Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیامرد کودرد نہیں ہوتا؟ …………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی نے معلومات کی ترسیل کو انتہائی سہل بنادیا ہے۔دنیا کے ایک کونے میں کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو سیکنڈوں میں دنیا کے دوسرے کونے میں اس کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ تاہم بعض دوستوں کا دعویٰ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کتنی بھی ترقی کرے۔خبر پھیلانے کا تیز ترین ذریعہ ای میل نہیں، بلکہ آج بھی فیمل ہی ہے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ عورت کی زبان اور مرد کی آنکھوں کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔ ہم نے مردوں کو عام طور پر اپنی بیوی کے سوا تمام خواتین کی تعریف کرتے ہی دیکھا ہے۔ اپنی بیوی کی بھی دوسروں کے سامنے برائی نہیں کرتا۔ کبھی کبھار شکوہ ضرور کرتا ہے۔ جو ہماری دانست میں غیبت کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیونکہ کسی ہمدرد کے سامنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا مطلب ہمیشہ غیبت ہی نہیں ہوتی۔یہ کام تو خواتین بھی کرتی ہیں۔دوسروں کے سامنے اپنے مرد کا شکوہ کرتی رہتی ہیں۔ انہیں دنیا کے سارے عیب اپنے شوہر میں نظر آتے ہیں۔مرد اور عورت میں کون عظیم ہے اس کا فیصلہ کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا یہ بتانا کہ مرغی اور انڈے میں سے کون پہلے پیدا ہوا۔ بعض مرد دوستوں کی رائے ہے کہ مرد بہت عظیم ہوتا ہے اسے سمجھنے کے لئے عورت کا بہت زیادہ باخبر اور تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ معروف ادیبہ ، شاعرہ اور افسانہ نگار بانو قدسیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جو مردوں کو عظیم مانتی ہے۔کہتی ہیں کہ مجھے مرد کی عظمت کااس وقت اندازہ ہوا۔ جب میرے والد سرطان کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں اپنی صحت سے زیادہ اس بات کی فکر لگی رہتی تھی کہ زندگی بھر بچوں کے لئے جو کچھ کمایا۔ وہ اس کے اپنے علاج پر ضائع ہورہا ہے۔ بانو آپا کہتی ہیں کہ میں نے مرد کا جذبہ ایثار تب دیکھا جب وہ بیوی کے ہمراہ بازار میں عید کی خریداری کر رہا تھا۔ میاں بیوی کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا۔ بیوی نے میاں سے کہا کہ میرے اور بچوں کے لئے چار چار جوڑے کپڑے، جوتے، موزے خرید لئے۔ اپنے لئے بھی ایک کرتا اور جوتا خرید لو۔ تو میاں نے جھٹ سے کہا کہ چار پانچ کرتے گھر میں پڑے ہیں اور پچھلی عید پر جوتوں کا ایک جوڑا خریدا تھا۔ وہ بالکل نیا ہے ایک دوبار ہی پہنا تھا۔مزید جوڑا خرید کر کیا کروں گا۔ یہ الگ بات ہے کہ شام کو اکیلے پرانے کپڑوں کی مارکیٹ میں جاکر اپنے لئے کباڑ سے سستا پانامہ اورسوئیٹر ڈھونڈتا ہے۔ بانو آپا آگے چل کر کہتی ہیں کہ میں نے مرد کی قربانی کا جذبہ تب محسوس کیا۔ جب وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ سڑک پار کر رہا تھا۔ فیملی کو پیچھے پیچھے آنے کا کہہ کر خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ ،مرد کا ضبط تب دیکھا جب بیٹی گھر اجڑنے پر باپ کے گھر واپس آگئی توباپ نے اپنا غم چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایااور کہا کہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابھی میں زندہ ہوں۔ حالانکہ اس کی سرخ ہوتی آنکھیں اور گلے میں پھنسنے والے الفاظ بتا رہے تھے کہ وہ دھاڑیں مار کر رونا تو چاہتا ہے لیکن بیٹی کا دلاسہ دینے کے لئے غم چھپاکر ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتا ہے کہ مرد کبھی روتا نہیں۔اور مرد کو درد نہیں ہوتا۔ حالانکہ مرد کو بہت درد ہوتا ہے۔ مگر ظاہر ہونے نہیں دیتا۔جہاں تک میاں بیوی کے رشتے کا تعلق ہے۔ اس میں کھٹ پٹ لگے رہنا ہی اس کے استحکام کی علامت ہوتی ہے۔ کسی خاتون دانشور کا قول ہے کہ عظیم بیوی وہ ہوتی ہے جو خود غلطی کرکے شوہر کو معاف کرتی ہے۔ کیونکہ بیوی سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر غلطی ہوبھی جائے تو وہ بیوی کا قصور نہیں ہوتا ۔ غلطی کا اپنا قصور ہوتا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے مرد اور عورت کو برداشت اور درگذر سے کام لینا اور ایک دوسرے کو اکاموڈیٹ کرنا پڑتا ہے۔ کسی نے ستر سالہ بابے سے پوچھا کہ تمہاری پچاس سالوں پر محیط کامیاب ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے راز کی بات بتادی کہ شادی کی رات انہوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ اگر بیوی کو غصہ آجائے تو شوہر باہر صحن میں جاکر بیٹھے گا۔اور اگر میاں کو غصہ آجائے تو بیوی کچن میں جاکر خود کو مصروف رکھے گی۔ اس معاہدے پر آج تک عمل درآمد ہورہا ہے۔ میں نے اپنا بستر بھی صحن میں لگادیا ہے۔ اس لئے ہمارے درمیان جھگڑے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ہمارے ایک دوست کا قول ہے کہ ہرمرداتنا برا نہیں ہوتا۔ جتنا اس کی بیوی اسے سمجھتی ہے نہ ہی اتنا اچھا ہوتا ہے جتنااس کی ماں اسے قرار دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہر عورت اتنی بری نہیں ہوتی۔جتنی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تصویر میں نظر آتی ہے اور نہ ہی اتنی اچھی ہوتی ہے جتنی فیس بک اور واٹس ایپ پر نظر آتی ہے۔


شیئر کریں: