Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بید اد …………غَل اور مل ……….. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on
شیئر کریں:

پشتو میں ضر ب المشل ہے اگر چور نہیں بھا گتا تو گھر کے مالک کو بھا گنا ہو گا پشتو میں چور کو غَل اور گھر کے مالک کو مَل کہتے ہیں اس ضر ب المثل کی صدائے بازگشت آج کل افغانستان کے در ودیوار سے آرہی ہے چو ر بھا گ رہا ہے اور گھر کا مالک حیران ہے کہ چور کے بھا گنے کے بعد گھر کس کو دیا جائے ؟ عجیب سی صورت حال ہے اور عجیب اس لئے ہے کہ گھر کا مالک ایک نہیں گھر کے کئی مالک ہیں ہر مالک کا اصرار ہے کہ اصل مالک میں ہوں اور ہر مالک کی ضد ہے کہ گھر پر میرا قبضہ ہو گا چو ر کو اس طرح کی صورت حال کا پتہ ہے چور نے پہلے بھی اس کا مشا ہد ہ کیا ہے 2002 ؁ء میں مشر قی تیمور سے انڈ ونیشیا کی فوجوں کو نکال دیا گیا تو تحر یک آزادی کے دو کردار سنا نہ گسما ؤ اور کارلوس بیلو اقتدار اور اقتدار کی رسہ کشی سے الگ ہو گئے متفقہ حکومت وجود میں آگئی کوئی خا نہ جنگی نہیں ہو ئی1991 ؁ء میں افغانستان سے سویت یونین کی فوجوں کا انخلا ء ہوا تو تحر یک آزادی کے 9 بڑے لیڈروں میں سے ہر ایک نے کہا حکومت کر نا میر ا حق ہے اس پر طویل خانہ جنگی شروع ہو ئی جواب تک جاری ہے 1991 ؁ء سے 2019 ؁ء کے درمیان جو 28 سال بیت گئے ان سالوں میں افغانستان کو سویت یونین کے قبضے والی جنگ سے 100 گنا زیادہ نقصان ہوا وجہ یہ تھی کہ اُس وقت دشمن کے ساتھ مقابلہ تھا اوراب بھا ئی اپنے بھا ئی کا گلا کاٹ رہا تھا یہ تلخ حقیقت ہے اس کا ادراک کئے بغیر آگے بڑھنا اور آگے آنے والی ممکنہ حالات پر بحث کر نا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے اُمید کا دیا صرف ایک ہے وہ یہ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹر مپ نے انتخا بی مہم کے دوران امریکی عوام سے وعد ہ کیا تھا کہ امریکی فوجوں کو بیرونی ممالک کی جنگوں میں استعمال نہیں کیا جائے گا صدر منتخب ہو نے کے بعد انہوں نے اپنے عزم کو دہر اتے ہو ئے ایک با ر پھر کہا تھا کہ بیرونی مما لک سے امریکی فوجیں واپس بلائی جائینگی انہوں نے کہا تھاکہ ’’ ہم نے دُنیا جہاں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ‘‘ یہ اُ مید کی ایک کرن ہے کہ چور خود بھا گنے کی فکر میں ہے چور کے بھا گنے کے بعد کیا ہو گا ؟ اس کی ہلکی سی جھلک گزشتہ دو ہفتوں کے اخبارات میں نظر آتی ہے چار بڑے بڑے گروہ سامنے آگئے ہیں ایک گروہ کہتا ہے کہ چور کو میں نے نکا لا ، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ چور کو میں نے نکا لا ، تیسرا گروہ کہتا ہے چور کو میں نے نکا لا اور چو تھا گروہ کہتا ہے میری طرف سے دباؤ نہ ہوتا تو چور کبھی نہ نکلتا اب چورکی باری ہے ابھی تک چور نے یہ نہیں کہا کہ مجھے کس نے نکا لا یا ’’ مجھے کیو ں نکا لا ‘‘ ؟ اگر چور کسی ایک کے اوپر ہا تھ رکھ دے کہ مجھے اس نے نکا لا تو وہ چور کا جانشین ہو گا اور ظاہر ہے چور کا یار ہو گا تو چور ہی ہو گا قرا ئن سے پتہ لگتا ہے کہ چور ایسا نہیں کہے گا اب تک کے تجربات اور زمینی حقائق کی روشنی میں چور کا وصیت نا مہ تیا ر رہے چور کے وصیت نامے کی چیدہ چیدہ باتیں یہ ہیں چور نے وصیت کی ہے کہ میرے جانے کے بعد میر ا جانشین جو بھی ہو گا وہ دا عش سے لڑ ے گا گویا چور امن کا راستہ صاف کرنے کی جگہ جنگ کی راہ ہموار کر کے جارہا ہے دوسری وصیت یہ ہے کہ میرے اموال متروکہ ، میرے چیک پوسٹ، میراایمو نیشن ، میرے اڈے میرے ہمدم دیرینہ اور وفادار دوست بھارت کو ملیں گے تیسری وصیت یہ ہے کہ میرے جانشین کا پہلا فرض یہ ہو گا کہ وہ میرے دوست بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور میرے دشمن پاکستان کو حر کت کرنے کی اجا زت نہ دے یہ تین نکا تی ایجنڈا ہے اور افغانستان سے امریکی فو جوں کے انخلا کے بعد اس پر عمل درآمد کا آغاز ہو گا اگر یہاں تک پڑھ کرپاکستانی قاری کو کسی قدر نا امیدی اور ما یو سی ہو ئی ہوتو میں معذرت خواہ ہوں ، میرے سامنے آئینہ ہے آئینے میں دو تصویریں ہیں پہلی تصویر میں دکھا یا گیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو کھو لا گیا ہے افغان مہاجرین کے قا فلے جو ق در جوق پا کستان آرہے ہیں اور پاکستانی قوم سپر پاور بننے کے شوق میں جشن منا رہی ہے دوسری تصویر وہ ہے جس میں افغا نستان سے سویت افواج کے انخلا کا منظر ہے سویت یونین کے ٹینک واپسی سفر پر در یائے آمور کو پار کررہے ہیں پا کستان میں جشن بر پا ہے کہ مجا ہدین کامیاب ہوئے پاکستان جیت گیا اور دشمن کو شکست ہوئی آئینے میں دونوں تصویریں مو جو د ہیں مگر صورت حال ہمارے توقعات کے بر عکس ہے افغان مہاجرین کے آنے کے بعد پاکستان کو کسی بھی میدان میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی سویت یو نین کی فو جوں کے انخلا کے بعد نہ مجا ہدین کی کامیابی کہیں دیکھنے میں آئی نہ پاکستان کے دشمن کی کوئی شکست ہمیں نظر آئی اب ہم خواہ مخوا شادیانے بجا نے اور بلا جواز جشن منا نے کے عادی ہو چکے ہیں سکرپٹ یا مسودہ وہی ہے جو 1975ء میں لکھا جا چکا تھا بعض کرداروں کی جگہ نئے کر دار لائے گئے ہیں پاکستان پہلے بھی مہمان اداکار یا چائلڈ سٹار تھا اب بھی پاکستان کی حیثیت وہی ہے قطر سے لیکر ما سکو اور ریاض سے لیکر اسلام آباد تک جو تما شا لگا یا جا رہا ہے وہ پرانا تما شا ہے یہ تما شا کس طرح آگے بڑھے گا اس کا انحصار تماشا لگا نے والے مداری کی ضرورت اور اس کے ذوق پر ہے افتخار عارف نے سو باتوں کی ایک بات دو شعروں میں کہی ہے ؂
سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہینگی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تما شا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تما شا ختم ہو گا


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
18620