Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پاکستان اور سعودی عرب : ایک نئے دور کا آغاز…… پیامبر……قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

imran and saudi prince salman
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے تاریخی دورے پر سینکڑوں افراد پر مشتمل وفد کے ہمراہ آرہے ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کو دنیا بھر میں باریک بینی سے دیکھا جارہا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کابینہ سمیت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا استقبال کریں گے ۔ حفاظتی انتظامات کے تحت ایف17تھنڈر طیارے سعودی وفد کے چار طیاروں کو اپنے حصار میں پاکستانی فضائی حدود میں پروکوٹول دیں گے ۔ پہلی بار کسی بیرون ملک کا سربراہ یا ولی عہد وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کرے گا ۔ سعودی وفد کا دورہ مکمل طور پر سرمایہ کاری و تجارتی مقاصد پر محیط ہے۔ سعودی ولی عہد ایشیائی ممالک کے پہلے مرحلے کے تحت دورہ کررہے ہیں ۔ پاکستان کے بعد سعودی ولی عہد مسلم دنیا کے سب سے بڑے اکثریتی ملک انڈونیشیا کا دورہ کریں گے۔انڈونیشی صدر کے ترجمان جان بوڈی کے مطابق’’سعودی ولی عہد 18 فروری کو جکارتہ پہنچیں گے اور وہ 19 فروری کو صدر سے ملاقات کریں گے‘‘۔ سعودی ولی عہد انڈونیشیا کے بعد ملایشیا اور بھارت بھی جائیں گے۔ انڈونیشا کا یہ ان کا دوسرا دورہ ہوگا۔پاکستان میں مختلف یاد داشتوں اور سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کئے جائیں گے ۔ ایک خبر کے مطابق بھارت کے ساتھ سعودی عرب 40بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ جبکہ بھارت نے ایشیائی ممالک کے دورے کے موقع پر پہلے پاکستان جانے پر منفی پروپیگنڈوں کا آغاز بھی کردیا اور بھارتی میڈیا اپنے عادت کے سبب پاکستان مخالف بیانات و پروگراموں میں منفی پروپیگنڈوں میں مصروف ہوچکا ہے ۔بھارتی اخبارات نے اس موقع پر سعودی ولی عہد کو بھارت کے بجائے پہلے پاکستان جانے پر سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

تاہم پاکستان میں سعودی وفد کی آمد اور ولی عہد کی آمد پر پر جوش استقبال کیا جارہا ہے۔ اسلام آباد کی شاہراؤں پر پاک۔سعودیہ دوستی پر مشتمل خصوصی بینر لگائے گئے ہیں ، جب کہ وفد کی سیکورٹی کے تاریخی نوعیت کے انتظامات بھی کئے گئے ہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد کے دورے کے دوران مفاہمت کی کم ازکم آٹھ یادداشتوں پردستخطوں کی توقع ہے اور دستخط شدہ معاہدوں میں پیشرفت کی نگرانی کیلئے ایک رابطہ کونسل قائم کی جائے گی۔۔ مشیر تجارت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے پہلے دو سال میں 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی جب کہ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے دوران 15 سے 20 ارب ڈالرز کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے، منصوبوں میں آئل ریفائنری، کے پی، پنجاب سیاحت کے ہوٹلز کی تعمیر، توانائی پراجیکٹس شامل ہیں، حویلی بہادر شاہ، بھکی پاور پلانٹ میں سعودی سرمایہ کا ری کا امکان ہے۔خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے دیامر بھاشا، مہمند ڈیم منصوبوں کے لئے بھی فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے، دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 37 کروڑ 50 لاکھ سعودی ریال فراہم کیے جائیں گے، جبکہ مہمند ڈیم کیلئے 30 کروڑ، شونتر منصوبے کیلئے 24 کروڑ 75 لاکھ ریال ملیں گے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان بجلی کے 5 منصوبوں کیلئے ایک ارب 20 کروڑ 75 لاکھ ریال کے مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہوں گے۔ سعودی عرب کی جانب سے جامشورو پاور پراجیکٹ کیلئے 15 کروڑ 37 لاکھ ریال جبکہ جاگران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 13 کروڑ 12 لاکھ ریال فراہم کیے جائیں گے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور چیئرپرسن بورڈ آف انویسٹمنٹ ہارون شریف کے ہمراہ اسلام آباد میں اہم پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ پچھلی حکومت کی سعودیہ کے ساتھ دوریاں بڑھ چکی تھیں، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، سعودی عرب نے مشکل وقت میں پاکستان کی امداد کی، وزیراعظم کی کاوشوں سے دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی، سعودیہ سے تعلقات کو معاشی پارٹنر شپ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ٹیم بھیجی، جس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقعوں کا جائزہ لیا،، پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا غیر ملکی وفد کبھی نہیں آیا۔یقینی طور پر سعودی ولی عہد کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بڑے وفد کی آمد دنیا کے لئے ایک معاشی نکتہ نظر کو بھی ظاہر کررہا ہے کہ پاکستان اب دہشت نگردی کی فضا سے باہر نکل آیا ہے اور پاکستان کی سرزمین بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے مکمل محفوظ اور فروغ کا سبب بنے گی۔

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات زیادہ تر تیل اور اس سے منسلک مصنوعات پر مشتمل ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برآمدات ودرآمدات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو اس حوالے سے انتہائی خوش آئند بات ہے کہ آنے والے وقتوں میں دونوں کے درمیان اقتصادیات، معاشیات اور تجارت سے متعلق تعلقات میں مزید اضافہ ہو گا جس سے دونوں ممالک میں استحکام اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ 2003۔04ء میں پاکستان کی برآمدات 348 ملین امریکی ڈالر جبکہ درآمدات 1778 ملین امریکی ڈالر تھیں۔ اس شرح میں ہر گزرتے سال اضافہ ہوتا رہا اور 2013۔14ء میں 4287.7 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں تاہم 2014۔15ء میں ایکسپورٹس 4196.2 ملین امریکی ڈالر جبکہ امپورٹس 3313.1 ملین امریکی ڈالر تک آ گئیں تاہم دونوں ممالک تجارتی تعلقات میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔سعودی ولی عہد کا وژن 2030دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے لئے کشش کا سبب ہوا ہے اور سعودی ولی عہد سعودی عرب کو ایک جدید ملک کی شناخت کے لئے تاریخی کردار ادا کررہے ہیں ۔ سعودی ولی عہد دنیا میں ایک با اثر شخصیت کے مالک ہیں اور ولی عہد بننے کے بعد انہوں نے سعودی عرب کو جدت پسندی کی جانب گامزن کیا ہوا ہے ۔ وژن 2030کا عظیم منصوبے کے تحت سعودی عرب میں انقلابی اصلاحات لائی جا رہی ہیں بقول محمد بن سلمان سعودی عرب کا 40برس پرانا تشخص بحال کیا جارہا ہے۔کئی جدید اصلاحات کے علاوہ محمد بن سلمان نے ’ مہر جان ، شتاء طنطورہ‘ کے نام سے دنیا کا طویل ترین کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا یہ کنسرٹ 20 دسمبر سے 7فروری تک جاری رہا ۔ اس کنسرٹ میں ماجدہ رومی نامی لبنانی گلوکارہ اور امریکا یورپ ، مصر کے نامور گلوکاروں نے شرکت کی۔اس کنسرٹ کا افتتاح بدربن عبداللہ بن فرحان آل سعود نے کیا ۔ کنسرٹ کا آغاز عرب دنیا کے مشہور گلوکار محمد عبدہ کے گانے سے کیا گیا ۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات انتہائی گہرے اور مذہبی اعتبار سے قریب ترین رہے ہیں ۔ پاکستان کے ساتھ سعودیہ کے سابق تمام حکمرانوں کا رشتہ مثالی رہا ہے ، سعودیہ عرب نے ہر بُرے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سمیت شاہ فیصل اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک نے اقوام متحدہ کے مقابلے میں او آئی سی کی بنیاد رکھی اور مسلم دنیا کو اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک موثر پلیٹ فارم دیا ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ او آئی سی وہ موثر کردار ادا نہیں کرسکا ، جس کی امید کی جا رہی تھی۔ مسلم اکثریتی ممالک کے لئے اس بار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلم ممالک کی اتحادی فوج کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت سعودی عرب یمن جنگ میں الجھا ہوا ہے۔یمن عرب دنیا کا سب سے غریب ملک ہے ۔ 7برسوں سے باغی حوثیوں کے سبب سعودی عرب مسلسل حالت جنگ میں ہے۔2017میں عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق یمن بھیجے جانے والے غذائی مواد کے63بحری جہازوں اور550حوثی باغیوں نے لوٹ لئے تھے ۔ جس کے بعد غذائی مواد کی درآمد متاثر ہوئی۔ اس وقت یمن کا 80فیصد شدید قحط کا شکار ہے۔غذائی اور دیگر امداد لوٹنے کے سبب یمن کی عوام کو شدید تکالیف کا سامنا ہے ۔ حوثی باغیوں نے الحدیدہ شہر میں بچوں اور بڑوں کے لئے بھیجی گئی ادویات بھی لوٹ تھی۔سعودی عرب یمن جنگ کی وجہ سے اپنے وسائل دفاع پر خرچ کررہا ہے۔ سعودیہ اب تک اس جنگ میں 216ارب دالر خرچ کرچکا ہے۔ اس جنگ کے روز مرہ مصارف20ملین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔اس جنگ کے زیادہ مصارف حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی شہروں میں پھینکے جانے والے میزائلوں کی وجہ سے آتے ہیں، یوں ہر میزائل کو ناکام کرنے کے لئے3پیٹریاٹ میزائل داغے جاتے ہیں ۔ ایک پیٹریاٹ میزائل کی قیمت3ملین ڈالر ہے ۔ مارچ 2015سے اب تک باغی حوثیوں نے سعودیہ پرتقریباََ 150بیلسٹک میزائل داغے ہیں ، پیٹریاٹ میزائل کے علاوہ سعودیہ نے امریکا سے ’’ تاڈ سسٹم ‘‘ خریدا ہے جس کی حفاظت کے لئے ہر سال100ملین سے زیادہ مصارف آتے ہیں۔سعودیہ اب دنیا کا چوتھا ملک ہے جو اپنے دفاع کے لئے سب سے زیادہ بجٹ مختص کرتا ہے۔

سعودی عرب نے یمن جنگ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے سعودی اتحاد فوج بنائی اور پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف کو سربراہ مقرر کیا تو پڑوسی ملک سمیت پاکستان میں تحفظات کا برملا اظہار کئے جانے لگا ۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو اعتما د میں لئے بغیر غیر اعلانیہ وعدے وعید کئے لیکن عوامی دباؤ کے باعث پارلیمنٹ میں معاملے میں لے گئے ، جہاں پارلیمنٹ نے سعودی ۔یمن جنگ میں غیر جانبدار رہنے اور پاکستانی افواج کو یمن جنگ کا حصہ بننے سے روکنے کی قرار داد منظور کی۔ جس کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آگئی ۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات نے اپنے سخت غصے کے اظہار میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ۔ مسلم امہ جس ملک میں بھی رہتے ہوں ، سر زمین حجاز سے خصوصی لگاؤ و محبت رکھتے ہیں ۔ سر زمین حجاز کی حفاظت کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ سر زمین حجاز کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنائیں گے ۔ پاکستان نے بھی سر زمین حجاز کی حفاظت کے لئے یقین دہانی کرائی اور عرب ممالک کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی بحالی میں پاکستانی عسکری قیادت نے اہم کردار ادا کیا ۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ سرد مہری کے خاتمے میں سیاسی قیادت نے بھی عسکری قیادت کا ساتھ دیا اور بالاآخر عرب ممالک نے پاکستان کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات دوبارہ استوار کرلئے ۔ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے وزیر اعظم کو سعودی عرب نے فراخ دلی سے امداد دی اور وزیر اعظم نے سرکاری تقریر میں اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا ۔پاکستان کی کوشش رہی کہ سعودی عرب و دیگر عرب ممالک مملکت میں سرمایہ کاری بھی لائیں۔ اس ضمن میں سی پیک منصوبے میں تیسرے اسٹریجک پارٹنر بنانے کے حوالے سے عجلت میں دیئے گئے بیان پر بعض ممالک اور خاص طور پر چین کے تحفظات بھی میڈیا میں آئیں ، تاہم پاکستان نے وضاحت دی کہ سعودی عرب سمیت کوئی بھی ملک سی پیک منصوبوں میں سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ وزیراعظم نے چین کے دورے کے موقع پر چین کے تحفظات بھی دور کئے اور چین کی جانب سے امدادی پیکچ کو تاحال ظاہر تو نہیں کیا لیکن چین نے سی پیک منصوبے میں بیرون ملک کی سرمایہ کاری پر اعتراض بھی نہیں کیا ۔

سعودی عرب اب سی پیک منصوبے میں بڑی سرمایہ کاری کررہا ہے جس سے اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی اور بے روزگاری میں کمی بھی واقع ہوگی۔اس کے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے بھاشا اور مہمند ڈیم منصوبوں میں بھی سرمایہ مہیا کرنے سے عوام میں امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان آبی ذخائر کے منصوبوں کو شروع کرنے کے قابل ہوجائے گا۔اس وقت اہم ضرورت اس بات کی تھی کہ پاکستان میں بیرون سرمایہ کاری کا آغاز ہو۔ موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے ، انہیں بیرونی قرضوں و سود کے علاوہ گردشی قرضوں سے خود نکالنے کے لئے عرب ممالک سے ہنگامی بنیادوں پر قرضے لینے پڑے ۔ چونکہ نئی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پڑ چکی تھی اس لئے وزیر اعظم کو مایوسی کا سامنا نہیں ہوا ، لیکن اس کے باوجود قرضوں کا حصول اور آئی ایم ایف جانا ، پاکستان کے لئے مجبوری بن گیا کیونکہ ناتجربہ کار ٹیم برآمدات میں اضافہ کرنے اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری لانے میں اپنے انتخابی پلان کے مطابق فی الحال کامیاب نہیں ہوسکی تھی ۔ ان حالات میں سعودی عرب سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور بڑے پیکچ موجودہ حکومت کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے اور موجودہ حکومت اب اس پوزیشن میں آگئی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو جواب دے سکے کہ 6 مہینوں میں اتنی بڑی سرمایہ کاری پچھلے دس برسوں میں کوئی نہیں لاسکا اور تحریک انصاف اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئی ۔

سعودی عرب اس وقت اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے کثیر زرمبادلہ بھیجنے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔دنیا میں سعودی عرب واحد ایسا ملک ہے جہاں 85 لاکھ سمندر پار تارکین وطن میں سے 22 لاکھ سے زیادہ پاکستانی موجود ہیں جو کسی بھی ملک میں اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کی برآمدات کا حجم اس کی کُل برآمدات کا صرف 1.77فیصد ہے۔ ان برآمدات کا زیادہ تر حصہ ٹیکسٹائل اور غذائی مصنوعات پر مبنی ہے۔پاکستانی کمپنیاں بھی سعودی عرب میں ہونے والے تجارتی میلوں اور نمائشوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتی ہیں، جن سے نہ صرف زرّ مبادلہ کا حصول ممکن ہوتا ہے بلکہ پاکستانی مصنوعات کا تعارف بھی عالمی سطح پر کرانے میں مدد ملتی ہے۔ سعودی بلڈ اینڈ سعودی سٹون ایگزی بیشن، سعودی پرنٹ پیک، پلاسٹک اینڈ پٹرولیم (پی پی پی پی)، پٹرولیم عربیہ کانفرنس اینڈ ایگزی بیشن، سعودی ہیلتھ، فوڈ ایکس، پاکستان ایمبیسی (ریاض) کی جانب سے سالانہ فوڈ فیسٹیول اور سعودی ایگرو فوڈ شامل ہیں۔اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا معاہدہ، فضائی سروس کا معاہدہ، سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) اور ایسوسی ایٹ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے درمیان معاہدہ، ثقافتی معاہدہ، معاشی، اقتصادی اور فنی تعاون کا معاہدہ، سکیورٹی (فوجی) تعاون کا معاہدہ، دوطرفہ سیاسی مشاورت کا معاہدہ، سائنس اور ٹیکنیکل تعاون کا معاہدہ، ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کا معاہدہ، تعلیم اور سائنس کے میدان میں تعاون کا معاہدہ، دوہرے ٹیکس سے بچاؤ کا معاہدہ، مجرموں کی تحویل کا معاہدہ، ایسے دوطرفہ معاہدے ہیں جو باہمی تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔

سعودی عرب کے ساتھ پاکستانی مسلم عوام کا ایک انتہائی قریبی و مذہبی جذبہ اسلامی روایات کی وجہ سے قائم ہیں۔ سر زمین حجاز اور پاکستان کے درمیان بھائی چارے کے مثال پاکستان میں تاریخی عمارتیں بھی ہیں جس میں اسلام آبادمیں شاہ فیصل مسجد ، بین الاقوامی معیار کی اسلامی یونی ورسٹی جو 10ملین ڈالر کی گرانٹ سے قائم ہوئی ، پاکستان کا تیسرے بڑے شہر لائل پور کا نام تبدیل کرکے سعودی شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا ۔ لاہور اور رحیم یار خان میں شیخ زیدہسپتال، کراچی کی شارع فیصل،فیصل ٹاؤن ، شاہ فیصل کالونی بھی سعودی عرب سے دیرینہ دوستی اور بھائی چارے کے اہم مثالیں ہیں۔ جبکہ سعودی عرب نے بھی ریاض اور جدہ میں شارع محمد علی جناح کے نام سے موسوم سڑکیں بنائیں۔ جس طرح سعودی عرب نے پاکستان ہر قدرتی آفات میں ساتھ دیا ، اسی طرح پاکستان نے بھی سر زمین حجاز کے دفاع کے لئے بھرپور تعاون کیا اور خاص طور پر مکہ المکرمہ کی حفاظت کے لئے پاکستان افواج کی خدمات کبھی نہیں بھلائی جاسکتی ۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نوجوان اور مستقبل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کو معاشی طاقت کے علاوہ دفاعی اعتبار سے بھی مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک نئے تعلقات کی صبح کا آغاز ہورہا ہے۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں کو اپنے مسائل بھی بہت ہوتے تعلقات کی وجہ سے جلد حل ہونے امید پیدا ہوئی ہے۔ جبکہ ایشیائی ممالک کے دورے میں سب سے پاکستان کا دورہ نہایت خوش آئند ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو کئی ایسے معاملات پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو عمران خان کی جانب سے اٹھائے گئے ہیں ، بہتر ہوگا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے بجائے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پاکستان کو درپیش حالات کو بھی مد نظر رکھنا اہم ترین ضرورت ہے۔ کسی جماعت یا رکن پارلیمان کو اگر کوئی تحفظات بھی ہوں تو اسے پارلیمنٹ میں ہی قانون کے دائرے اور مینڈیٹ کے مطابق اظہار کریں ۔ حکمراں جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ بہتر ہوتے تعلقات میں کسی بھی جماعت کو گر تحفظات ہوں انہیں پارلیمنٹ میں دور کریں ۔ سیاسی جماعتوں کی بیان بازیاں اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تمام تر فروعی اختلافات سے بالاتر ہوکر صرف پاکستان کی معیشت، سا لمیت اور بقا کے لئے مختص ہونی چاہیے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
18912