Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایک طائرانہ نظر یارغار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت پر…..تحریرلطیفی….. ازلطیف الرحمن لون

Posted on
شیئر کریں:

اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ صحابہ کرام ان مبارک ہستیوں کو کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے ایمان کی حالت میں آپؐ کو دیکھا اور آخر دم تک اسلام پر قائم و دائم رہے اور اسی حالات میں اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔(عقیدۃ الطحاویہ) گویا جماعت صحابہ ان مقدس ہستیوں کو کہا جاتا ہے جن کو براہ راست خاتم الانبیاء امام المرسلین اور سیدالکونین کی صحبت اور تربیت نصیب ہوئی اور انہوں نے انوارات نبوت اپنے قلوب کو منور کیا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایمان و تقویٰ کو ان کیلئے سب سے محبوب سے بنادیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ امت میں اعلیٰ مقام و مرتبے کے حامل علماء کرام اولیاء اللہ اورمشائخ عظام میں مل کر ادنیٰ صحابی کے مقام و مرتبے کو چھونہیں سکتے۔قرآن کریم اور فرقان حمید میں صحابہ کرام کا تعارف یوں ہوا ہے “محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں وہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحیم ہیں تو ان کو دیکھے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فضل و رضای کی تلاش میں رکوع و سجدہ کررہے ہیں۔سجدے کی تاثیر سے ان کے چہرے پر ان کے آثار نمایاں ہیں۔کہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ سچے ہیں۔یہی لوگ راشدین ہیں اور یہی لوگ ہیں جن سے اللہ راضی ہے وہ اللہ سے راضی ہیں۔صحابہ کرام کے حوالے سے ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ ان کا ایمان ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ انسان سے اعلیٰ اور بہتر ہے۔تمام صحابہ کرام ایمان کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔پھر ان تمام میں سے بھی خلفاء راشدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہیں۔آپؐ کا ارشاد گرامی ہے۔میری امت میں میری امت پر سب سے رحم دل ابوبکرؓ ہیں۔اللہ کی احکامات کی تعمیل میں سب سے سخت عمرؓ ہیں۔ان میں حیاء کے اعتبار سے بڑھے ہوئے حضرت عثمان غنی ہیں اور سب سے بہترین منصف حضرت علیٰؓ ہیں۔(جامع ترمذی) حدیث مذکورہ کی ترتیب پر ہی خلفاء راشدین کے درجات ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اصل نام عبداللہ ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا۔آپؓ کے والد ابوقحافہ اور والدہ ام الخیر کی کنیت سے مشہور تھی۔آپؓ قریش کی ایک شاخ سنوتیم سے تعلق رکھتے ہیں۔آپؓ کی ولادت عام الفیل کے ڈھائی برس بعد ہوئی۔آنحضرتﷺ پر جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی اور اس کا چرچا ہوا تو خدمت نبوی میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئے اور یوں آپؓ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔بعثت کے بعد تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں تبلیغ و دعوت کا سلسلہ جاری رکھا اور دوسری طرف مشرکین مکہ نے ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھا۔یہاں تک الحضرت کی اجازت سے صحابہ کرام نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمانے لگے آخر میں حضور اکرمؐ نے اپنے یارِ غارکے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔حضور اکرمؐ نے مواخات میں حضرت خارجہ بن زید الصاری کو آپؓ کا بھائی بنادیا۔10ھ
میں آپؐ نے حجۃ الوداع ادا کیا۔دوران سفر حضور اکرمؐ کے کردار و گفتار سے ایسی کنایات سرز ہورہی تھی کہ آپؐ اس جہان فانی کو الوداع کہنے والے ہیں۔صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فراست ان کنایات کی تہہ تک پہنچ چکی تھی کہ آپؐ اس دنیا سے پردہ فرمانے والے ہیں۔اسکے بعد آپؐ بیمار ہوئے اور ایسے بیمار ہوئے کہ دن بدن مرض الوفات بڑھتا گیا۔یہاں تک آپؐ نے تمام صحابہ کرام میں سے حضرت ابوبکر صدیق کو منتخب فرمایا بااتفاق علماء کرام آپؐ نے آپؐ کی مرض الوفات میں۱۷ نمازوں کی امامت فرمائی۔یہ امامت فضیلت ابوبکرظ کی واضح نشانی ہے۔اسی نشانی کو خلافت صدیق ثابت کرنے کیلئے حضرت علیؓ نے بھی پیش کیا تھا۔چنانچہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب نبی کریمؓ کی وفات ہوئی تو ہم نے اس خلافت کے معاملے میں غور و فکر کیا۔ہم نے دیکھا کہ نبی کریم نے ابوبکر صدیق ہمارا امام بنایا ہے۔پس ہم دنیاوی معاملے(خلافت)میں بھی اس شخص پر راضی ہوگئے جس کو نبی کریمؐ نے ہمارا نے ہمارے دین کیلئے پسند فرمایا ہے۔پس حضرت ابوبکرؓ کو ہم نے بھی مقدم کردیا۔(طبقات ابن سعد جلد نمبر3صفحہ نمبر130)
(الاستعاب جلد ۲ صفحہ نمبر۲۴۲)پیر کے روز جس دن حضور اکرمؐ کی وفات ہوئی اس دن شدت مرض اور درد سے نبی کریمؐ کو کچھ افاقہ ہوا اور چاشت کے وقت نبی کریمؐ اس دار فانی سے رحلت فرمائے۔جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اس ہوش ربا خبر ملی تو فوراََ مسجد نبوی پہنچے اور سیدہ عائشہؓ کے حجرہ مبارک تشریف لے بیٹھے جہاں حضور اکرمؐ کو چادر مبارک سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور منہ مبارک سے چادر اٹھا کر چہرہ انور کو بوسہ دیا اور فرمانے لگے کہ اللہ آپ پردو موت طاری نہیں کریں گے یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ اس سے قبل اللہ تبارک و تعالیٰ نے یقین اور اطمینان قلبی کیلئے عزیز ؑ کو موت دی سو سال تک پھر زندہ کیا اور حضرت حزقیل ؑ کا واقعہ وغیرہ وغیرہ بس اللہ نے آپ کو جو موت ایک دفعہ ہی دینی تھی وہ دے دی۔
حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ آپؐ کو موت آئی ہی نہیں بس وہ تو زندہ ہیں جو کوئی بھی آپؐ کی موت کے بارے میں کہے گا تو تلوار سے سر تن سے جدا کردونگا۔آپؓ نے اپنے جلالی انداز کو پیش کیا۔بہر حال ان کٹھن اور نازک موقع پر فراست صدیقی ابھرپڑی تو صدیق اکبرؓ مسجد نبوی کے منبر پر تشریف لے بیٹھے اور سب سے پہلے حمد و ثناء بیان کی۔اسکے بعد کہنے لگے “اے لوگو! جو شخص محمدؐ کو پوجتا تھا وہ جان لے کہ محمدؐ نے وفات پائی ہے اور جو کوئی اللہ کو معبود مانتا تھا تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا(البدایہ اوالنہایہ جلد5)تمہیں اللہ تعالیٰ، نے اپنی دین اور اپنے رسول کی مدد اور نصرت کے لئے منتخب فرمایا لہٰذا ہم امراء یا تم وزراء ہم بغیر مشورہ کے معاملات طے نہیں کریں گے۔تمہارے درمیان حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور عمر بن خطاب جیسے شخصیات موجود ہیں ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کرلولیکن حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر کہا نہیں! قسم ہے رب کی اس معاملے میں ہم تم پر سبقت کیسے کرسکتے ہیں۔آپ سب سے افضل رسولؐ کے رفیق غار اور خلیفہ نماز پس یہ کس کو زیبا ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا خلیفہ بنے۔یہ سنتے ہی سارا مجمع آپؓ کی خلافت بیعت پر ٹوٹ پڑا۔
بہر حال آپؓ نے نہایت ہی بہترین فراست و فہم کے ساتھ اپنے دوسالہ خلافت کے عرصے کو چلایا اور اس چھوٹے عرصے کے اندر بڑے بڑے معرکہ خیز مسائل کو سامنا کیا جن میں سے منکرین زکوٰۃ کا واقع قابل ذکر ہے۔ذکوٰۃ ۹ ذھ میں آپؐ کی وفات سے تقریباََ ایک سال پہلے فرض ہوئی تھی بعض لوگوں نے ذکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو آپؓ نے بڑے جذبے اور بہادری سے مانعین ذکوٰۃ پر ایسا وار کیا یہاں تک کہ بنو تمیم اور بنو طی اور بعض دوسرے قبیلے خود ذکوٰۃ لے کر آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اسی طرح مرتدین کا انسداد یہ وہ لوگ تھے جو کھلم کھلا اسلام نے نکل کر دورجاہلیت کی طرف گئے تھے اور اسلام کے خلاف دوسرے کفار کو بھی بھڑکا رہے تھے۔چنانچہ آپؓ نے ان کے خلاف فوجیں روانہ کی اور ان کے خلاف تمام معرکے 11ھ کو ختم ہوئے اور9مہینے کے قلیل عرصے میں وہ سیلاب فرو ہوگیا جو نواح مدینے سے لے کر بحرین و عمان تک پھیلا ہوا تھا۔اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کا خاتمہ اسی طرح ان کے خلاف بھی آپؓ نے فوجیں بھیج دیں اور تمام جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کردیا۔
اسی طرح فتوحات ایران و روم آپؓ نے اپنے اس قلیل عرصے میں ایران اور روم کی سلطنتوں کی بھی فتح ڈال دی۔عرا ق میں کئی لڑائیاں ایرانیوں سے ہوئیں اور شہر میرہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا ملک شام میں رومیوں کے ساتھ جمادی الاولیٰ۱۳ھ میں وہ قیامت خیز معرکہ پیش آیا جسے جنگ پرموک کہا جاتا ہے اس میں مسلمانوں کو ایسی فتح نصیب ہوئی کہ رومی حواس باختہ ہوئے۔بہرحال اس دار فانی سے آخر رحلت کرنا ہی تھا آپؓ ساتویں جمادی الآخر۱۳ھ کو سردی کے اثر سے بیمار ہوئے ۔علالت روز بروز بڑھتی گئی جب مسجد تک جانے کی قوت نہ رہی تو حضرت عمرؓ کو امامت پر مقرر کیا۱۵روز علیل رہے۔۲۲جمادی الآخریٰ پیر کادن گزرنے پر وفات پائی اور نماز جنازہ حضرت عمرؓ نے پڑھائی اسی شب حضرت عائشہؓ کے حجرے میں اس طرح دفن کئے گئے کہ ان کا سر مبارک الحضرتؐ کے شانہ مبارک کی طرف رہا وفات کے وقت عمر مبارک63سال تھی اور ایام خلاف۲برس۳مہینے اور گیارہ دن تھے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
19130