Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہاں میں بہت ڈرتا ہوں…….عبد الکریم کریمی

Posted on
شیئر کریں:

معصوم دیدار حسین (شہید) قتل کیس پر میری گزشتہ تحریر پر کچھ زیادہ ہی ہچل مچی یا مچائی گئی۔ عام لوگوں سے گلہ نہیں۔ ظاہری بات ہے ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق ری ایکٹ کرے گا۔ مجھے افسوس تب ہوا جب ایسے لوگوں کا تبصرہ پڑھنے کو ملا جن کے نام کے ساتھ ڈاکٹر، مفتی، مولوی، پروفیسر وغیرہ وغیرہ کا لاحقہ تھا۔ ایک شیدید آہ نکلی کہ جب پڑھے لکھے لوگوں کی جہالت کا یہ عالم ہے تو عام شخص کے خیالات کیا ہوں گے۔ میری تحریر کو مسلکی رنگ دیا گیا حالانکہ میں مسلکی منافرت کی سوچ کو بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ کئی خیرخواہوں نے باقاعدہ فون کرکے بتایا کہ تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ خدا معلوم ان کو واقعی میری چتا (فکر) ہو رہی تھی یا پس پردہ وہ مجھے چتاؤنی (دھمکی) دے رہے تھے۔ مجھے نہیں معلوم۔ ایسے حالات میں اس شعر کا یاد آنا فطری عمل تھا؎
اب دوست کوئی لاؤ مقابل میں ہمارے
دشمن تو کوئی قد کے برابر نہیں نکلا
ایک مولوی دوست کو شکایت ہے بلکہ اس نے باقاعدہ اپنے وال پر لکھا ہے ’’وزیراعلیٰ کو مولوی کہہ کر کریمی صاحب نے اس کی توہین کی ہے۔‘‘ اس تبصرے پر بہرحال خون کے آنسو رونے کو دل کرتا ہے۔ حالانکہ اس مولوی دوست کو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ دوسرے مولوی کا تذکرہ اچھے لفظوں میں ہوا ہے۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ مولوی بھی لفظ مولوی کو گالی سمجھتا ہے۔ میں جب بھی اس لفظ مولوی پر غور کرتا ہوں تو میرے سامنے مولانا رومیؒ آتے ہیں۔ ان کا یہ شہرۂ آفاق شعر زبان زد خاص و عام ہے کہ جس میں وہ شمس تبریرؒ کی شاگردی کے بعد خود کو فخر سے مولوی کے منصب پر فائز کرتے ہوئے فرماتے ہیں؎
مولوی ہرگز نہ شد مولانا روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
یعنی مولانا روم تب تک مولوی کے عظیم منصب پر فائز نہ تھا جب تک کہ اس نے شمس تبریزؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا یعنی ان کی شاگردی اختیار نہیں کی۔
اس شعر سے آپ مولوی کے منصب و مقام کا اندازہ کرسکتے ہیں لیکن ہماری ذہنی پستی تو دیکھئیے کہ ہم ایک معمولی وزیراعلیٰ کو مولوی سے بڑا سمجھتے ہیں۔ مجھے تو اپنے واعظ اور مولوی ہونے پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ کیونکہ ایسے لوگ میرے پیچھے کھڑے ہوکے نماز پڑھتے ہیں۔ میں نے وزیراعلیٰ کی توہین نہیں بلکہ ان کی عزت افزائی کی ہے وزیراعلیٰ تو وہ چند سالوں کے لیے ہیں مولوی وہ عمر بھر رہیں گے اور اگر وہ میرا مشورہ لیں تو کسی قریبی مدرسے میں پڑھائے تو اس کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
باقی تمام خیرخواہوں کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ کون کہتا ہے کہ میں نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت ڈرتا ہوں جب کسی مظلوم کی آہ سنتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت ڈرتا ہوں جب دیدار حسین جیسے معصوم جانوں کو درندگی کا شکار ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت ڈرتا ہوں جب کسی لاچار سے ملتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت ڈرتا ہوں جب کسی یتیم، مسکین، بیوہ اور غریب کو معاشرے میں پستے ہوئے دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت ڈرتا ہوں جب میں سجدے میں گرتا ہوں تو اس ربِ کائنات کے حضور گڑگڑاتا ہوں، روتا ہوں، آنسو بہاتا ہوں اور بہت ڈرتا ہوں کہ رب نے مجھے لکھنے کی جو صلاحیت دی ہے کیا میں اس کے ساتھ انصاف کر رہا ہوں۔ ہاں میں بہت ڈرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ پاک سے اور اس کی بے آواز لاٹھی سے۔ اس لیے میں کھل کے لکھتا ہوں۔ اور جب اللہ سے ڈر انسان کا مقدر بن جائے وہ پھر کسی اور سے نہیں ڈرتا ہے کہ اس کے بعد وہ رب کائنات ہی اس کی ڈھال بن جاتا ہے۔ آپ میری گزشتہ سالوں کی پروفائل اٹھاکر دیکھ لیجئے گا میری تحریروں میں گورنر، وزیراعلیٰ، جرنلز، بیوروکریٹس کی بے حسی کا تذکرہ آپ کو ملے گا۔ لوگ کہتے ہیں ’’کریمی صاحب! آپ ڈرتے نہیں؟‘‘ اب ان دوستوں کو کون سمجھائے کہ ڈیڑھ انچ قد کاٹھ کے ان چھوٹے موٹے بیوروکریٹس، جرنلز، ان ٹھکیدار نما سیاست دانوں اور ان دولت کے پجاریوں کو میں اس لیے خاطر میں نہیں لاتا کہ میں جس سے ڈرتا ہوں وہ ذات ان سب سے بڑی ہے اور اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اس لیے میرے لیے پریشان مت ہوجائیے گا۔ میرے پاس میرا رب ہے اور جس کے پاس رب ہو اس کو ڈرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
عباس تابش کے بقول میرے ڈرنے کا انداز کچھ اس طرح ہے؎
یہ عجب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رخت سفر لگتا ہے
رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے
چاند دیوار پے رکھا ہوا سر لگتا ہے
ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے
جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤں گا
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے
مجھ سے تو دل بھی محبت میں نہیں خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے
وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے
اس زمانہ میں تو اتنا بھی غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے
اپنے شجرے کہ وہ تصدیق کرائے جا کر
جس کو زنجیر پہنتے ہوئے ڈر لگتا ہے
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
میں اس لیے بھی نہیں ڈرتا کہ میں گھر سے دولت نہیں ماں کی دعائیں لے کر نکلتا ہوں۔
ہماری اجتماعی بے ضمیری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ ایک معصوم جان درندوں کی درندگی کا شکار ہوئی ہے اور ہم اس موقع پر بھی مسلکی تنگ نظری کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اذہان کو ان غلیظ چیزوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ ہمارا معاشرہ پھلے پھولے۔ بڑی مشکل سے ہماری دھرتی میں امن قائم ہوا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
19006