Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سولرائزیشن میں بے قاعدگیاں…….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبہ بھر کے اسپتالوں، بی ایچ یوز، آر ایچ سیز اور مساجدکے علاوہ مصروف شاہراہوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لئے پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن میں شمسی توانائی کا الگ شعبہ قائم کردیا ہے۔صوبے کے مختلف علاقوں اور ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں شمسی توانائی کے ذریعے گھروں کو روشن کرنے کا منصوبہ تیزی سے جاری ہے۔ تاہم سولرائزیشن پروگرام کی راہ میں کچھ ادارہ جاتی مشکلات حائل ہورہی ہیں۔ غیر ملکی امداد سے شروع کئے جانے والے پروگرام میں میرٹ اور ضرورت کے بجائے پسند اور ناپسند کو زیادہ دخل ہے۔ جولائی 2015کے تباہ کن سیلاب میں ریشن بجلی گھر کی تباہی کے بعد اس بجلی گھر کے سولہ ہزار صارفین کو شمسی توانائی کے ذریعے روشنی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صوبائی حکومت نے ایچ ڈی ایف کی مالی امداد سے چترال کے دو ہزار سات سو پچاس گھروں کو سولر سسٹم فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔پیڈو نے اس منصوبے کے لئے برق انجینئرنگ کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کیں۔ اورانہیں سولر پینلز کے حوالے سے سروے، تنصیب، ڈیزائن، نگرانی اور فائنل ٹیسٹنگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔کمپنی نے اپر چترال کی 25یونین کونسلوں میں 2750گھروں کو سولر سسٹم فراہم کیا۔ ایک گھر میں سولر سسٹم کی تنصیب پر 89ہزار760روپے اور مجموعی طور پر اس منصوبے پر 24کروڑ 68لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ ان سولر پینلز میں سے ایک ہزار پینل ریشن کے لئے منظور ہوئے تھے کیونکہ سیلاب سے ریشن سب سے زیادہ متاثرہ ہوا تھا۔ بجلی گھر کے علاوہ ٹرانسمیشن لائن، ٹرانسفارمرز، لوگوں کے رہائشی مکانات، باغات ، زرعی اراضی، تیار فصلیں، دکانیں،سرکاری اور نجی عمارتیں سیلاب کی نذر ہوگئی تھیں۔300سولر سسٹم دینے پر ریشن والوں نے سولر سسٹم کا بائیکاٹ کردیا۔ ریشن کے متاثرین سیلاب کے احتجاج پر سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے متاثرین ریشن کے لئے ایک ہزار سولر پینل فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے پر 8کروڑ97لاکھ 60ہزار کی لاگت کا تحمینہ تھا۔ ریشن کے لئے مختص سولر پینلز جب پہنچ گئے تو ان کی تقسیم میں سیاست در آئی ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے تجویز دی ہے کہ چونکہ چترال کو گولین گول بجلی گھر سے بجلی فراہم کی گئی ہے۔ اس لئے ریشن کے ایک ہزار سولر پینلز جنوبی اضلاع کو فراہم کئے جائیں۔تاہم منتخب نمائندوں کے احتجاج اور میڈیا کے دباو پر سولر پینلز کی منتقلی روک دی گئی۔ چترال کی ضلعی انتظامیہ نے ناظمین کے ساتھ مشاورت کے بعد ریشن کے حصے میں آنے والے سولر پینلز تمام یونین کونسلوں پر تقسیم کرنے کی تجویز دی ہے۔یوں ریشن کے متاثرین کو پھر محروم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ کسی مخصوص علاقے کے لئے منظور ہونیو الا منصوبہ ہنگامی صورتحال کے بغیر دوسری جگہ منتقل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ ایک گھر کا چراغ گل کرکے دوسرے گھر کو روشن کرناقرین انصاف نہیں۔صوبائی حکومت نے چترال میں بجلی کی ترسیل میں حائل رکاوٹوں کے پیش نظر چترال کو مزید دو ہزار سولر پینل فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ریشن کے متاثرین کو ان کے لئے مختص تمام ایک ہزار سولر پینلز فراہم کئے جائیں مزید دو ہزار سولر پینلز ان علاقوں کو فراہم کئے جائیں جہاں اب تک روشنی نہیں پہنچ سکی۔ عوام کو فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ٹینڈر اور ٹھیکیداری نظام کے چکروں میں پڑنے کے بجائے برق کمپنی کو ہی ان سولر پینلز کی تنصیب کی ذمہ داری سونپ دی جائے کیونکہ اس کے پاس مطلوبہ اہلیت ، تجربہ اور تینکیکی صلاحیت موجود ہے اور وہ قبائلی اضلاع سمیت پورے خیبر پختونخوا میں پہلے ہی کام کر رہی ہے۔ اگر پیڈو اور ضلعی انتظامیہ ٹھیکیداروں کو نوازنے اور کمیشن کھرا کرنے کے چکر میں پڑ گئی تو متاثرین مزید سال ڈیڑھ سال تک روشنی سے محروم رہیں گے۔ یہاں ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ متاثرین چترال کو یہ سولر پینل غیر ملکی امداد سے مفت فراہم کئے گئے ہیں۔ جبکہ متاثرین سے ان پینلز کے عوض دس ہزار روپے فی خاندان وصول کئے جارہے ہیں۔ یہ رقم کہاں جاتی ہے اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ صوبائی حکومت کو اس صورتحال کو نوٹس لیتے ہوئے غریب خاندانوں کو سولر پینلز کی مفت فراہمی کا بندوبست کرناچاہئے۔


شیئر کریں: