Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائےسُرود …………امید کی کرن……….شہزادی کوثر

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے،سونا ،زمرد سنگ مرمر،تیل ،گیس ،کوئلہ،تانبا ،لوہا کے ذخائر موجود ہیں،جنگلات ہزاروں قسم کے نباتات اور جنگلی حیات کی آماجگاہ ہیں،برفانی تودے اور گلیشئر پانی کےبڑےذخائرکامنبع ہیں جن سے بجلی پیدا کر کے ہم خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ کوئلے کے اتنے بڑے ذخائرجو ہماری پانج سو سال کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں،اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے عوام ہر چیز کو ترس رہی ہے۔چراغ تلے اندھیرا کی بات ہم پر صادق آتی ہے،ملک کے بہت سے علاقے سوکھ چکے ہیں کیونکہ پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ڈیمز نہیں ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کیوسک کے حساب سے پانی روزانہ ضائع ہو رہا ہے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں،پینے کا صاف پانی شہروں کے ساتھ دیہات کا بھی بڑا مسلہ بن رہا ہے،جس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، عوام بدحالی کا شکارہے سات کروڑ عوام کو صرف ایک وقت کی روٹی میسر ہے جبکہ اربابِ اختیار لوٹنے کو تیار،،کلمے کی بنیاد پر بننے والا ملک یقینا اللہ کا انعام ہے اس نے اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے اب تک سنبھالے رکھا ہے ورنہ ایسی لوٹ مار میں اس کا دیوالیہ نکل چکا ہوتا،قائد کو چھوڑ کر جتنے بھی حکمران اس سلطنت کے تخت پر بیٹھےان میں سے کسی نے بھی عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا غریبوں کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھری گئی.

امیرِشہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بہ نامِ وطن

گزشتہ اکھتر سالوں سے بد حال عوام کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا سوچیں کہ اتنے سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا تو جواب ملے گا کہ اتنا کچھ کھویا ہے جسے انگلیوں پر نہیں گنا جا سکتا البتہ پانے والوں میں کرپٹ اور دانش مندی سے عاری حکمران ضرور پائے ہیں۔ ہر شعبے میں اقربا پروری عروج پردیکھی ،جسے دیکھو غبن کرنے میں ماہر، عدالتیں سب کچھ کر رہی ہیں سوائے انصاف کے،آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کا طوفان بدحال عوام کو نگلنے کے لئے ہر وقت تیار ہے،علاج کی بنیادی سہولیات سب کو میسر نہیں ،بہت سے علاقوں میں ہسپتال موجود نہیں یا عملہ ندارد، بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی ایک بیڈ پر دو دو مریض لیٹے ہوئے ہیں اور ڈاکٹرز اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتے ہوئے آئے دن ہڑتال کرتے ہیں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جائیں انہیں فرق نہیں پڑتا۔ ۔ہمارے محافظ ڈاکووں اور چوروں کا ساتھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ڈکیتی کی وارداتیں معمول بن گئی ہیں ۔جنگلات کا پلک جھپکتے صفایا ہو رہا ہے اور ذمہ داران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں،زندگی کی ایسی بھیانک تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ خوف آتا ہے،اور حکمران سوئٹزر لینڈ دبئی اور برطانیہ میں محلات بنانے اور ملک کا پیسہ باہر کے بنکوں میں منتقل کرتے نہیں تھکتے۔ایسا لگتا ہے کہ پسی ہوئی عوام کے ساتھ ذاتی رنجش ہے جس کا بدلہ سو سو طریقوں سے لے رہے ہیں اور تھوڑی سی بھی پشیمانی ان کی زبان یا چہرے سے ظاہر نہیں ہوتی الٹا ان لٹیروں پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں تو وہ وکٹری کا نشان بنا کر ہمارے منہ پر طمانچہ لگاتا ہوا گزر جاتا ہے۔ان کو مسند حکومت پر ہم نے ہی پہنچایا ہے، ہماری حسرتوں کا خون کرنے والے یہی ہیں جو اپنے پروٹوکول کے لئے کئی زندگیاں چھیں چکے ہیں

ان کے جانور بھی ٹوسٹ اور جام کھاتے ہیں ان کے آس پاس بھوک اور مفلسی اپنے خونی پنجے کتنے معصوموں کی روحوں میں اتار رہی ہے اس سے وہ لاعلم ہیں۔اپنی خود غرضی کی وجہ سےملک کو مقروض کر کے عوام کو بےبسی کی زندگی گزارنے پرمجبور کر دیا ہے۔ اور خود زندگی کا سارا رس کشید کرنے میں مصروف ہیں ،ہم نے ماضی اور حال کے تھپیڑے کھایے ہیں،ہمارا ماضی ڈوب چکا ہے حال غیر مطمئعن اور مستقبل غیر یقینی،عملی طورپر حالات ومصائب کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ بھی نہیں ،گزشتہ دو دہائیوں سے ہم پر جو قرضہ حکمرانوں کے آرام و تعیش کی مد میں پڑا تھا اب وہ قرضہ اتارنے کے لئے مزید قرضے لیئے جا رہے ہیں، پتہ نہیں کب تک ہم دریوذہ گری کا کشکول گلے میں لٹکا ئے دوسروں کے در پر دستک دیتے رہیں گے ،اگر ملک کو چلانے والے دور اندیش ایماندار اور فہم والے ہوتے تو ہر مسلے سے نمٹنے کی تیاری پہلے سے کر لیتے تو آج ہم بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جاتے۔۔۔ لیکن ابھی بھی کچھ نہں بگڑا امید کا دامن تھامے نئے سرے سے ہمیں آگے بڑھنا ہو گا ،ہم نے سارا کچھ حکومت پہ نہیں ڈالنا اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے حکومت کا دست و بازو بننا ہے،ہر خزاں کے بعد بہار ضرور آتی ہے اسی لئے اب عمران خان پاکستانی عوام کی امیدوں کی واحد کرن ہیں اور پوری قوم کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید وہ اس مفلوک الحال ملک کو سنبھال کر قوم کو ما یوسیوں کے اندھیروں سے نکال کر ترقی کی روشن شاہراہ پر گامزن کریں گے۔۔اس لئے ہم سب امید لگائے ہیں بقولِ اقبال
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ


شیئر کریں: