Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ترش و شیرین……… تعزیتی ریفرنس، بیاد مولا نگاہ نگاہ …… نثار احمد

شیئر کریں:

ٹاون ہال چترال میں گزشتہ روز انجمن ترقی کھوار کے زیر اہتمام مولا نگاہ استاد کی یاد میں ایک پُروقار تعزیتی تقریب کا انعقاد ہوا. تقریب میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، صالح نظام صالح، عبدالولی خان عابد، مولانا نقیب اللہ رازی، محمد زاکر زخمی، اقبال حیات، محمد عرفان عرفان، شہزادہ تنویر الملک، قاضی سلامت اللہ، پروفیسر(ر) شمس النظر فاطمی، پروفیسر شفیق الرحمان، پروفیسر حسام الدین، ظفر اللہ پرواز، لیکچرار مولانا عتیق الرحمن اور فرید احمد رضا سمیت کثیر تعداد میں اہلِ دانش ، علماء اور اُدبا شریک تھے. مقالہ پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، مولانا نقیب اللہ رازی، محمد عرفان عرفان اور محمد ذاکر زخمی نمایاں تھے. مقالہ نگاروں نے اپنے مقالوں، جبکہ مقررین نے اپنی تقاریر میں نگاہ استاد کی علمی، ادبی، سماجی اور تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے نہ صرف اُنہیں دل کھول کر خراج عقیدت پیش کیا بلکہ اُن کی وفات کو بہت بڑا قومی سانحہ اور ناقابلِ تلافی خلا قرار دیا.
مولانا نقیب اللہ رازی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ “مولا نگاہ جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں. آپ نہایت خوش طبع، یار باش، ہنس مُکھ اور نہایت متواضع انسان تھے. نگاہ استاد کے ساتھ میری پہلی ملاقات جی ایچ ایس ایون میں 1979 کو ہوئی تھی. اُس کے بعد یہ نیازمندانہ تعلق آخر عمر تک قائم رہا. کھوار حروف تہجی، کھوار قاعدہ اور کھوار نصاب سازی سمیت مختلف مراحل میں نگاہ استاد کی ٹیم میں کام کرتے ہوئے قدم قدم پر اُن سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا”
مولانا نقیب اللہ رازی نے اس بات پر سخت رنج و افسوس کا اظہار کیا کہ بڑوں کی قدر اُن کی زندگی میں نہیں ہوتی، بلکہ اُنہیں کھونے کے بعد ہی اُن کے درست مقام و رُتبے کا ادراک و اعتراف کرکے کفِ افسوس مَلا جاتا ہے.
محمد عرفان عرفان نے اپنے تاثرات میں فرمایا.
” مولا نگاہ نگاہ نہ صرف ایک منجھے ہوئے استاد تھے بلکہ ہرفن مولا ہونے کی وجہ سے ہر طبقہ ء فکر میں آپ کے لئے گرویدگی پائی جاتی تھی. آپ کی فارسی دانی قابلِ رشک تھی. اگر مرزا سیار کے شاہنامے کا ترجمہ آپ نہ کرتے تو ابھی تک مرزا سیار جیسے تاریخی شخص کی یہ شاہکار کتاب پردہ ء خِفا میں رہتی. ترجمے کے دوران اُس دور کے مغلق پیچیدہ فارسی تراکیب کو دورِ حاضر کے مروجہ مستعمل آسان اردو تراکیب میں منتقل کرنا نگاہ صاحب کی فارسی دانی کو سمجھنے کے لئے کافی ہے”
محمد عرفان عرفان نے آپ رح کو کھوار ادب کا باوا آدم بھی قرار دیا..
محمد ذاکر زخمی نے انتہائی بسط و تفصیل کے ساتھ نگاہ استاد کی شخصیت کے مختلف جہتوں کو بیان کیا. اُن کا کہنا تھا
” نگاہ استاد کھوار زبان کے انسائیکلوپیڈیا، کھو ثقافت کا بڑا نام اور چترالی روایات کے آمین تھے. آپ جامع الکمالات انسان تھے. آپ کی شخصیت کو صرف ادب، ثقافت یا تعلیم سے جوڑ کر دیکھنا ناانصافی ہو گی. بالخصوص آپ کی شاعری محض” شاعری” نہیں ہے. آپ کی شاعری سماج کے زندہ مسائل کے گرد گھومتی ہے . آپ کی شاعری میں مقصدیت و متانت بھی ہے اور گہرائی و گیرائی بھی. طنز و مزاح بھی ہے اور محاورات و تشبیہات کا بھرپور استعمال بھی. غزل گوئی میں منفرد الفاظ کا استعمال آپ ضرور کرتے تھے لیکن بے انتہا مبالغہ انگیزی ہرگز روا نہیں رکھتے . قول و فعل کا تضاد آپ کی لُغت میں نہیں تھا. جس موضوع پہ شعر کہتے اُس کا حق ادا کرتے. آپ کے اشعار میں سماج کو درپیش مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اُن کا حل بھی موجود ہے. آپ بجا طور پر کھوار زبان کے بے تاج بادشاہ تھے”.
قاضی سلامت اللہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ نگاہ استاد حقیقی معنوں میں بسطۃً فی العلم و الجسم تھے. آپ کو بجا طور پر کھوار زبان کا” تَت” قرار دیا جا سکتا ہے. قاضی سلامت اللہ نے مزید فرمایا کہ دنیا سے جانے والا ہر شخص موضوع ِ گفتگو نہیں بنتا بلکہ یہ کسی کسی کے حصے میں آتا ہے. مراتب میں فرق اود درجہ بندی کی رعایت ایک ناقابل ِانکار حقیقت ہے.
آپ کے شاگرد رشید نوجوان ادیب علاء الدین عُرفی نے آپ کو بہترین مُربّی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ استادِ محترم ہر مضمون کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی نفسیات سے بھی خوب واقف تھے. روزانہ صبح کی اسمبلی سے آدھا گھنٹہ پہلے سکول آنا اور چھٹی کے آدھا گھنٹہ بعد سکول چھوڑنا آپ کا معمول تھا.
ان کے علاوہ آپ کے بھائی زار عجم، بھتیجا ساجد ایڈوکیٹ، ناول نگار ظفر احمد پرواز، فرزند ظہور الحق دانش، عبد الولی خان ایڈووکیٹ، صالح نظام صالح، اقبال حیات، مولانا گلاب الدین، میئر کے صدر فرید احمد رضا اور اقرار الدین خسرو نے بھی خطاب کیا. یوں مولانا عتیق الرحمن کے دعائیہ کلمات کے ساتھ یہ تعزیتی تقریب اختتام پذیر ہوئی.
بہرکیف متعدد اوصاف و خوبیوں کے حامل، نقطہء نگاہ کے مصنف مولا نگاہ جیسے بلند پایہ انسان کی شخصیت کا پورا احاطہ چند گھنٹوں پر مشتمل ایک تعزیتی نشست سے ہو سکے گا اور نہ ہی یہ سطور اس مقصد کے لئے کافی ہیں. آپ رح کی شخصیت کے مختلف پرتوں کو کھولنے،اُنہیں نذر ِ قارئین کرنے اور اُن سے استفادہ کرنے کے لئے نہ صرف زیادہ وقت درکار ہے بلکہ اس کے لئے تحقیقی نوعیت کا اندازِ کار بھی مطلوب ہے. چترال یونیورسٹی کے انگریزی کے لیکچرر ظہور الحق دانش کے مطابق اس وقت نگاہ استاد کے دس قلمی نُسخے اُن کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں. شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ نگاہ مرحوم کے اِن تمام قلمی نُسخوں کو چھپوانے کا انتظام کیا جائے. مجھے امید ہے کہ اُن کے فرزند ارجمند دانش صاحب اس بابت جلد ہمیں خوشخبری سُنایئں گے.


شیئر کریں: