Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد………. لوکل گورنمنٹ کامسئلہ ……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

لوکل گورنمنٹ کو مسائل کا حل قرار دیا جاتا ہے مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ خود بھی ایک مسئلہ ہے اور اس قدر گھمبیر مسئلہ ہے کہ اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا اخبارات میں تین کالمی خبر لگی ہے کہ ضلع اسمبلی پشاور کے حزب اختلاف نے اسمبلی ہا ل کے باہر اپنا اجلاس منعقد کرکے شہر کے مسائل اور لوکل گورنمنٹ کی ناکامیوں کے حوالے سے اپنا احتجاج اعلیٰ حکام تک پہنچانے کی دھمکی دی ہے ایبٹ آباد، بٹگرام،دیر ، چترال،شانگلہ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان وغیرہ میں ضلع اسمبلی اور تحصیل کونسلوں کے ارکان اس لئے سراپا احتجاج ہیں کہ حکومت نے اول روز سے ضلعی حکومتوں کو اپنا مخالف سمجھ کر نظر انداز کردیا ہے پشاور میں ضلعی حکومت بھی برسر اقتدار جماعت کی ہے اگر پشاور میں ضلعی اسمبلی کے ارکان کواسمبلی ہال کے باہر دھرنا دیکر اجلاس منعقد کرنے کی دھمکی سے کام لینا پڑتا ہے تو دور دراز اضلاع کے بلدیاتی نمائندوں کی طرف سے شکایات کا انبارلگا ہو اہے پشاور کے عوامی نمائندوں کی اہم شکایت یہ ہے کہ عوام کو درپیش مسائل میں سے کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا دوسری شکایت یہ ہے کہ باربار کی درخواستوں کے باوجود ضلعی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلا یا جاتا احتجاج میں شریک صرف حزب اختلاف کے نمائندے نہیں ہونگے بلکہ برسر اقتدار جماعت کے اراکین بھی احتجاج میں بھر پور حصہ لینگے مرزا غالب نے کسی سہانی شام کو کہاتھا

تھی جن سے توقع داد خستگی کی پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہِ تیغ ستم نکلے

اس خبر کو پڑ ھ کر ایسا لگتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بجائے خود ایک مسئلہ بنا ہواہے جن اضلاع اور تحصیل کونسلوں میں 2015ء میں مخالف پارٹیوں کو اکثریت ملی ان کو صوبائی حکومت نے پہلے ہی دن مسترد کردیا نہ ان کو بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات ملے نہ ان کو بلدیاتی نمائندوں کے فنڈ ریلیز کئے گئے جہاں برسر اقتدار جماعت کی حکومتیں بن گئیں ان کو پہلے سال فنڈ بھی ملے اور اختیا رات بھی ملے اس کے بعد صوبائی حکومت نے اپنی ہی پارٹی کے بلدیاتی نمائندوں کو ’’عاق‘‘کردیاگذشتہ ماہ اسلام آباد میں ایک سیمینار کے بعد خبر آئی کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کو بہترین ماڈل کا درجہ دے دیا گیا ایک بڑے ضلع کے پریس کلب میں اخبارات کے تراشوں کا 4سالہ ریکارڈ دیکھا گیا ریکارڈ میں ہر ضلع سے احتجاج اور فریاد کی خبر یں مسلسل آگئی تھیں پریس کلب کے اراکین اور سول سوسائیٹی کے نمائندو ں نے سوال اُٹھایا کہ وہ مثالی بلدیاتی نظام کدھر ہے؟ ایک سنیئر قانون دان نے کہا مثالی بلدیاتی نظام چار بار آ ئے تھے پہلی بار ایوب خان کا بی ڈی سسٹم مثالی تھا دوسری بار جنرل ضیاء الحق کا بلدیاتی نظام بہت اچھا تھا تیسری بار جنرل مشرف کا لایا ہوا لوکل گورنمنٹ سسٹم اپنی مثال آپ تھا اور چوتھی قسم وہ تھی جو مختصر وقفوں سے باربارآئی اور گئی یعنی ڈپٹی کمشنر کو ضلع کونسل کا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا اور اسسٹنٹ کمشنر کو تحصیل کونسل کا ایڈ منسٹریٹر مقرر کیا گیا 2015ء کے بلدیاتی نظام سے یہ بھی بہتر تھا اب2020ء کے آخر تک ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات ہونگے پھر برائے نام اسمبلیاں اور کونسلین بنیں گی پھر ایک ناکام تجربہ دہرایا جائے گا مذکورہ سنئیر قانون دان سے اختلاف کی گنجائش نہیں ایک سنیئر صحافی نے اُن کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی بقول غالب ’’خموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہئے‘‘ سنئیر صحافی نے کہا کہ ہماری زمین لوکل گورنمنٹ کے لئے اُس وقت موزوں اور زرخیز ہوتی ہے جب ملک میں مارشل لاء ہو صوبائی اور قومی اسمبلیاں نہ ہوں جوں ہی عام انتخابات ہوتے ہیں صوبائی اسمبلیاں آتی ہیں قومی اسمبلی آتی ہے سینٹ کے ممبران کا انتخابات ہوتا ہے تو اختیارات کی نئی تکون بن جاتی ہے اس تکون میں بلدیاتی نمائندہ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی آج کل یہی صورت حال ہے اس صور ت حال میں قابل عمل تجویز یہ ہے کہ بلدیات کا نظام مستقل بنیادوں پر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے کردیا جائے تاکہ سروس ڈیلیوری میں رکاوٹ نہ آئے فنڈ ریلیز کر نے میں آسانی ہو عوام کے چھوٹے موٹے مسائل افسروں کی نگرانی میں بحسن و خوبی حل ہونے کی راہ ہموار ہوسکے قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور سینٹ کی مو جودگی میں لوکل گورنمنٹ کو نہ کبھی فنڈ ملینگے نہ کبھی اختیارات ملینگے بلکہ عوامی مسئلے کو حل کرنے کی جگہ لوکل گورنمنٹ خود ایک مسئلہ بنی رہے گی اگر پشاور کی ضلعی اسمبلی کے اراکین اپنی اسمبلی کے باہر اجلاس منعقد کرکے مسائل حل کرنے کے لئے دھرنا دینے کی دھمکی دے رہے ہیں تو دیر،چترال اور شانگلہ یا ایبٹ آباد جیسے اضلاع کی اسمبلیوں سے کس طرح بہتری کی اُمید وابستہ کی جاسکتی ہے


شیئر کریں: