Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بجلی منافع کی تقسیم کا قابل عمل فارمولہ ………..محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت نے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر اور بجلی کے منافع پر صوبوں کے درمیان ممکنہ اختلافات ختم کرنے کے لئے شمس الملک فارمولے پر غور شروع کردیا ہے۔ اس فارمولے کا ڈرافٹ تیار کرکے مشترکہ مفادات کونسل میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ واپڈا کے سابق چیئرمین نے تجویز پیش کی تھی کہ صرف پاور ہاوس کی ملکیت کی بنیاد پر بجلی کی ساری رائلٹی کسی ایک صوبے کو دینا زیادتی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس صوبے میں پاور ہاوس بنے۔ اسے بجلی کے منافع کا پندرہ فیصد دیا جائے۔ جس صوبے میں ڈیم یا بیراج تعمیر کیا جائے اسے منافع کا بیس فیصد دیا جائے۔ زرعی زمین متاثر ہونے کی صورت میں متاثرہ صوبے کو منافع کا تیس فیصد اور آبادی متاثر ہونے اور لوگوں کی نقل مکانی کی صورت میں تیس فیصد منافع ملنا چاہئے جبکہ ڈیم سے ماحولیات متاثر ہونے کی صورت میں اس صوبے کو پانچ فیصد منافع دیا جائے۔بجلی کی رائلٹی تقسیم کرنے کے پرانے فارمولے پر صوبوں کو تحفظات ہیں۔ نیلم جہلم اور منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائلٹی پر آزاد کشمیر اور پنجاب کے درمیان، دیامربھاشا ڈیم کی رائلٹی پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان جبکہ غازی بھروتھا کے معاملے پر خیبر پختونخوا اور پنجاب کے درمیان اختلافات ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم پر اصل تنازعہ بھی رائلٹی کا ہی ہے۔ کالاباغ ڈیم سے خیبر پختونخوا کا وسیع رقبہ متاثر ہوگا جبکہ بجلی گھر پنجاب کے علاقے میں تعمیر ہونے سے سارا منافع پنجاب کو ملے گا۔تربیلہ ڈیم ساٹھ سال پہلے تعمیر ہوا تھا ۔ ڈیم سے متاثر ہونے والوں کو ہری پور کے علاقہ کھلابٹ میں رہائش کی سہولت تو فراہم کی گئی تاہم ان کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا اور متاثرین تربیلہ کی بڑی تعداد آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ دیامربھاشا ڈیم بنانے کی صدائے بازگشت گذشتہ پندرہ بیس سالوں سے سنائی دے رہی ہے۔ اب تک تین حکومتیں اس کا افتتاح بھی کرچکی ہیں لیکن اس منصوبے کی راہ میں بھی اصل رکاوٹ ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کے منافع کی تقسیم کا ہے۔دیامر بھاشا ڈیم میں سوفیصد علاقہ ضلع کوہستان خیبر پختونخوا کا متاثر ہوگا جبکہ پاور ہاوس گلگت بلتستان کے علاقے دیامر میں بنانے کا منصوبہ ہے۔ جس کی وجہ سے سارا منافع گلگت بلتستان کو ملے گا اور ڈیم کے لئے رہائشی مکانات، زرعی زمینوں، چراگاہوں اور جنگلات کی قربانی دینے والے کوہستانی منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔کچھ واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک دو نہیں۔ درجنوں ڈیم اور بجلی گھر بنائے جاسکتے ہیں لیکن ان کی ساری رائلٹی چونکہ خیبر پختونخوا کو ملے گی اس وجہ سے افسرشاہی ان ڈیموں کی راہ میں روڑے اٹکارہی ہے۔ بجلی کے خالص منافع کی تقسیم اور اس کی شرح میں اضافے کے لئے اے جی این قاضی کمیشن نے جو فارمولہ پیش کیا تھا۔ اس پر تمام صوبوں نے اتفاق تو کیا ہے مگر اس فارمولے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔ جب یہ فارمولہ وضع کیا گیا تھا اس وقت پانی سے تیار کی جانے والی بجلی کی قیمت ایک روپے یونٹ تھی۔ فی یونٹ قیمت چودہ روپے ہونے کے باوجود خیبر پختونخوا کی رائلٹی چھ ارب روپے سالانہ پر کیب رہی۔صوبے کے اصرار پر اس میں تیس سالوں میں دو ارب سالانہ کا اضافہ کیا گیا۔ قاضی فارمولے کے تحت بجلی کی قیمت بڑھنے کی شرح سے منافع میں اضافے کی تجویز تھی۔ ایک عمومی تجزیئے کے مطابق وفاق کے ذمے ہمارے بجلی کے بقایاجات ڈیڑھ سو ارب روپے بنتے ہیں۔ جن کا اقرار کرنے کے باوجود وفاق ان کی ادائیگی سے گریزاں ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اگر بجلی کے منافع کی تقسیم کے حوالے سے شمس الملک فارمولے پر اتفاق ہوا تو اس سے ملک میں آبی ذخائر تعمیر کرنے کی راہ ہموار ہوگی، آبی ذخائر والے صوبوں کی معیشت کو استحکام ملے گا۔ قومی وسائل کے مشترکہ استعمال پراعترضات کا خاتمہ ہوگا اور آگے چل کر ایک دن کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر بھی قومی اتفاق رائے پیدا ہوسکتا ہے۔خیبر پختونخوا حکومت کو منافع کی تقسیم کا ایک قابل عمل ڈرافٹ تیار کرکے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کرنا چاہئے تاکہ منافع کی تقسیم کا تنازعہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔


شیئر کریں: