Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

’’سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے‘‘……..عبدالکریم کریمی

Posted on
شیئر کریں:

ذہن ماؤف ہے، لکھنے کی چاہ کے باوجود لکھ نہیں سکتا۔ کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہوتا ہے ناں کہ لفظ بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ اشکومن تشنہ لوٹ کے چودہ سالہ معصوم دیدار حسین (شہید) کے ساتھ ہونے والا افسوس ناک واقعہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو انسانیت کو اسفلہ سافلین کی تاریکیوں میں غرق دیکھتا ہوں۔ تشنہ لوٹ گاؤں کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہاں نالے کے ایک جانب اسماعیلی رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف گجر برادری کے لوگ رہتے ہیں۔ غذر میں جہاں جہاں یہ برادری رہتی ہے اہالیان غذر پر ان کے احسانات بھی ہیں۔ مال مویشی کی دیکھ کرنا ہو یا آب پاشی کا معاملہ، کھیتوں میں کھاد نکالنا ہو یا دوسری چھوٹی موٹی مزدوری ہو یہ برادی یش پیش ہے۔ اچھے لوگ ہیں۔ خدمت کرتے ہیں لیکن اچھائی برائی ہر جگہ موجود ہے اس دفعہ اس برادری سے تعلق رکھنے والے چند درندوں نے ایک ننھے فرشتے پر جو ظلم کیا ہے حیوان بھی یہ دیکھ کر حیران ہوئے ہوں گے۔ اس لیے تمام گجر برادری کو ظالم گرداننے کے بجائے ہمیں ان میں موجودہ ان انسان نما درندوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ صاحب کی جانب سے ابھی تک کوئی کارروائی نہ سہی دلجوئی کے لیے بھی کوئی خبر چھپتی تو اندازہ ہوتا کہ موصوف اپنے مخصوص دائرے سے باہر بھی لوگوں کی خیر خبر رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اشکومن برصوات جھیل کے متاثرین کا ایک وفد وزیراعلیٰ صاحب سے مل کر لگے ہاتھوں میرے دفتر کی یاترا بھی کی۔ میں نے پوچھا تو یہ سن کر مجھے مایوسی ہوئی کہ حفیظ صاحب نے یہ کہہ کر وفد کو ٹالا ہے کہ ’’اب ہم کیا مدد کر سکتے ہیں ہماری اپنی سرکار خطرے میں ہے۔ آپ چیف سیکریٹری یا گورنر سے ملیں۔‘‘ ہمیں علم ہے جناب آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ لیکن محترم اس وقت آپ اپنے مسلک کے مولوی نہیں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ ہیں۔ آپ مدد نہیں کرسکتے کم از کم متاثرہ علاقے کا دورہ کرکے متاثرین کا غم بانٹتے لیکن آپ کو فرصت ملے تب ناں۔ آپ میرے خیال میں ابھی تک تعلیمی ایمرجنسی اور جلے ہوئے سکولوں کی بحالی میں مصروف ہوں گے اس لیے کوئی ڈوبتا ہے کوئی مرتا ہے کوئی دسمبر اور جنوری کی یخ بستہ سردیوں میں ٹینٹ میں کھلے آسمان تلے اپنے معصوم بچوں اور بوڈھے والدین کے ساتھ زندگی کے ایام کاٹتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن جناب اب کی بار تو حد ہوگئی ایک معصوم جان کچھ انسان نما درندوں کے ہاتھوں پامال ہوئی۔ اب تو غذر تشریف لے جائیے۔ غمزدہ خاندان سے تعزیت ہی سہی۔ لیکن اس سے ان کا حوصلہ بڑھے گا کہ غم کی اس گھڑی میں ان کا وزیراعلیٰ ان کے ساتھ ہے۔ سنا ہے آپ بھی میری طرح تقریریں اچھی کرتے ہیں۔ لیکن جناب اس وقت اس علاقے کو میری اور آپ کی خوبصورت تقریروں کی نہیں بلکہ عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہمیں اپنی بساط کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لگے ہاتھوں میں گورنر راجہ جلال صاحب سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں بلکہ متاثرین برصوات جھیل کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کریں۔

Didar Hussain
دیدار حسین میرے، راجہ جلال صاحب کے یا مولوی حفیظ صاحب کے بیٹے نہ سہی لیکن اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اگر اس کی جگہ ہمارا کوئی عزیز ہوتا تو پھر بھی ہم خاموشی کا روزہ رکھتے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ’’اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرتا ہے تو اس کی ذمہ داری خلیفہ وقت پر ہوگی۔‘‘

یہاں تو لوگ بھوک سے ہی نہیں مرتے بلکہ معصوم فرشتے بھی درندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے لیکن ہماری خاموشی کس جانب اشارہ کرتی ہے۔ ہمیں اس کا ادراک کرنا ضروری ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے ’’حکومت کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے ظلم کے ساتھ نہیں۔‘‘

معصوم دیدار حسین کے ساتھ اس ظلم پر تو جنگل کے درندے بھی شرما گئے ہوں گے۔ انور مقصود نے خوب ہی کہا ہے۔ ان کو پڑھیئے، سر دھنئے اور مجھے اجازت دیجئیے؎

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!

اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
18967