Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سُرود………….. حُسن…………… شہزادی کوثر

Posted on
شیئر کریں:

اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے،اس وجہ سے اپنی تخلیق میں بھی ایسا عنصر پوشیدہ رکھا ہے جو اس آیت کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔یہ ایسی صفت ہے جو ہر جگہ اور ہر چیز میں کسی نہ کسی صورت میں نظر ٓاتی ہے۔دنیا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہریالی ہو یاآسمان سے باتیں کرتی چٹانوں میں جمی برف،صحرا کی وسعت میں پھیلی ہوئی ریت ہو یا گہرے سمندروں میں اٹھنے والی لہریں، جوش سے بھپری ہوئی پہاڑی ندی ہو یانیلگوں ٓاسمان میں تیرتے بادل،حسن ہر رنگ ہر روپ میں اپنی طرف کھینچتاہے۔ کوئی ٓابشار پورے زور وشورسے گرتی ہو یا کوئی جھرنا اپنی مدہر ٓاواز میں بہتا ہو وہ اپنے حسن سے متاثر ضرور کرتاہے۔اگر ایک طرف ماں کی ٓاغوش میں ہمکتا ہوا گول مٹول بچہ حسن کا نمونہ ہوتا ہے اور دوسری طرف سفید بالوں اور جھریوں سے اٹے چہرے والی با وقار خاتون حسن کا شاہکار ہوتی ہے۔کہیں شرافت سے سر جھکایا ہوا نوجوان اور کہیں شرم وحیا کی تپش سے دہکتے ہوئے رخسار حسن کی مثال بن کر نظرآتے ہیں۔زندگی کی شاہراہ پر لاٹھی ٹیک کر چلنے والا سفید ریش بزرگ اپنے وجود میں حسن کی بے مثال کہانی سموتا ہوا گزرتا ہے۔دھند میں لپٹے ہوئے چنار کے درخت اور برسات میں پرانے مکان کا بہتا ہوا پرنالہ حسن کی خاموش کہانی بڑے زور و شور سے سناتا ہے۔ کائنات کی بے کراں وسعتوں میں جدھر بھی نگاہ جاتی ہے حسن کے جلوے بکھرے ہوتے ہیں۔ویسے یہ حسن چیز کیا ہے اس کی کوئی جامع تعریف ہے بھی کہ نہیں؟ دیکھا جائے تو ہر انسان کے نزدیک حسن کا معیار الگ ہوتا ہے۔سب سے زیادہ جس چیز کو اس کی وضاحت کے لئے حوالہ بنایا جاتا ہے وہ انسان کا چہرہ ہے جس کی سفید رنگت، بڑی ٓانکھیں لمبا قد چھوٹا دہن،وغیرہ کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔اس معاملے میں شعرا کا نرالا ہی انداز ہے انھوں نے جن صفات کو حسن تصور کیا ہے اگر ان سب کو ملا کر مجسم کیا جائے تو عجیب مخلوق بن جائے گی،مثلا چیتے کی کمر،ہرنی کی ٓانکھیں،ناگن جیسی زلفیں،سرو جیسا قد،صراحی جیسی گردن،چاند جیسا چہرہ اور ستم ظریفی یہ کہ دہن اتنا چھوٹا کہ نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے جو بھی ہو کوئی انسانی صفت ان میں بہر حال موجود نہیں ہوتی۔حسن ایسی صفت نہیں جسے چند چیزوں سے مخصوص کر سکیںیہ تو طرز احساس کا نام ہے؛اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ صرف انسانی صورت سے مخصوص ہو کر رہ جاتی۔ہر انسان میں حسن کا احساس موجود ہوتا ہے،مثلا شاعر جو کچھ اشعار میں ڈھالتا ہے چاہے وہ خیال ہو الفاظ ہوں یا اسلوب،جس وقت اپنے ذہن میں موجود احساس کو اس میں شامل نہ کرے حسن کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔ سنگ تراش پتھر کو تراش کر حسن تخلیق کرتا ہے۔کوئی بھی فنکار اپنے فن کا اظہار صرف پیرائیہ جمال ہی میں کر سکتا ہے۔اکثر کہا جاتا ہے کہ حسن دیکھنے والے کی ٓانکھ میں ہوتی ہے،اگر ایسا ہوتا تو ہمیں ہر چیز اور ہر انسان میں خوبصورتی نظر ٓاتی۔ہو سکتا ہے اس کی ٓانکھ میں بھی ہولیکن اس چیز میں خوبصورتی کا پایا جانا یقینی ہے۔اصل میں حسن توازن کا دوسرا نام ہے،وہ انسان کے خدوخال میں ہو یا قدو قامت میں آوازو انداز میں ہو یا رنگ و روپ میں،ہر طرح سے ہمارے ذہن ودل کو خوشی کا پیغام دیتا ہے۔ہم ظاہر ی حسن پر زیادہ فریفتہ ہوتے ہیں اس سے کئی گناذیادہ حسن تو باطن میں ہوتا ہے۔ ظاہر دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔اصل اور دائمی حسن اندر ہوتا ہے جو اخلاق ،کردار ، شائستگی ،ایمانداری،انصاف اور بہت سی دوسری صفات کے طور پر اپنی جھلک دکھاتا؛ک ہے۔ظاہر پر توجہ کی وجہ سے یہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ باطن کا حسن ہمارے سلوک معاملات اور رویہ ہر چیز میں سے جھلکتا ہے۔اور بن کہے ہماری شخصیت کے تمام خدوخال عیاں کرتا ہے۔اس کی وجہ سے ہمارا دل صاف ہوتا ہے لہجہ میٹھا اور عمل نیک ہو جاتے ہیں۔محض ظاہری طور پر حسین ہونا کافی نہیں اندرون روشن ہو تو نہ صرف ہمارا بلکہ دوسروں کا بھی بھلا ہو سکے گا۔اللہ تعالی کا خوبصورتی کو پسند کرنے کا مطلب یہ ہے جو اکبر الہ ٓابادی نے بتایا ہے کہ۔۔۔۔

قر ٓان میں آایا ہے خدا حسن سے خوش ہے
کس حسن سے یہ بھی تو سنو حسنِ عمل سے

اللہ کے سامنے ہم اپنے جسمانی اور ظاہری حسن کی وجہ سے معزز نہیں ہوتے بلکہ ہمارے اعمال میں حسن ہو گا تو اعلی مرتبہ حاصل کرنے کے مستحق ٹہریں گے۔۔۔


شیئر کریں: