Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

وزیراعظم نے پشاور شیلٹر ہومز کا افتتاح‌کردیا، وزیراعلیٰ‌کا سوروزہ کارکردگی حوالے سے خطاب

Posted on
شیئر کریں:

پشاور(چترال ٹائمزرپورٹ )‌ وزیراعظم پاکستان عمران خان اوروزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بے سہارا لوگوں کیلئے صوبائی حکومت کے قائم کردہ شیلٹر ہوم پجگی روڈ کا باضابطہ افتتاح کردیا ۔ صوبائی وزراء ، چیف سیکرٹری اور دیگر اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ وزیراعظم کو اس موقع پر شیلٹر ہوم میں فراہم کی گئی سہولیات اور استعداد کے حوالے سے بریفینگ بھی دی گئی ۔ وزیر اعظم نے شیلٹر ہوم کے قیام پر وزیراعلیٰ محمود خان کو خراج تحسین پیش کیا۔ واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے بے سہارا اور بے گھر افراد کیلئے شیلٹر ہومز کے قیام کے حوالے سے عمران خان کے وژن کے تحت کامیاب اقدامات کئے ہیں۔ پشاور میں پہلے سے موجود شیلٹر ہومز کو بحال کیا جارہا ہے جبکہ تین نئے شیلٹر ہومز بھی قائم کئے جارہے ہیں جن میں سے ایک پجگی روڈ شیلٹر ہوم مکمل ہو چکا ہے جس کا آج باضابطہ افتتاح کیا گیا ہے ۔

دریں اثنا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا نشتر ہال پشاور میں صوبائی حکومت کے 100 روزہ کارکردگی کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف جب صوبے میں برسراقتدار آئی تو ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار تھا ۔ ماضی کی ہر حکومت کی ترجیحات ، پارٹی شہرت اور اپنے دور حکومت تک محدود رہیں۔ مستقبل کی منصوبہ بندی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ صوبے کے حقوق حکمرانوں کی غفلت اور ذاتی مفادات کی نظر ہو چکے تھے۔ غریب عوام تھے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
صوبے پر بار بار حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتوں سے مایوس اور تنگ عوام نے اپنی خدمت کیلئے تحریک انصاف کا انتخاب کیا اور اسے2013 میں حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے عوامی توقعات کے مطابق تبدیلی کے سفر کا آغاز کیا۔ ہم اپنے اہداف کے حصول اور ایجنڈے پر عمل درآمد میں کتنے کامیاب ہوئے اس سلسلے میں مختلف لوگوں کی مختلف سوچ ہوسکتی ہے۔بہرحال یہ حقیقت ہے کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے اگر کسی پر دوبارہ اعتماد کیا اور اسے مسلسل دوسری بار حکومت بنانے کا موقع دیا تو وہ تحریک انصاف ہے۔ ہمارا ناصرف خیبرپختونخوا میں دوبارہ حکومت میں آنا بلکہ مرکز اور پنجاب میں بھی حکومت بنانا آپ کے وژن کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت ہے۔

ہم نے صوبے میں نظام کی بہتری کے لیے ترجیحات کا تعین کر لیا ہے اور اس سلسلے میں چند اہم خطوط وضع کیے گئے ہیں۔ہم نے شراکت داری کے ذریعے عوامی ضروریات اور توقعات کے مطابق خدمات کی فراہمی کیلئے اداروں کو نچلی سطح پر فعال کیا اور سب کو قانون کے سامنے جوابدہ بنایا۔ کنفلکٹ آف انٹرسٹ جیسے قوانین منظور کر کے خود کو سب سے پہلے احتساب کیلئے پیش کیا ۔اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کی اور شفافیت کو فروغ دیا۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے ذریعے اقرباپروری اور رشوت ستانی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے ۔ چیک اینڈ بیلنس کے نظام سے خود کو اور اداروں کو جوابدہ بنایا ہے۔ عوامی تنازعات کے مقامی سطح پر حل کیلئے مصالحتی کونسلیں قائم کی گئیں اور اتفاق رائے پر مبنی اچھی حکمرانی قابل عمل بنائی ہے۔ میرٹ کی بالادستی کیلئے آزاد اور بااختیار ادارے قائم کئے گئے ہیں اور عوامی ویلفیئرکا تصور سامنے رکھ کر قانون سازی اور فیصلہ سازی کو ترجیح دی ہے۔ حکومتی سطح پر سزا اور جزا کا قابل عمل قانون بنا دیا گیاہے اور بااختیار مانیٹرنگ یونٹس بنائے گئے ہیں جس سے اداروں کی کارکردگی کو جانچا جا رہا ہے۔ ہم نے صوبے کی معاشی خود کفالت میں بڑھوتری کیلئے مستقبل کے چیلنجزکو سامنے رکھ کر حکمرانی کی بنیاد ڈال دی ہے۔
* ہماری حکومت نے کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت موثر اقدامات کئے ہیں۔ وسائل کے موثر استعمال، شفافیت اور کرپشن کے خاتمے سے ہمارا رواں سال 30 ارب روپے بجٹ میں سرپلس دینے کا ہدف ہے ۔ ہماری یہ کوشش بجٹ خسارے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو گی ۔
* وزیراعلیٰ ہاؤس، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ اور پختونخوا ہاؤس اسلام آباد کے انٹرٹینمنٹ کے اخراجات میں واضح کمی لائی گئی ہے۔ مذکورہ تینوں دفاتر میں پہلے انٹرٹینمنٹ کی مد میں اوسطاً 50 لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہوتے تھے۔ کفایت شعاری مہم کے نتیجے میں اب ماہانہ خرچہ 50 لاکھ سے کم ہوکر اوسطاً 6 لاکھ روپے ماہانہ پر آگیا ہے۔ اسطرح گذشتہ 6 ماہ کے دوران 2 کروڑ64 لاکھ روپے کی بچت کی گئی ہے۔
* ماضی کی سالانہ ترقیاتی منصوبہ بندی میں ذاتی پسند و ناپسند ، اقرباء پروری اور مفاد پرستی ہر سطح پر عیاں تھی۔ عوامی فلاح میں ترقیاتی بجٹ کا استعمال صرف کاغذوں تک محدود تھا ، جس کے نتیجے میں سوائے چند حلقوں کے پورا صوبہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا ۔
* پی ٹی آئی کی حکومت نے حقیقت پسندانہ اے ڈی پی کی تشکیل اور اس کے شفاف اور کارآمد استعمال کا کلچر متعارف کرایا۔ہم نے صوبہ بھر کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے یکساں حکمت عملی وضع کی۔ نئی سکیموں بشمول میگا پراجیکٹس کا اجراء کیا گیا ۔
صوبے کے دور دراز پسماندہ اضلاع پر خصوصی توجہ دی گئی۔100 روزہ پلان کے تحت صحت انصاف ، سماجی خدمات ، صنعت کاری، ٹورازم کی ترقی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، زرعی خود کفالت اور مجموعی معاشی، اقتصادی ترقی کے راستے کا تعین کیا جا چکا ہے اور 58منصوبوں کی منظوری دی گئی .
* 13ارب روپے فلیگ شپ منصوبوں (سوات موٹروے، بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی ، گومل زام ڈیم) کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔
* نئے اضلاع (سابق فاٹا )کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت ابتدائی طور پر 21 ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جا رہاہے۔
* صوبے میں ترقیاتی حکمت عملی کی واضح سمت متعین کرنے کیلئے پی پی پی ایکٹ میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں پالیسی تیار ہے۔ جو صوبائی حکومت کی پہلی انوسٹمنٹ پالیسی کے تیار کردہ مسودہ کا حصہ ہے۔ جس کی منظوری صوبائی کابینہ سے جلد لی جائے گی۔
* ماضی میں سی پیک کے معاملے میں بھی صوبے کو اندھیرے میں رکھا گیا تھا، اربوں ڈالرز کے منصوبوں میں ہمارے صوبے کو نظر انداز کیا گیا۔ ہماری سابقہ حکومت نے سی پیک میں صوبے کے حقوق کیلئے تمام متعلقہ فو رمز پر توانا آواز اٹھائی اور انتھک جدوجہد کے نتیجے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی۔ چترال ٹائمز ڈاٹ کام ذرائع کے مطابق وزیر علی نے کہا کہ مغربی روٹ کی توثیق کے علاوہ گلگت سے چترال ، دیر اور چکدرہ روڈ کو متبادل روٹ کے طور پر سی پیک میں شامل کرنے کی تجویز دی اور سی پیک کے تحت اکنامک زون اور دیگر پراجیکٹس کے حصول میں کامیابی حاصل کی۔
* سی پیک کے تحت رشکئی سپیشل اکنامک زون کیلئے جوائنٹ ونچر کی منظوری دی جاچکی ہیں۔ منصوبے پر کنسیشن ایگریمنٹ پر کام شروع ہے۔ یہ منصوبہ صوبائی حکومت اور چین دونوں کی دلچسپی کا مرکز اور اولین ترجیح ہے۔سرکلر ریلوے منصوبے کے ایم او یو(MoU) پر پیش رفت دوبارہ شروع کی گئی ہے ۔
* چھ ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں86 سکیمیں مکمل کی گئی ہیں۔104جاری سکیمیں 70فیصد مکمل ہیں۔ اسکے علاوہ انہیں خطوط پر ہر ڈویثرن میں ایک اضافی ضلع کیلئے ایک نئی سکیم دینے پر غور و فکر بھی جاری ہے۔
* نیا لوکل گورننس ماڈل نفاذکیلئے تیار ہے۔ سابق فاٹا کے نئے قبائلی اضلاع کو صوبے میں شامل کرنے پر کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔ نئے اضلاع میں انتخابات کے سلسلے میں حلقہ بندیاں 30 جنوری 2019 تک مکمل کرلی جائیں گے۔ بلدیاتی نظام کیلئے 702 ویلیج اور نیبرہڈکونسلیں قائم کی گئی ہیں ۔ نئے اضلاع میں انتخابات کی حتمی تاریخوں کا اعلان الیکشن کمیشن کی مشاورت سے کیا جائے گا۔خاصہ دار لیویز اہلکاروں کی تنخواہ میں اضافے اور 30 ہزار ملازمتوں کی منظوری دی گئی ہے۔لیویز اور خاصہ داروں کو مکمل جاب سیکورٹی دی جارہی ہے، کسی کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔ جرگہ نظام مصالحتی کمیٹیوں میں بدل جائے گا۔ نئے اضلاع کی ترقی کیلئے 6 ماہ اور پانچ سالہ پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ صحت انصاف کارڈ جنوری سے تقسیم ہونگے اور نوجوانوں کیلئے ایک ارب روپے کا پیکیج بھی دیا جا رہاہے جس سے بلاسود قرضے فراہم کئے جائیں گے۔مرکز سے ملنے والے وسائل کی نگرانی کیلئے طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے۔
* پشاور کی ترقی کیلئے جامع حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کا کامیابی سے اجراء کیا جا چکا ہے۔
* پشاور کیلئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی جامع حکمت عملی تیار کی گئی ہے جبکہ باقی ماندہ صوبے کیلئے بھی اس سہولت پر کام ہو رہا ہے۔ ڈویثرنل ہیڈ کوارٹرز سے منسلک اضلاع کیلئے خوبصورتی اور اپ لفٹ پروگرام اے ڈی پی میں شامل کیا جا چکا ہے جسکی لاگت پانچ ہزار ملین روپے ہے۔ یہی سکیم ڈویثرنل ہیڈ کوارٹرز کیلئے پہلے سے چل رہی ہے۔
* زیر تعمیر بس رپیڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تیز رفتار تکمیل حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، حکومتی اقدامات اور مسلسل نگرانی کی وجہ سے منصوبے کے سول انفراسٹرکچر پر 92فیصد کام ہو چکا ہے جبکہ مالی پیش رفت بھی 85فیصد ہے۔
* صوبے میں معاشی احیاء ،روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت میں کمی کیلئے ہمہ گیر سوچ کے ساتھ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس صوبے کا ہر ضلع اپنے اندر مختلف نوعیت کے مخصوص وسائل رکھتا ہے۔ ہم نے صوبے کو تین ریجن میں رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی ہے ٹورازم ، مشرقی ریجن میں نمایاں صنعت کے طور پر سامنے آنے والی ہے،تاہم یہ صنعت صوبے کے سنٹرل اور جنوبی ریجن تک پھیلی ہوگی ۔
* گھریلو صنعت کو ترجیح دی جارہی ہے یہ باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے نئی شروعات ہے۔وہ اس روزگار میں اپنے ساتھ دیگر بے روزگاروں کو بھی روزگار دے سکیں گے۔ حکومت کاٹیج انڈسٹریزکو مالی اور تکنیکی سرپرستی فراہم کرے گی۔
* چشمہ لفٹ ایریگیشن سکیم کے تحت ہم زرعی خود کفالت پلان کر چکے ہیں۔ ہم اپنے حصے کے پانی سے بھرپور استفادہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ تصفیہ طلب مسئلہ کل وقتی طور پر حل ہو سکے ۔ یہ ایگروبیسڈ صنعت کے فروغ کیلئے بھی ناگزیر ہے۔
* صوبے کے اکنامک زونز میں درمیانی درجہ کی صنعت کاری کیلئے تیاری مکمل ہوچکی ہیں۔
* اس صوبے کو صنعت اور سرمایہ کاری کا موزوں ترین مرکز بنانے کیلئے ہم تیاری کے آخری مرحلے میں ہیں۔
* ہم نے آپ کے وژن کے مطابق صوبے میں قابل عمل نظام کی شروعات کردی ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں انصاف اور میرٹ کی بالا دستی ہو، قانون کی حکمرانی ہو، اداروں میں جوابدہی کا عنصر موجود ہوگا۔ غریب عوام کو تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات سمیت دیگر سماجی شعبوں میں خدمات کی فراہمی کا مؤثر نظام ہوگا ۔ ہماری جملہ کاوشوں ، اصلاحات اور اقدامات میں عام آدمی کو ترجیح اور خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔ ہم نئے خیبرپختونخوا کیلئے اپنی سمت کا تعین کرچکے ہیں، ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ کی رہنمائی میں اس صوبے کو تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن کرینگے اور وہ وقت دور نہیں جب خیبرپختونخوا حقیقی معنوں میں نئے پاکستان کے وژن کی عملی شکل بن کر سامنے آئے گا۔

دریں اثنا صوبائی حکومت کے بے گھر افراد کیلئے قائم کردہ مختلف مہمان خانوں (شیلٹر ہومز )میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہے۔رات شروع ہوتے ہی پشاور کے مختلف علاقوں سے قیام کیلئے بے گھر افراد مہمان خانوں کا رخ کرنے لگے۔رات کے ابتدائی حصے میں ہی پجگی روڈمہمان خانہ میں 40 مہمان قیام کیلئے پہنچے ، اسی طرح کوہاٹ اڈہ مہمان خانہ میں 10جبکہ حاجی کیمپ اڈہ مہمان خانہ میں بھی 15مہمان رات کے قیام کیلئے پہنچ گئے ہیں.

shelter home iftitah3

shelter home iftitah4

shelter home iftitah45

shelter home iftitah456

shelter homes

shelter homes4

 

 


شیئر کریں: