Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش……کشمیر کا مجذوب (حصہ اول)….. تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفر‘ اگر ہم تاریخ تصوف کے آسمان پر نظر ڈالیں تو حق تعالیٰ نے ہر دور میں جہالت گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق انسانوں کے ریوڑ کو گمراہی سے نکالنے کے لیے روشنی کے مینار‘ ایسے لوگ ہر دور میں روشن ستاروں کی طرح آسمان تصوف پر روشن منور کر تا ہے کہ ان کی روشنی سے کہکشاوں نے بھی روشنی کی بھیک مانگی ‘ ایسے انمول ستاروں کے وجود میں آنے سے ستاروں کے جھرمٹ میں نور کے دریا بہنے لگے ‘ اِن ستاروں میں رب ذوالجلال نے مختلف زبانوں علاقوں کے لیے رشد وہدایت کی روشنی رکھی ہوتی ہے ‘ کچھ ستارے تو اِس شان سے طلوع ہو تے ہیں کہ قیامت تک کے لیے آسمانِ تصوف جگمگا اٹھتا ہے کچھ ایسے ستارے بھی معرض وجود میں آئے ہیں جو کچھ عرصے کے لیے کسی خاص علاقے یا ملک کے زنگ آلود ہ اذہان و قلوب کو اخلاق حسنہ کی روشنی دے کر ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیں ‘ کچھ گمنام ستارے ایسے بھی ہیں جو چند لمحوں کے لیے چمکتے ہیں لیکن ان چند لمحوں میں ہی وہ اجالوں کی سوغات بانٹ کر چلے جاتے ہیں ‘ ایسے لوگ دھرتی پر اپنے اپنے وقت پر انسانی شکل میں جنم لیتے ہیں پھر اُس علاقے کے بھاگ جاگ جاتے ہیں ‘ تاریخ انسانی کے اِن عظیم نفوسِ قدسیہ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو یہ دنیا کے چپے چپے پر اپنے وقت میں آئے ‘ زنگ آلود ذہنوں کے زنگ کو اجالے میں بدلا اور چلے گئے یہ لوگ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ گمنام قصبوں میں سورج کی طرح طلوع ہو تے ہیں کہ اُن کی عظمت اور شان کے پیش نظر خود چاند ستارے سورج اُن کا طواف کرتے نظر آتے ہیں ‘ ہوائیں فضائیں اِیسے لوگوں کے بوسے لیتی ہیں ‘ ترقی یافتہ شہروں سے سینکڑوں میل دور کچی بستیوں میں اِن ہیرے جواہرات جیسے لوگوں کو پالا پوسا ‘پتھریلی ‘ٹیٹرھی میڑھی ‘ناہموار پگڈنڈیوں نے لاکھوں انسانوں کو معرفت کی روشنی عطا کی ‘ وہاں کے ٹنڈ منڈ درختوں نے بہاروں کا پیغام دیا ‘ شکستہ تنگ و تاریک جھونپڑوں نے رنگ و نور کے چراغ روشن کئے ‘ صحراؤں نے مہذب تہذیبوں کو جنم دیا ‘ گارے مٹی کے حجروں نے شاہی محلوں کو شرمانے پر مجبور کر دیا ‘ اگر آپ قدرت کے رازوں کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ میلوں پر پھیلے کروڑوں انسانوں کے شہر ‘برقی فانوسوں سے روشن سڑکیں ‘ فلک بوس عمارتیں ‘ بین الاقوامی تجارتی منڈیاں ‘ یونیورسٹیاں ‘ مدرسے و خوشحال اور علم و دولت میں غرق انسان علم کے زعم اور دولت کی چکا چوند میں غرق ایسے مادی جانور پیدا کر تے رہے جبکہ کام کے آدمی جو پیدا ہو ئے وہ کسی دور افتادہ گاؤں بلند بوس پہاڑوں کے دامن میں گھاس پھونس کی جھونپڑیوں خاک اڑاتی بستیوں اونچے نیچے ناہموار کچے راستوں بے آب و گیاہ صحراؤں گارے کی مٹی کے حجروں بدویانہ ماحول سر کنڈے کیکر کے درختوں بڑے شہروں سے گھنٹوں کی پیدل مسافت پر جہاں نہ بجلی نہ سکول نہ بنیادی سہولتیں وہاں پیدا ہوتے ہیں ‘ قدرت اپنے عظیم پلان کے تحت ایسے انسانوں کو دھرتی کے بنجر بے آب گیاہ علاقوں میں بھی پیدا کر تی ہے ‘ ایسے انسان ایسے ستارے جو اُن بستیوں کے تاریک اندھیرے دورکرتے ہیں ۔ قدرت کا یہ عجیب انداز ہے کہ کھردرے علاقوں سے نفیس انسان پیدا کر تی ہے دور دراز بنجر خطوں سے دلوں کو اخلاق کے اجالے دینے والے آدمی لاتی ہے ‘ بنجر زمینوں سے شاداب جاندار انسان نمودار کرتی ہے ۔گمنام ویران قصبوں سے شہرت یافتہ انسان پیداکرتی ہے ‘ ایسا ہی ایک خاص بچہ آج سے پچاس سال قبل مظفر آباد (کشمیر ) سے میلوں دوردھنی نو سری سے بلگراں موضع جبڑا کلگراں میں پیدا ہوا ‘ اِس بچے نے غربت کے ظلمت کدے میں آنکھ کھولی ایسا بچہ جس کی تخلیق میں عشق کی مٹی کو استعمال کیا گیا جو پھر عمر بھر گیلی لکڑی کی طرح سلگتا رہا ‘ جس کی رگوں میں خون نہیں بلکہ خون کی ایک ایک بوند میں عشق تھا جس کی زندگی ہر لمحہ عشق عشق الٰہی تھا جو عشق کی بھٹی میں سلگتا رہا ۔جس کے وجود میں کثافت کی بجائے لطافت تھی جس کی روح تلاش حق کے لیے بھاگتی رہی روح کی تلاش نے اُسے ساری عمر مضطرب رکھا ‘ اِسی باطنی اضطراب نے ساری زندگی اُسے چین سے بیٹھنے نہیں دیا ‘ اندر کا یہ اضطراب بے قراری اُس کے جسم کے انگ انگ سے چھلکتی تھی ‘ قدرت نے اِس عاشق کے لیے جو علا قہ چنا وہ آج پچاس سال بعد بھی سڑک تک سے محروم ہے ‘ جہاں پر آج بھی جانے کے یے دو گھنٹے پیدل سفر کرنا پڑتا ہے تو پچاس سال پہلے اِس علاقے کا کیا حال ہو گا ‘ غربت کی آغوش میں آنکھ کھولنے والے اِس بچے کانام عزیز الحسن ناصر رکھا گیا جو بعد میں جا کر ناصر کشمیری کے نام سے بزمِ جہاں میں معروف ہوا ‘ جس گھرانے میں بچے نے آنکھ کھو لی وہ خاندان صدیوں سے جانوروں کی طرح بے یار و مددگار زندگی گزار رہا تھا جس گھر پر سالوں سے فاقوں کا راج تھا ماہ و سال کی حرکت سے بچہ پانچ سال کا ہو اتھا تو کئی میل دور پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا غربت کی چکی میں پستے ہوئے یہ بچہ پانچ جماعتیں پاس کر گیا ‘ قدرت نے اِس کے آگے کا سبب اِسطرح پید اکیا کہ مظفر آبا د میں انسا ن دوست سکول ٹیچر کے گھرمیں پہنچ گیا ‘ اُس اچھے انسان کی زندگی کا مقصد یہ تھاکہ تعلیم کے نور کو عام کیا جائے اِس مشن کے لیے وہ بے سہارا بچوں کو سکول میں داخل کرا تا پھر اُن کے سارے اخراجات برداشت کر تا تھا پھر یہ بچہ زندگی کے زینے چڑھنے لگا یہاں پر وہ گھر کے کام کاج کے ساتھ تعلیم کے سلسلے کو بھی چلاتا چلا گیا ‘ اب یہی بچہ میڑک کر لیتا ہے تو پھر قدرت نے اِس بچے کے لیے جس شہر کا انتخاب کیا ہو تا ہے اُس شہر کو ہ مری میں لے جاتی ہے ‘ ناصر نے یہاں تک آنے کے لیے زندگی کے ہر سانس کی بھر پور قیمت ادا کی تھی ‘ محنت مزدوری گھر کے کام کاج دوسروں کے ٹکڑوں سے پیٹ کے دوزخ کو بھرتا رہا کیونکہ بچپن سے ہی گھر والوں کے لاڈ پیار سے محروم ہو چکا تھا ‘ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کی وجہ سے زندگی کا اصل چہرہ دیکھ چکا تھا ‘ فطری خصوصیات کے ساتھ دوسروں سے محبت و تعاون ناصر کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا ۔ مری میں ناصر بھی کسی نیک اور مخیر انسان کے گھر آگیا تھا اب اس شہر میں زندگی اپنی تلخ حقیقتوں کے ساتھ دستانے پہنے اُس کی منتظر تھی ‘ اب یہاں اُس نے زندگی کے دن پورے کر نے کے لیے پھرمحنت مزدوری کا سفر شروع کیا ‘ دس سال کی عمر میں گھر سے نکلنے والا بچہ اب نوجوانی کی دہلیز پرآپہنچا تھا ‘ ناصر کی تخلیق میں عشق کی مٹی تھی عشق بے قرار ہو تا ہے اسی بے قراری نے اُسے چین سے نہ بیٹھنے دیا‘ اب وہ ایک کام سے دوسرا کام کر تا چلا جارہا تھا ‘ بچپن سے مختلف لوگوں اور گھروں میں رہنے کی وجہ سے ناصر کو اٹھنا بیٹھنا بو لنے کا ڈھنگ آگیا تھا ‘ فطری ذہانت بھی اُس کے ساتھ ساتھ تھی ، زندگی کے کچے دھاگے کو قائم رکھنے کے لیے وہ محنت اور مزدوری کر تا‘ پلمبر یا الیکڑیشن کا کام کرتا‘ رولنگ سٹون ہونے کی وجہ سے وہ بہت سارے کام سیکھ چکا تھا ‘ فطری شرافت رگوں میں دوڑتا صوفی عشقیہ خون جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کی برائی سے دامن بچاتا آرہا تھا ‘ بچپن سے ماں باپ کے جھولے سے کیا گرا کہ پردیسی ہو کر رہ گیا ‘ عشقیہ مزاج اِس لیے جس سے بھی ملتا اُسے خوب عزت اور محبت دیتا خو دبھی محبت کا بھو کا تھا جو خاندان اُس کو پیار کے دو لفظ بو ل دیتا اُس کا بے دام غلام بن جاتا ‘ صوفی روح کی وجہ سے استغنیٰ کی چاشنی میں رنگا ہوا تھا ‘ بے نیازی اُس کی رگ رگ میں بھری ہو ئی تھی اُس کے کردار گفتگو سے بے نیازی چھلکتی تھی ہر انسان کے کام آنا دوسروں کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرنا اُ س کی فطرت کا خاص رنگ تھا ‘ قدرت ناصر کو اُس کام کی طرف لانا چاہ رہی تھی جس کے لیے اُسے پیدا کیا گیا تھا اب ناصر اپنی زندگی کے خاص حصے میں داخل ہو نے والا تھا جہاں سے اُس کی اصل زندگی کا آغاز ہو نا تھا اِس مشیت کے تحت چند سال بعد جب ناصر جوانی کے دور میں داخل ہوا تو مری آرٹس کونسل میں بھرتی ہوگیا اب وہ ایک خوبصورت سمارٹ جوان تھا جیسے بولنے ‘ اچھا لباس پہننے کا آرٹ آگیاتھا ‘ پینٹ شرٹ میں وہ ایک خوبرو جوان تھا جو دیکھتا اُس سے متاثر ہو ئے بنانہ رہ سکتا ‘ مری آرٹس کونسل میں اُس کی نوکری کا دور جاری تھا کہ وہ لمحہ اُس کی زندگی میںآگیا جس نے اُس کی زندگی کو بدل کر رکھ دینا تھا ناصر جوان تھا تھوڑا پڑھا لکھا بھی تھا اچھا لباس پہنتا اور بولتا بھی اچھا تھایہاں پر اُسے عشق مجاز کے پل صراط سے گزر کر عشقِ حقیقی کی پر خار وادی میں ننگے پاؤں چلنا تھا ‘ یہاں پر ایک لڑکی کو یہ دل دے بیٹھا اور لڑکی اِس کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو گئی ‘ ناصر کے خمیر میں عشق تھا دبی چنگاری سلگ کر آگ کا بھانبھڑ بن گئی ‘ رگوں میں خون کی جگہ عشق کی بوندیں رقص کر نے لگیں ۔

کشمیر کا مجذوب (حصہ دوئم)
عشق و گداز کی مٹی میں گندھے ہو ئے نوجوان ناصر کشمیری کو عشقِ مجاز کی ٹھوکر لگ چکی تھی ‘ جسم کا رواں رواں عشقِ مجاز کی آنچ میں سلگنے لگا ‘ ویران بنجر زندگی میں قوس وقزح کے رنگوں کی دھنک ظاہری باطنی طور پر برسنے لگی جسم کے خمیر اور باطن میں دبی چنگاری عشق کی چنگاری سے سلگ اٹھی جو چند دن بعد دہکتے ہو ئے آگ کے آلاؤ میں بدل گئی اب ناصر کشمیری سراپا عشق مجاز تھا پیدائش سے لے کر جوانی تک بے بسی مجبوری محرومی غربت مظلومی کے جلتے سلگتے آگ برساتے ریگستان میں ننگے پاؤں ننگے سر چل چل کر اتر کر فطری پیدائشی عاشق مزاج ناصر عشقِ مجاز کے نخلستان میں آدھمکا تھا ‘ برسوں کی محرومی تشنگی بے بسی لاچاری کے سیاہ اندھیرے رنگوں اجالوں میں بدلنے لگے محبت کا نغمہ باطن کے نہاں خانوں میں آبشاروں کے ترنم کے سر بکھیرنے لگا ‘ عشق مجاز کے گلشن میں آکر ناصر کشمیری کو زندگی خوبصورت لگنے لگی ‘ غربت محرومی تشنگی ناکامی اور زندگی کے تلخ حقائق کے تھور نے جو جسم کی ہڈیوں تک کو چاٹ رہا تھا اب اُس کی جگہ زندگی بھر پور رنگوں کے ساتھ انگڑائیاں لینے لگی ‘ عشقِ مجاز کا رنگ جسم کے انگ انگ سے چھلکنے لگا ‘ آنکھوں کی روشنی تیز ہو گئی چہرے ہونٹوں پر مستقل تبسم رقص کرنے لگا زندگی اتنی زیادہ خوبصورت ہو گی اِس کے بارے میں نوجوان ناصر نے کبھی سوچا ہی نہ تھا عشق کے بھی انوکھے اصول و ضوابط ہیں اِس میدان میں اگر آپ کسی سے محبت کریں اور آپکا محبوب آپ کو مثبت جواب دے یعنی وہ بھی آپ کے عشق میں مبتلا ہو جائے تو دھرتی پر ہی بہشت آباد ہو جاتی ہے ‘ ناصر کشمیری نے جس کو چاہا اُ س کے اندر بھی عشقِ مجاز کی آنچ سلگنے لگی ‘ کسی کے چاہے جانے کا نشہ دنیا کا سب سے بڑا نشہ ہے جو لوگ اِس نشے کی کیفیت سے گزرے ہیں وہی اِس لافانی نشے کی لذت اور سرشاری کو سمجھ سکتے ہیں ‘ ناصر کشمیری بھی اب عشق مجاز کے جھو لے پر سوار دنیا ومافیا سے بے خبر محبوب کی زلف گیرہ گیر کا قیدی بن چکا تھا ‘ محبوب کی شکل میں ناصر کے لیے جنت دھرتی پر اُتر آئی تھی ‘ محبوب کے ناز وادا کے رنگ گھنٹوں محبوب سے باتیں ‘ محبوب کی ادائیں ابروئے چشم پر ہر وقت غلاموں کی طرح حاضری ‘ جوانی اور عشق مجاز کا رنگ سر چڑھ کر بو لنے لگا ابتدائی باتوں وعدوں ملاقاتوں کے بعد اب مستقبل کے سہانے خوابوں کے رنگ ناصر کی آنکھوں میں تیرنے لگے ‘ دن رات باتیں ‘پھر کارڈ اور عشقیہ خط اور شاعری کیسٹوں میں محبوب کو اپنے دلی جذبات پہچانے لے لیے سریلے گلو کاروں کے شوخ محبت بھرے نغموں کے تبادلے ‘ ناصر کو محبوب کی ایک ایک ادا میں ہزاروں جلوے نظر آتے ‘ وہ چھوٹی سے چھوٹی ادا پر مر مٹتا ‘ ناصر تہذیب و تمدن سے دور زندگی کے ہنگاموں ‘ رعنایوں سے دور جانورو ں کے دیس سے شہر آیا تھا اُس نے بچپن سے جوانی تک غربت بے بسی محتاجی سوکھے خشک پہاڑ مٹی گارے کا بنا گھر ٹیڑھے میڑھے ناہموار راستوں پر ننگے پاؤں سفر کیاتھا یہاں اُس کا واسطہ تہذیب و تمدن معاشرے کے ماڈرن طبقے میں پروان چڑھنے والی خوبرو دوشیزہ سے پڑا تھا ناصر کو یہ سب کچھ سہا نا خواب لگ رہا تھا اُس نے خواب میں بھی کبھی اسطرح کی رنگوں محبتوں محبوب کی اداؤں کی قوس قزح نہیں دیکھی تھی یہاں پر چاروں طرف بہاروں کے قافلے تھے خوشبوؤں کے بسیر ے تھے ‘ ظاہر باطن میں نشاط انگیز سر مستیاں تھیں جسم کے انگ انگ سے سر شاری مستی مسرت و انسباط کے چشمے پھوٹ رہے تھے زندگی محبوب عشق کے رنگ اور سرمستیاں اہنے جوبن پر تھیں ‘ ناصر کی پور پور عشقِ مجاز کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی ‘ تہذیب و تمدن ‘ شہری معاشرت سے دور پہاڑوں کے پیچھے غربت کی سیڑھی چڑھنے والا ناصر زندگی کے شوخ رنگوں میں رنگ چکا تھا ۔کوہ مری کا موسم بادلوں کا آسمان اور زمین پر رقص ‘ گرمیوں میں بارش کی بوندا باندی سردیوں میں برف باری کے حسین نظارے ‘ چاروں طرف پھیلے خو ش رنگ ہزاروں قسم کے جنگلی پھولوں اور سبزے ریشمی نرم و گداز قطعے رات کے سناٹوں میں آبشاروں کا ترنم ٹھنڈی خنک ہواؤں کی مستیاں رات کو صاف آسمان پر چاند کی روشنی ستاروں کے جھرمٹ مری کے گھنے جنگلات صدیوں پرانے دیو ہیکل درختوں کی لمبی قطاریں اِن گھنے جنگلوں میں دو پیار بھرے جوان دل جو آنے والے خدشات سے بے فکر آنے والے حسین دنوں کے جھولے جھول رہے تھے ‘ ناصر تہذیب اور شہری معاشرت سے کوسوں دور پلا بڑھا تھا ‘ شہر کی لڑکی نے اُسے زندگی کے مہذب اصول و ضوابط اخلاقیات کی آگاہی دی ‘ زندگی اِس قدر خوبصورت ہو گی یہ ناصر نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا کسی خوبرو دوشیزہ نے جب دل و جان سے ناصر کو چاہا تو اُس کی شخصیت کی بہت ساری محرومیاں کمزوریا ں بھی دور ہونے لگیں اب ایک مستقل مسکراہٹ اور شوخی اُس کے چہرے کا حصہ بن چکی تھی اُس کی آنکھوں کی جھیل میں سہانے خواب ہلکورے لیتے ‘ آنکھوں کی روشنی تصورِ جاناں سے ہر وقت چمکتی دمکتی رہتی تھی ۔ ناصر جو پہلے اپنے آبائی گاؤں کبھی کبھار چلا جاتا تھا اب وہا ں جانا تقریبا ختم کر دیا ‘ اُس کی کیفیت اب یہ تھی تیرے نام پہ شروع تیرے نام پہ ختم‘ محبوب کا تصور اُس کی ادائیں محبت بھری سرگوشیاں بات کرنا ملنے کے بہانے ڈھونڈنا اب ناصر کا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا جب بھی کسی کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو پہلے تو راز داری چلتی ہے لیکن پھر دونوں کی اداؤں باتوں بلکہ جسم کے انگ انگ سے محبت کی خوشبو پھوٹنے لگتی ہے یہی حال اب ان دونوں کا تھا ‘ شروع میں راز داری چلتی رہی دونوں دنیا جہاں سے بے خبر ایک دوسرے کے خیال میں مست تھے دنیا کیا کہتی ہے دنیا کے تقاضے کیا ہیں اِن اٹل حقیقتوں سے بے خبر پیار کے دو کبوتر عشق کے آسمان پر پرواز کر تے جا رہے تھے جس طرح خوشبو چھپائے نہیں چھپتی اسی طرح عشق کی بو کبھی بند کواڑوں سے بازاروں اور محلوں کا رخ کر تی ہے ابتدائی ملاقاتوں باتوں وعدوں کا رنگ خوب چڑھا اور پھر برسا بھی ‘ اب اِس رنگ میں ایک دوسرے کو پانے کا رنگ غالب آنے لگا جس طرح دنیا کے ہر عاشق جوڑے کوپھر یہ فکر دامن گیر ہو تی ہے کہ اب اِس رشتے کو مستقل شکل دی جائے ‘ ناصر اور اُس کی محبوبہ کو بھی یہ فکر اب ستانے لگی کہ اب ایک دوسرے کے ہونے کے لیے کو شش کی جائے اِس کو شش کے لیے اب دونوں کی آنکھوں پر چڑھی خوابوں اور عشق کی پٹی سرکنے لگی اور زمانے کے حقائق سامنے آنے لگے تو سب سے بڑی مشکل اور رکاوٹ سامنے آئی کہ ناصر اور اُس لڑکی کے خاندانوں میں زمین آسمان کا فرق تھا ‘ زمینی حقائق کے مطابق ناصر زمین تھا محبوبہ آسمان کا چمکتا ستارہ ‘ اب زمین آسمان کیسے مل سکتے ہیں اب دونوں دن رات اس سوچ میں مستغرق کہ کس طرح راستے کی رکاوٹوں کو دو ر کیا جاسکے ‘ بہت سوچ بچار کے بعد لڑکی نے کہا کہ وہ پہلے اپنی ماں سے بات کرے گی جب ماں مان جائے گی تو پھرماں باپ سے بات کر کے باپ کو جب منائے گی تو پھر ناصر رشتہ لے کر گھر آئے گااورپھر جب لڑکی نے گھرمیں بات کی تو گھر میں بھونچال آگیا ماں بولی تم پاگل ہو وہ تو ہمارے ملازموں جیسا ہے تو ہماری بڑی بیٹی ہے ‘ تمہارے لیے معاشرے کے بلند ترین رشتے قطاروں میں کھڑے ہیں اگر تم نے ناصر سے شادی کی ضد کی تو تمہارا باپ تمہیں اور مجھے ایک سیکنڈ سے پہلے قتل کر دے گا۔ عشق کے سمندرمیں غرق دونوں پریشان ہو گئے دونوں کے سہانے دن رخصت ہو نے والے تھے ۔ ناصر بیچارہ بچپن سے محرومی کی سولی پر لٹکتا آیا تھا ایک بار پھر اُس کی آنکھوں میں محبت کے رنگوں کی جگہ پریشانی غربت محرومی کے سائے لرزنے لگے اب اُس نے ہمیشہ کی طرح محبوبہ کے ما ں باپ کو منا نے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے ‘ اب اُس نے اِس کام کے لیے ملنگوں اور بابوں کے پاس جانا شروع کر دیا ہر در سے ناکامی مل رہی تھی انہی دنوں مری میں ایک درویش کا جادو سر چڑھ کر بو ل رہا تھا جس کے پاس ہزاروں لوگ آتے ‘ یہیں سے اُس کی زندگی کا اصل باب شروع ہو نا تھا جس کے لیے خالق نے اُس کی تخلیق کی تھی آخر کار ناصر نے اُس درویش کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ (جاری ہے )


شیئر کریں: