Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سُرود ……….. کلیجہ منہ کوآتا ہے …….. شہزادی کوثر

شیئر کریں:

دنیا کی تیز رفتار ترقی نے بہت سی نا ممکنات کو ممکن میں بدل دیا ہے ٓائے دن سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ماضی کا انسان جن واقعات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا،اج کے انسان کے لئے وہ معمول کی بات بن چکی ہے۔اڑنے کی خواہش پرانے زمانے سے ہی لوگوں کے دلوں میں بسیرا کیے ہوئے تھی لیکن اج ہم اس کوحقیقت کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ایسا لباس متعارف ہو چکا ہے جسے پہن کر جہاں دل چاہے خود ہی اڑتے پھریں جہاز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ایسے الات بنائے گئے ہیں جو دیوار کی دوسری جانب چھپے ہوئے دشمن کی تعداد اور پوزیشن بالکل صحیح دکھاتے ہیں۔زیر زمین اور زیر ٓاب بنے غاروں کے اندر بھی انسان کی پہنچ ہے۔بلیک ہول اور وائٹ ہول کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے۔کائنات کے تاریک گوشوں میں بھی بیباکی سے جھانکا جا رہا ہے۔اس جیسے لاکھوں نئے تجربات انسان کو حیرت کے سمندر میں غرق کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔انسانی اسائشوں کے تمام لوازمات ہر ایک کے پاس موجود ہیں۔ہزاروں میل دور بیٹھا شخص صرف اسکرین چھو کر اپنا پیغام تصویر اور ٓاواز دوسرے تک پہنچاتا ہے،ارضی اور سماوی فتوحات ہمارے لئے کوئی انہونی بات نہیں رہی،ان تمام کامیابیوں کے باوجود ہم بہت سی چیزوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں،جدید دور نے سب سے کاری ضرب ہمارے احساسات پر لگائی ہے۔پہلے زمانے میں رحم اور محبت کے جذبات کی فراوانی تھی،غم اور خوشی میں ساتھ دیتے،ایک دوسرے کے حالات سےآاگہی تھی،لوگ جذباتی اور روحانی طور پر ایک دوسرے کے قریب تھے۔اج سب کچھ میسر ہونے کے باوجود دلوں میں خلیج اتنی وسیع ہو چکی ہے جسے پاٹنا دشوار لگتا ہے۔پڑوس میں مدت سے کوئی بیمار ہوتا ہے مگر ہمیں خبر نہیں ہوتی،کسی کے گھر کا چولھا کب سے ٹھنڈا پڑ چکا ہوتا ہے لیکن ہم لا علم ہوتے ہیں، مادہ پرستی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ماں باپ اور بہن بھائی ایک دوسرے سے ملے کئی کئی دن گزر جاتے ہیں،یا ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بچے ماں باپ کو اپنے وقت کا تھوڑا سا حصہ بھی نہیں دیتے،اکیلے کمرے میں بیٹھے ہوئے بوڑھے والدین کی ٓانکھیں اپنے بچوں کی راہ تکتی رہتی ہیں۔اگر اولاد والدین کے پاس بیٹھتی بھی ہے تو ان سے بات کرنے کے بجائے موبائل میں مصروف ہوتی ہے،یہ انداز بیچارے والدین پر بجلی بن کر گرتی ہے لیکن اولاد کی ناراضگی اور سخت روئیے سے خوفزدہ ہو کر وہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتے،اولاد کو ان کے دلوں میں جھاکنا تو دور کی بات ان سے بات کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی،عمر کے اس حصے میں تنہائی کا شکار والدین کس سے باتیں کر کے اپنا دل بہلائیں گے۔ان کی محبتوں اور خلوص کا صلہ کیا یہ ہے کہ ہماری توجہ کو ترس جائیں،ان آلات نے ہمارے احساس مروت کو بھی کچل دیا ہے۔جنھوں نے ہمیں ہاتھ پکڑ کر چلنا ، بولنا اور مشکلات سے لڑنا سکھایاآاج وہ ہمارے نزدیک جاہل ہیں وہ کچھ نہیں جانتے دقیانوسی سوچھ رکھتے ہیں۔کیونکہ بیٹی کو دوپٹہ اوڑھنے کا کہتے ہوئے ان کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے بیٹے کی گھٹنوں سے پھٹی جینز اور چست شرٹ ان کے دل پر تیر بن کر برستی ہے لیکن وہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ بیٹا اس بات کو ہضم نہیں کرے گا،ساری رات آوارہ گردی میں گزار کر دن بارہ بجے تک سوتا رہے گا ما ں باپ کچھ کہیں گے تو ایسا روکھا جواب ملے گا کہ وہ لرز کر رہ جائیں گے۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے بد گمان ہیں۔ کیبل کے زریعے ہزاروں چینلز کی شکل میں شیطان ہمارے گھروں اور ذہنوں میں گھس چکا ہے۔جن میں دکھائے جانے والے پروگرام دیکھنے کے قابل نہیں ہیں ان میں صرف فحاشی اور عریانیت کی تعلیم زبردست طریقے سے دی جا رہی ہے۔موبائل نیٹ ورکس طرح طرح کے مڈنائٹ پیکیجز سے نئی نسل کو بربادی کے گڑھے میں گرا رہے ہیں۔انٹر نیٹ پر ہر طرح کا گندہ مواد ہر ایک کی دسترس میں ہے،فیس بک انسٹا گرام اور وٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے انتہائی بیہودہ اور ایمان کو غارت کرنے والے ویڈیوزایک دوسرے کو بھیجی جاتی ہیں۔نماز پڑھتے ہوئے بھی دل کے عین اوپر موبائل فون رکھا ہوتا ہے۔ہماری عزت محفوظ نہیں گھروں میں پرائیوسی نام کی کوئی چیز نہیں رہی جو بات ہو براہ راست کوئی دوسرا سن اور دیکھ رہا ہوتا ہے،ایسی غلطیاں نوجوانوں سے سرزد ہو رہی ہیں جنہیں چھپانے کے لئے انہیں اپنی زندگی کا چراغ اپنے ہی ہاتھوں سے گل کرنا پڑتا ہے۔ ٓائے دن دل دہلا دینے والے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ سر چکرانے لگتا ہے۔ان ساری پریشانیوں کی وجہ ٹکنالوجی سے کہیں زیادہ ہم خود ہیں کیونکہ برائی چیز میں نہیں اس کے استعمال کرنے والے میں ہوتی ہے،سکول اور کالج جانے والے بچوں کو موبائل نہیں دینا چاہئیے،نوجوانوں اور بڑوں کو بھی خود سے تھوڑی حیاآانی چاہیے تاکہ وہ غیر اخلاقی اور غلط سائٹ دیکھنے سے اجتناب کریں تو شائد ان گمراہیوں سے بچ جائیں۔ اولاد سے صرف اتنی بات کہنی ہے کہ والدین کے لئیے کم سے کم بیس منٹ ضرور نکالیں جنہوں نے اپنی زندگی ہمارے نام کی ہے،ہماری خوشی کے لئیے کتنے دکھ اٹھاے ہیں ہمیں راحت پہنچانے کے لئے کتنی اذیتیں برداشت کی ہیں،ہمیں ان میں اضافہ نہیں کرنا بلکہ ان کے دکھوں کا مداوا بننا ہے۔۔۔۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
18674