Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترالی کب تک دیرچیوں کے ہاتھوں خوارہوتے رہیں‌گے؟؟؟؟….میربائض خان

Posted on
شیئر کریں:

1975سے لیکر آج تک چترالی قوم تقریباپانچ دہائیوں سے اس امید کے سہارے جی رہے ہیں۔کہ لواری ٹنل بن جائے گا اور ہمارا سفر پشاور سے چترال آسان اور آرام دہ ہوگا۔ صبح اپنے گھرسے نکل کر شام کو پشاور پہنچیں گے. اگلی صبح اپنا کام کرکے واپس تیسرے دن چترال اپنے گھر واپس آجائیں گے۔لیکن یہ ارمان آج بھی چترالیوں کے لئے حسرت بنی ہوئی ہے۔لواری ٹنل ہر طرح سے مکمل ہونے کے باوجودآج بھی آمدورفت کے لئے نہیں کھولا جاتا۔جس ادارے کا جو جی چاہتا ہے اپنے اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے چترالی عوام کو لواری ٹنل کی بندش کی صورت میں ازیت اور کوفت میں مبتلا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔کبھی سیکورٹی کے نام پر تو کبھی برف اور سردی کا بہانہ بنا کرچترالی مسافروں کو دیر کی طرف رات کے اندھیرے میں کئی گھنٹوں تک دسمبر کی اس خون جما دینے والی سردی میں روک لیا جاتا ہے۔دیر پولیس، لیویز کی جانب سے پناہ کوٹ کے مقام پر ہوٹل کے قریب چیک پوسٹ قائم کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چیک پوسٹ خصوصی طور پر مذکورہ ہوٹل کے مالک کو مالی طور پر فائیدہ پہنچانے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔
رات کے 2بجے جب چترال جانے والی گاڑیاں پناہ کوٹ پہنچ جاتے ہیں۔تو ان کو سیکورٹی کے نام پر صبح 6بجے تک روک لیا جاتا ہے۔دسمبر کی اس ٹھٹھرتی سردی میں گاڑیوں میں بیٹھے مسافروں کی حالت غیر ہوجاتی ہے۔مجبورا مسافروں کو مذکورہ ہوٹل میں کمرے لینے پڑتے ہیں۔جس کا مسافروں سے دوگنا چارج کیا جاتا ہے۔اور مسافر بمشکل3گھنٹے اس میں قیام کرتے ہیں۔روزانہ تقریبا 20سے 50گاڑیاں رات کو مسافروں کو لیکر چترال جاتے ہیں اور اس میں کم از کم 400مسافر سوار ہوتے ہیں۔اگرہر مسافر ایک ہی پیالہ چائے پی لے۔ تو صرف ایک ہی رات ہوٹل کا 20000 روپے کاکاروبار ہوجاتا ہے۔ہوٹل میں کمرہ لینے کا کرایہ اس کے علاوہ ہے۔ہوٹل کا مالک جب چیک پوسٹ انچارج سے کسی کو آگے جانے کے لئے سفارش کرتا ہے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔اور باقی مسافروں کو وہیں روک لیا جاتا ہے۔ہمارے ارباب اختیار خواب خرگوش کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔رات کو سفر کرنے والے مسافروں کے مسائل کا ان کو کانوں کان خبر نہیں۔ضلعی انتظامیہ بھی اس مسئلے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔آڈہ مالکاں کی اپنی مان مانیان ہیں۔ڈرائیور حضرات کے الگ ناز نخرے ہیں۔ٹنل انتظامیہ کی جانب سے شیڈول جاری ہونے کے باوجود آڈہ مالکاں اور ڈرائیور حضرات اس پر عمل کرنے سے گریزان ہیں۔اور رات کے وقت پشاور سے چترال گاڑیاں روانہ کرنے کا سلسلہ جوں کا توں ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ چترالی مسافر ڈرائیور اور ہوٹل مالکان کی ملی بھگت سے لوٹ لئے جاتے ہیں۔پشاور سے جاتے ہوئے درگئی کے مقام پر اپنے نم پسند کے ہوٹلوں میں رات کے کھانے کے لئے گاڑی روک لیتے ہیں۔ڈرائیور حضرات کو چکن روسٹ، مٹن و بیف روسٹ ، چرس اور موبائل کارڈ سے خاطر تواضع کی جاتی ہے۔جبکہ مسافروں کو باسی چاول پیش کیا جاتا ہے اور منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ انہی ہوٹلوں کے نمائیندے شام کے وقت پشاور کے مختلف اڈوں پر ڈرائیوروں کو اپنے اپنے ہوٹلوں کے کارڈ تھماتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کہ رات کا کھانا انہی کے ہوٹل سے کھانا۔زیادہ تر گاڑی والوں کے پاس روٹ پرمٹ اور اصل کاغذات ہی نہیں ہیں۔اس لئے وہ رات کو چوری چھپکے گاڑیاں چلاتے ہیں۔
میں اس مراسلہ کی وساطت سے اپنے تمام چترالی بہن بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے جائز حق کے لئے آواز بلند کریں۔اپنے آرام اور سکوں کو سمجھیں۔زندگی بہت عزیز ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔جان سے بڑھ کراور کوئی چیز عزیز نہیں۔اپنے اور اپنے پیاروں کے جانوں کی حفاظت آپکی اپنی زمہ داری ہے۔رات کے وقت سفر کرنے سے گریز کریں۔ تاکہ آڈہ اور ہوٹل مالکاں کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ اور غریب چترالی عوام مزید لٹنے اور زلیل ہونے سے بچ سکیں۔ شکریہ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, مضامینTagged
17052