Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سُرود…………. یادیں………… شہزادی کوثر

Posted on
شیئر کریں:

یادیں .بھی بڑی عجیب ہیں،غمگین لمحوں میں ان کے ذریعے جینے کا حوصلہ ملتا ہے،اور خوشی کے لمحے میں کوئی تلخ واقعے کی جھلک ذہن کے کسی دریچے سے سر نکالے تو انسان آانسوؤں کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔یہ ہمارا وہ خزانہ ہے جس کی رکھوالی کے لیے سانپ بٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ایسا خزانہ جو چوری اور ڈکیتی سے سو فیصد محفوظ ہوتا ہے۔جب چاہیں دماغ کے کسی کونے کھدرے سے نکالیں دل بہلایں اور واپس رکھ دیں۔اک فرصتِ نگاہ میں سو بار دیکھنا کے مصداق کئی بار کھلی ٓانکھوں دیکھ بھی سکتے۔ان یادوں میں ہمارا بچپن،ہمارے دوست،پیار کرنے والے لوگ،خوبصورت نظارے،شرارتیں ،مستیاں وہ سب کچھ قید ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا بہت مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔یہ ساری چیزیں وقت کے اس پار ہمیں بلاتی ہیں۔ان کے اختیار میں نہیں کہ ہمارے پاس آ جائیں لیکن کبھی کبھارہم اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت ان کے لیے ضرور نکالتے ہیں۔اگر اس خزانے میں مثبت یادیں موجود ہیں تو ہمارے امیر ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے،لیکن مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب ہم منفی یادوں کابہت بڑا ڈھیر لگائے ہوتے ہیں اور بار بار ان یادوں کے دریچے میں سے جھانک کر اپنا وقت اور دماغ خراب کرتے ہیں۔ ہم کسی اچھے لطیفے یا پرلطف بات پر کئی بار نہیں ہنس سکتے تو کسی کی طنز بھری باتوں یا برے روئیے کو یاد کر کے نئے سرے سے کیوں روتے یا خفا ہوتے ہیں۔یہ مشکل ضرور ہے کہ کسی کی کڑوی باتیں یا اذیت دینے والا رویہ انسان بھول جائے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں بلائے ناگہانی کی طرح جان پر نازل کریں۔ہم شاید اذیت پسند واقع ہوئے ہیں کہ جو بات ہمیں تکلیف دیتی ہے اسے فراموش کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ انتہائی احتیاط سے رکھتے ہیں،اور تھوڑی سی بھی اونچ نیچ ہو جائے تو اس بات کا موجودہ صورتحال سے ایسا تعلق جوڑتے ہیں کہ خود ہمیں حیرت ہونے لگتی ہے۔اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے منفی سوالوں کا جواب خود ہی سوچتے ہیں جس سے یہ مشکل ٓان پڑتی ہے کہ یا توہم سماج اور لوگوں کو برا بھلا کہیں گے یا اپنے غصے کا اظہار نہ ہونے کی صورت میں جی ہی جی میں کُڑھتے رہیں گے۔ ہماری قوتِ برداشت اتنی نہیں ہے کہ اپنے ساتھ برا کرنے والوں کے حق میں کلمہ خیر کہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منفی سوچوں کے ذخیرے میں اضافہ ہو گا۔ہم ان کو جتنا بھی چھپانے کی کوشش کریں ہمارے چہرے سے سب کچھ ظاہر ہوگا،ہماری صحت متاثر ہوگی،رشتے ناطوں سے د وریاں بڑھیں گی۔ یہ نقصان صرف ہمارا ہی ہو گا۔ کیوں کہ کوئی ایسی خوبی ہماری شخصیت میں نظر نہیں ٓائے گی جو پسندیدگی کا باعث بن سکے۔

ہمارے اعصاب اور اخلاق پرپڑنے والے برے اثرات مردم بیزاری کا سبب بنیں گے۔حالات کے انتہائی کشیدہ صورت اختیار کرنے سے پہلے ہی اگر ہم اپنی سوچھ کا دھارادوسری جانب موڑ دیں تو اس کا فائدہ بھی ہمیں ہی ہو گا، مثبت پہلوؤں پر غور کرنے کی کوشش کریں گے،اپنے خیالوں کی دنیا کو کھوجیں گے تو کتنے بیتے سمے اور بچھڑی صورتوں کی تصویریں نظر ٓائیں گی جنھیں ہم نے بڑے سلیقے سے سجایا ہوتا ہے،یہ انمول یادیں ہمارے چہرے پرمسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں۔اپنے تھکے ہارے وجود کو ماضی کے خوبصورت مرغزاروں میں کھلا چھوڑ دیں تو بڑی راحت کا احساس ہوتا ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ نہ وہ لمحات ہمارے قبضے میں ہیں اور نہ ہی وہ بچپن کی بادشاہت لوٹے گی،لیکن کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے ہمیں ٓارام ضرور ملے گی۔حالات سے لڑتا ہوا انسان کبھی کبھی فرار بھی چاہتا ہے جب مسلسل یکسانیت سے وحشت ہونے لگتی ہے تو بہت سے لوگ چرس، افیون،اور شراب کی صحبت اختیار کرتے ہیں،پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ شراب پی کر غموں اور دکھوں سے وقتی نجات مل جاتی ہے،یہ خود فریبی ہم ماضی کی یادوں سے سرشار ہو کر بھی تو حاصل کر سکتے ہیں
۔وقتی فرار تو اچھی یادوں اور مثبت سوچ کے ذریعے بھی ملتی ہے،اس کے لیے اپنے ایمان کو غارت کرنے کی کیا ضرورت ہے،یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ماضی کو یاد کرنا اچھی بات ہے لیکن ماضی میں جینا نہیں چاہیے کیونکہ ماضی پرستی چین سے جینے نہیں دیتی۔ہر کسی کا ماضی شاندار نہیں ہوتا۔اگر کسی نے تنگی ترشی دیکھی ہے اور حالات کی بھٹی میں جلتا رہا ہے تو ایسے ہی لوگ کندن بن کر نکلتے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔برے حالات اور کاٹ دار باتوں کی تکلیف انسان کو کچھ کر گزرنے کے قابل بناتی ہے۔ شرط اتنی ہے کہ انسان تخریبی سوچھ سے تعمیری عمل کی طرف منتقل ہو جائے جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر کسی کا ماضی شاندار بھی رہا ہے تو اس کی یاد میں اپنے حال کو ضائع نہ کرے ّ پدرم سلطان بود کہہ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا کہاں کی عقلمندی ہے، انسان کو خود کچھ بن کر دکھانا پڑتا ہے۔اگر ہم منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہیں تو یہ کوئی کارنامہ نہیں بلکہ کارنامہ یہ ہوگا کہ ایک عظیم انسان کی حیثیت سے دنیا میں اپنا نام اور ذہنوں میں اپنی یاد چھوڑ جائیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
18415