Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دہشت گردی کا بدنما داغ……… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

نائن الیون کے بعد 2001میں امریکہ نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تو طالبان کے امیر ملاعمر نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکہ کو ایک دن ہم سے مذاکرات پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اٹھارہ سال بعد ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانے کے بعد امریکہ کو جب یقین آگیا کہ وہ طالبان سے گوریلا جنگ نہیں جیت سکتا۔ تو طالبان سے مذاکرات پرمجبور ہوگیا۔لیکن ان اٹھارہ سالوں میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف یہودوہنود نے جو منفی پروپیگنڈہ کیا ہے۔ اس کے ہولناک اثرات کا ازالہ کرنا امریکہ سمیت اس کے حواریوں کے لئے ممکن نہیں۔آج نہ صرف مغربی دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد گردانا جاتا ہے بلکہ ہمارے گہرے دوست ممالک بھی ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ چین نے ہمیں پچاس ارب ڈالر کا سی پیک منصوبہ دیا ہے۔ ہر برے وقت میں ہمارا ساتھ بھی دیا۔ پاک چین دوستی کو ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور ہر آزمائش پر پوری اترنے والی دوستی قرار دیتے ہم کبھی نہیں تھکتے۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہاں بھی کافی غیر واضح ہے۔ میرے ایک عزیز سکالرشپ پروگرام کے تحت چینی زبان سیکھنے کے لئے چھ ماہ چین میں رہا۔واپسی پر انہوں نے چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ امریکیوں کی طرح چینی بھی مسلمانوں خصوصا پاکستانیوں کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔وہ تعلیم یا تجارت کے لئے چین جانے والے پاکستانیوں کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہیں اور ان سے میل میلاپ سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔جب دوستوں کا یہ رویہ ہو۔ تو دشمن ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ امریکہ، بھارت اور مغربی دنیا نے مسلمانوں کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منفی پروپیگنڈہ کیا ۔جو ان کے قومی مفادات کے عین مطابق تھا۔ یہ عالم اسلام کی قیادت کی ناکامی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف عالمگیر منفی پروپیگنڈے کو زائل کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ شایدانہوں نے خود بھی یہ الزام قبول کرلیا تھا کہ ہم دہشت گرد ہیں اور ہمارے طرز عمل اور انداز فکر سے بھی دہشت گردی اور انتہاپسندی کی بو آرہی ہوتی ہے۔دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو دنیا میں سب سے زیادہ خون خرابہ عیسائیوں اور یہودیوں نے کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کی موت کا سبب بننے والا ہٹلر مسلمان نہیں بلکہ جرمن تھا۔ دس لاکھ انسانوں کو موت کی وادی میں اتارنے والا جوزف سٹالن مسلمان نہیں، عیسائی تھا۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ انسانوں کو بھوک سے مارنے والا ماوزے تنگ مسلمان نہیں ، کمیونسٹ تھا۔ چار لاکھ انسانوں کا قاتل مسولینی مسلمان نہیں، عیسائی تھا۔کلنگا کی لڑائی میں ایک لاکھ انسانوں کو مارنے والا اشوکا مسلمان نہیں ، ہندو تھا۔لاکھوں بچوں سمیت ایک کروڑ کے لگ بھگ عراقیوں کو قتل کرنے والا جارج بش مسلمان نہیں عیسائی تھا۔ پہلی جنگ عظیم مسلمانوں نے شروع نہیں کی تھی جس میں ایک کروڑ ستر لاکھ انسان مارے گئے۔ دوسری جنگ عظیم بھی مسلمانوں کی وجہ سے شروع نہیں ہوئی جس میں پانچ کروڑ سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم مسلمانوں نے نہیں ، بلکہ عیسائیوں نے گرائے تھے۔جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ پانچ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والی ویت نام جنگ سے بھی مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ پانچ لاکھ بوسنیائی شہریوں کی ہلاکت کا باعث بھی مسلمان نہیں بنے۔ افغانستان، فلسطین، برما اور کشمیر میں لاکھوں انسانوں کے قتل کے پیچھے بھی مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہیں۔ کمبوڈیا میں تین لاکھ افراد کو تہہ تیغ کرنے والے بھی مسلمان نہیں تھے۔گذشتہ دو صدیوں میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ خون غیر مسلموں نے ہی بہایا۔ آج بھی جہاں جہاں دہشت گردی ہوتی ہے۔ امریکہ اور مغرب کے ہتھیاروں اور مالی امداد سے ہوتی ہے۔ یہ حقائق کوئی جرات مند مسلمان قیادت کسی عالمی فورم پر بتائے گا تو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے منفی اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے اثرات کم ہوں گے۔اگر طالبان دہشت گرد، انتہاپسند، سفاک اور قابل نفرت ہیں تو امریکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات پر کیوں آمادہ ہوا۔ یہ سوال کسی سنجیدہ فورم پر امریکہ سے پوچھا جائے تو مسلمانوں کے حوالے سے دنیا میں پائے جانے والے منفی تاثر کو زائل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
17145