باپ کے ہیں اتنے ہی بیوی کے بھی حقوق ہیں۔ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’کمینے لوگ اپنی بیویوں پر غالب آتے ہیں اور عزت دار شریف لوگوں پر بیویاں غالب آتی ہیں۔‘‘

پھر ایک باپ کا اپنی بیٹی کی سالگرہ پر اسے قتل کرنا کہاں کی انسانیت ہے کاش! جنرل ضیا زندہ ہوتے تو شاید چاندنی چوک کراچی میں اس قاتل حرامی باپ کی لاش بھی لٹک جاتی اور لوگ اس سے عبرت حاصل کرتے۔ جنرل ضیا صاحب آپ سے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ دل سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو غریق رحمت فرمائے۔

ہمیں پاکستانی سماج میں اسلامی سخت قوانین یا مارشل لا جیسے قوانین کی ازحد ضرورت ہے کہ اس دھرتی میں قوم کے نام سے جو بیھڑ رہتی ہے اس کو ایک الواعظ کا خوبصورت وعظ نہیں بلکہ ایک معمولی تھانیدار کا ڈنڈا ٹھیک کرسکتا ہے کہ لاتوں کے بت باتوں سے کہاں مانتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں انسان بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین!


شیئر کریں: