Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دہرا معیار………… در مکنون

Posted on
شیئر کریں:

ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے حکومت کو بڑے کٹھن فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور اکثریت کے مفاد کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی تشکیل دینا پڑتی ہے۔ تاکہ عوام الناس کے مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکے۔ پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ہے جس کو قدرت نے وسائل سے نوازا ہے. لیکن قدرتی وسائل سے مالا مال یہ دھرتی اپنی عوام کو مالامال کرنے سے ابھی تک قاصر ہے۔ کیونکہ ان وسائل کو دریافت کرنے اور ملکی مفاد میں استعمال کرنے والوں کا فقدان ہے۔ اور جو لوگ ایسا کرنے کا عزم کر بھی لیں تو انہیں کسی طرح کی مدد فراہم نہیں کی جاتی۔ جس کی وجہ سے ان کا عظیم خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتا۔ نتیجتا ہمیں ہر مسئلے کا حل دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے میں نظر آتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اپنی انا اور غیرت کا گلا کھونٹنا پڑتا ہے اور اپنی خودی کو دوسروں کے پیروں تلے روندتے ہونئے دیکھ کر بھی احساس زیاں نہیں جاگتا۔

ہم بے غیرت قوم نہیں اور نہ ہی اتنے کمزور ہیں کہ زمانے کا مقابلہ کرنے کی سکت ہم میں نہیں ۔ ہماری مثال اس پرندے کی سی ہے جسے آزاد تو رکھا گیا ہے لیکن اس کے پر کاٹے گئے ہیں۔ کیونکہ ملکی حوالے سے نہ تو ہم کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں اور نہ ہی اختیار رکھتے ہیں۔ یہ ذمہ داری چند لوگوں کے پاس ہے جنہیں فیصلہ کرنے اور حکمت عملی مرتب کرنے کا شعور ہی نہیں۔ یہ خلاؤں میں تیر چلانے یا ایک دوسرے کو زہریلے نشتروں سے زخمی کرنے میں ماہر ہیں۔ گفتار کے غازی اور عقل سے پیدل یہ حکمران وطن عزیز کی کشتی کو کس سمیت لے جا رہے ہیں اس کا علم نہیں۔
پچھلے دونوں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ تمام سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں کے بجائے سرکاری سکولوں میں داخل کریں۔ بات تو خوش آئند ہے اگر اس پر صحیح طور پر عمل درآمد کیا جائے تو۔ مملکت خداداد میں یکسان نظام تعلیم موجود نہیں۔ ارباب اختیار اپنی اولاد کو بیرون ملک کے مشہور تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر سیاسی اکھاڑے میں کود پڑیں۔ اور باقی ماندہ عمر عوام کو پچھاڑنے میں گزاریں۔ ملک کے اندر ایسا موثر نظام تعلیم ئموجود نہیں جو باصلاحیت اور باکمال نوجوان پیدا کرے اس نظام سے صرف بے روز گاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ۔ان حکمرانوں کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ایسا نظام تعلیم رائج کیا جائے جو صرف بے روزگار نوجوانوں کے سوا ملک کی معیشت کو کچھ نہ دے سکے۔ گونگے، بہرے اور اندھے لوگوں پر مشتمل یہ فوج ظفر موج شعور سے عاری اور دور جدید سے بیگانہ رہے تاکہ یہ سیاسی جونک ان کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک چوسیں تب بھی انہیں خبر نہ ہونے پائے۔

سرکاری سکولو ں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ پرائمری سکول بچے کی بنیادی تعلیم کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر پرائمری سکولوں میں دو کلاس رومز کے اندر پانچ کلاسز کو کھپایا جاتا ہے۔ اور صرف ایک ہی استاد بیک وقت تمام جماعتوں کو پڑھا رہا ہوتا ہے۔ معیار تعلیم صرف کہنے کی حد تک موجود ہے۔ عملا دور دور تک اس کا کچھ پتہ نہیں۔

اسٹاف کی کمی یا تربیت یافتہ اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً پرائیویٹ سکولو ں میں بھاری فیس کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہماری حکومت کسی فیصلے سے پہلے ا ن حالات کو بہتر بنائے جو سرکاری اداروں میں نظر آتے ہیں تو ان کی سوچ پر مسکرانے یا قہقہہ لگانے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ یہ فیصلے صرف عوام کے لئے ہوتے ہیں۔ وہ خود اور ان کی اوالاد ان فیصلوں سے مستثنی ہوتے ہیں۔ یہاں یہ رسم چل نکلی ہے کہ جو جتنا زیادہ مجبور اور بے کس ہو اسے ہی شکنجے میں کسا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں عوام کو جتنا ہوسکے دباؤ اور کوٹو تاکہ وہ آواز اٹھانے اور کسی فیصلے پر ردعمل کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ یہاں قوانین پر عمل درآمد صرف عوام کو کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں تو پہلے وزراء اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروائیں۔ پھر سیکریٹری اور اسی طرح یہ سلسلہ عوام کی سطح تک پہنچے تو ان کی نیت پر شک کی گنجائش نہیں رہے گی۔ قربانی کا بکرا بننے کے لئے عوام موجود ہیں تو انہیں اپنے بچوں کو سرکار کی بھینٹ چڑھانا نہیں پڑتا۔ عجیب حکمران ہیں ان کا پیسہ سوئس بینکوں میں ہوتا ہے۔ ان کے بچے انگلینڈ میں پڑھتے ہیں۔ اپنا علاج امریکہ سے کرواتے ہیں۔ شاپنگ دبئی میں ہوتی ہے۔ لے دے کے صرف قبر رہ جاتی ہے جس کے لئے دھرتی ماں کی یاد گدگداتی ہے۔ اس میں بھی وطن کی محبت شامل نہیں ہوتی بلکہ عزت و تکریم اور اعزاز کے ساتھ دفن ہونے کی ہوس انہیں یہاں آنے پر مجبور کرتی ہے۔ گویا کہ یہاں دفن ہو کر ملک کا واجب الادا حق ادا کریں گے۔ اپنے احترام میں کمی بعد از مرگ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا اور جو اصل احترام وعزت کے حق دار ہیں انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اساتذہ جو صحیح معنوں میں بادشاہ گر ہوتے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ اگر کم بچوں کا داخلہ ہوا تو آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ سکول کو تالا لگے گا اور اساتذہ دوسرے سکولوں میں تبدیل کئے جائیں گے۔ بے چاری خواتین اساتذہ پر یہ خبر بجلی بن کر گرتی ہے اور وہ برقع اوڑھے گلی گلی، گھر گھر جاکر منت سماجت کرکے بچوں کو اپنے سکول میں داخل کرواتی ہیں۔ مہینے کے آخر میں پیسے ملنے کا لالچ بچوں کو سکول تو لاتا ہے لیکن تعلیم کا اصل مقصد وہ حاصل نہیں کرپاتے۔ زیادہ تر بچے اس دن اپنا درشن کراتے ہیں جب پیسے ملنے والے ہوتے ہیں۔ اگر ہماری سرکار سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے تو بہت ہی اچھا اقدام ہوگا۔

بنیادی ضروریات کی دستیابی، اعلی تربیت یافتہ اساتذہ کا تقرر، تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کی حوصلہ شکنی، میرٹ پر بھرتی اور دور جدید سے ہم آہنگ نصاب وغیرہ پر سنجیدگی سے غور کریں تو اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں۔ عوام اس فیصلے پر لبیک کہنے میں تامل کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔’کک’ئک


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
16931