Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

طویل المیعاد معاشی امکانات…………محمد عنصرعثمانی

Posted on
شیئر کریں:

صحت ، تعلیم ،سائنس ،ریسرچ ، ٹیکنا لوجی کی ترقی سے کسی بھی قوم کے وقارکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جو قومیں ان چیزوں میں پیچھے ہیں وہ نہ تو ترقی کر سکتی ہیں اور نہ ہی دنیا کے لیے مثالی بن سکتی ہیں۔ہمارے ملک میں ناخواندگی کی شرح خوفناک حدوں کو چھو رہی ہے اور اس اضافے کو روکنے کی کوششیں کہیں نظر نہیں آرہیں۔ہمارے نوجوان صف اول کے با صلا حیت شمار ہوتے ہیں ۔ اگر سکول لیول سے معیاری تعلیم کے ساتھ نوجوانوں کو پروان چڑھایا جائے تو پوری دنیا کے لیے ایسے ذہنوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔سکولوں میں غیر معیاری تعلیم سے آنکھیں موندناہمارے خوابوں کو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا۔
آج کا نوجوان کالج ، یونیورسٹی سے انقلاب لانے کی خواہش کرتا ہے۔جب کے اسے یہ کام سکول لیول سے شروع کرنا چاہیے تھا۔وہ یہ بھول جاتا ہے کہ سکول کی ابتدائی تعلیم ہی انقلابِ مستقبل کا باب ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہمارا ملک معیاری تعلیم کے قحط سے گزررہا ہے۔ہم اکثر سوشل میڈیا پر ایسے نوجوان دیکھتے ہیں جو ٹیلنٹ سے مالامال ہوتے ہیں۔لیکن ا ن کے تابناک مستقبل کے لیے نہ تو وہ خود سنجیدہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی کوئی انہیں رستہ دکھانے والا ملتا ہے۔ایک ویڈیو میں نوسالہ بچے کو دیکھا ۔وہ کسی ماہر اسکیچرکی طرح سامنے کھڑے بندے کو ہوبہو کاغذ پہ اتار رہا تھا ۔کان ، ناک،گال،بال آنکھیں غرض کسی بھی چیز میں غیر معمولی مماثلت نے ہمیں حیران کر دیا ۔سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ۔کوئی شک نہیں کہ ہر ایک نے یہ ویڈیو ضرور دیکھی ہوگی ۔پھراگلا مرحلہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی ذمہ داری کا آتا ہے۔کیا کسی نے میڈیا پہ آکر کہا کہ اس بچے کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ ہمارا ہے۔یہ بچہ آگے چل کر ایک دھماکہ کر دے گا ۔اس ٹیلنٹ کی ہم حفاظت کریں گے۔یہ ہمارا مستقبل ہے۔نہیں۔ایسابالکل نہیں ہوا۔یقینایہ بچہ بھی زنگ آلود ہو کر کہیں کھو جائے گا ۔اور قصہ ختم ۔
لہذا جب تک ہم چھوٹی پوت پہ توجہ نہیں دیں گے ہمارا باہمت ذہن، غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال نوجوان، غیر ملکی ہڑپ کرتے رہیں گے۔ہمیں متوسط طبقے اور پسے ہوئے غریب کے بچے سے شروع کرنا ہوگا ۔جیسے کسان بیج بوتا ہے۔کونپل سر نکالتی ہے۔اس پہ محنت کرتا ہے اور خوب اس کی دن رات حفاظت میں جتا رہتا ہے۔تب کسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اس اناج کو منڈی میں بیچ کر اس سے نفع حاصل کرے۔ہمارے ہاں کئی مسائل قابل توجہ ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ غیر معیاری سکولوں میں بچوں کی اس عمر کو بے کار گزار دیا جاتا ہے ،جس میں اس نے مستقبل کے شعبوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے تھے۔وقت کا بے دریغ غلط استعمال کروایا جاتا ہے۔سرکاری ،پرائیویٹ سکولوں میں نامناسب ماحول کی شکایات عام ہیں۔نوجوانوں میں ریسرچ کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔بہت سے ڈگری ہولڈرز غیر اخلاقی رویوں کا شکار ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ تعلیم میں غیر ضروری منصوبہ بندی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم کا یکساں نہ ہونا بھی ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
ا س سلسلے میں کوئی بچہ کسی شعبے میں ترقی کر بھی جائے تو وہ تسلسل قائم نہیں رکھ پاتا ۔آگے چل کر وہ مضبوط معاشی حل نکالنے کے لیے کرپشن کرے گا ،ملک کو قومی وحدت کو زہر آلود کرے گا۔ہمارا ملک کئی سالوں سے انہی ا مرض میں مبتلا بیماروں کا بوجھ سہ رہا ہے۔جب تک ہمارے سینے پہ یہ زخم موجود ہیں ،نہ تو ہم اپنے بچوں کو معاشی ،سماجی ،معاشرتی صحت دے سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ملک کو غیر معیاری تعلیم دینے والوں،کرپشن کرنے والوں کو لگام دے سکتے ہیں۔یہ طریقہ کئی سالوں سے ایسے ہی چلاآرہا ہے اور لگتا یہی ہے کہ ایسے ہی چلے گا۔کیوں کہ اس کا تریاق ہمارے پاس نہیں۔دنیا تعلیم کے معاملے میں لاپرواہی نہیں برت رہی۔مگر ہمارے ہاں غیر ضروری امور میں بچوں کی انوولمنٹ پر بہت زور دیا جارہاہے۔ایسی سرگرمیوں میں بچوں کو بے جا کھپادیاجاتاہے ،جن کاتعلیمی قابلیت میں کوئی عمل دخل ہے نہ ہی صحت کی وسعت میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بچوں میں صلاحیتیں لمیٹڈ ہوتی ہیں ۔ محدود وقت کے بعد خوبیاں بے جان ہونے لگتی ہیں۔اس عرصے میں ان بچوں کی گرومنگ نہ کی گئی تو بچوں میں ٹیلنٹ کی سطح گرناشروع ہوجاتی ہے۔
اچھی تعلیم اچھی صحت کی ضامن ہے۔بچوں میں عمر کی بڑوہتری کے ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی پیدا کرنا بھی لازمی امر ہے۔بہت سے والدین بچوں میں انتہائی صلاحیت دیکھنے کے بعد معاشی ترقی کو نعمت کے طور پر بچوں کے سامنے پیش نہیں کرتے ،بلکہ وہ انہیں ناآشنا رکھتے ہیں۔بچوں کو بتایا جائے کہ والدین کی دولت پر انحصار بے کار ہے۔بہت سے والدین بچوں کی اچھی کارکردگی پیش کرنے کے بعد خوشی کے دوبول نہیں بولتے ۔ایسے والدین کو سمجھنا ہوگا کہ ایسے واقعات میں بچوں کی معیشت اور تعلیم پر کتنا برا اثر پڑ سکتا ہے ۔ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں توازن کا ہونا بچوں کو بہت متاثر کر سکتا ہے۔بچوں کو حوصلے سے ملنے والی انرجی ان کی نشونما اور صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہمارے بچے ذہنی بیمار یوں کا شکار نظر آئیں گے۔اگر ہمیں انفرادی ،اجتماعی ،خاندانی زندگی میں طویل المیعاد معاشی امکانات پیداکرنے ہیں تو ہمیں مذکورہ آلودگیوں سے اپنی نسل کی حفاظت کرناہوگا۔بصورت دیگر ہماری معیشت ،تعلیم اور صحت کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔اور ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔


شیئر کریں: