Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

زنِ مُریدی سے نا مُراد ی کاسفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرسیما آمان

Posted on
شیئر کریں:

کُچھ عرصہ پہلے ایک دوست کی والد کا انتقال ہُوا۔تعزیت کے لئے فون ملایا تو یہ حیرت ہو ئی کہ دوست نے والد کی موت سے ذیادہ زندہ بھائیوں کے رویوں کا سوگ منایا جو والد کو دفناتے ہی سامنے آئے۔فون رکھنے کے بعد مجھے بے ساختہ بچپن میں سُنا ہوا پنجاب کے علاقے کا وہ قصہ یاد آگیا جس میں ایک شخص نے ۵مرلہ زمین کے لئے اپنی ۴جوان بہنوں کو قتل کیا۔گھر کے اندر اُنھیں دفنایا۔پھر اُس اجتماعی قبر کے اُوپر فرش بِچھایا۔اور اُسی فرش کے اوپر اپنا مکان بنایا۔پھراُسی مکان میں اپنی ۴ بیٹیوں اور اکلوتے بیٹے کے ساتھ بڑی ڈھٹائی سے رہنے لگا۔ابھی ان حالات پر سوچ ہی رہی تھی کہ ایک رشتہ دار خاتون بڑے عرصے بعد تشریف لائی۔ ۳سال پہلے انکے بیٹے کی شادی پر ہی مُلاقات ہوئی تھی۔خاتون کے چہرے پر نظر دوڑاتے ہی احساس ہوا کہ حالات اب یقیناًپہلے جیسے نہیں رہے تھے۔چہرے پر مُسکراہٹ ،مزاج میں شوخی اورزبان پر ’’ بیٹے ‘‘ کی فرمانبرداری کے داستانوں کے بجائے دُکھ ہی دُکھ کے اثار صاف نظر آرہے تھے۔پوچھنے پر افسردہ ماں نے وہی قصہ سُنایا جو تھوڑی ہی دیر پہلے فون پر میں سن چکی تھی اور جو کم وبیش ہر گھرکی کہانی بن چکی ہے۔میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑایا اور اپنے جاننے والے تمام بھائی حضرات کی اب تک کی زندگیوں پر تھوڑی دیر غور کرنے کی کوشش کی۔تو نتائج کچھ اسطرح سامنے آئے،،مجھے یاد آیا کہ ۹۹فیصد حضرات جب بھائی اور بیٹے تھے تو انکی زندگیاں شاہانہ تھیں۔ہل کر پانی بھی خود نہ پیتے تھے،الماریوں میں انکے لباس ہر وقت دھلے ہوئے اور استری شُدہ تیار ملتے تھے۔مزاج اسقدر شاہانہ کہ بہن تو بہن ماں بھی انکے اگے اہستہ اواز میں بات کیا کرتی تھیں ۔جب باہر سے انکی تشریف آوری ہوتی تھی تو بہنیں کسی ذرخرید کنیز وں کی طرح انکے آگے گرم اور تاذہ کھا نا رکھتیں ان سے چائے کا پُوچھتی،،انکے احترام میں سر جھکائے رہتی۔ان کے مزاج کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہ ماں باپ کرتے نہ بہنیں۔۔ میں نے اپنی یاداشت پر مزید زور ڈالا تو یاد آیا کہ اِ ن میں سے کہیں بھائی حضرات جب تک کنوارے تھے ،یہ ذہنی مریض تھے۔ماں بہنوں کو گالیاں دیتے۔بہنوں پر ہاتھ اُٹھاتے حتٰی کہ مار کٹائی تک کرتے تھے۔۔محلے کے لوگوں سے گالم گلوچ کرتے۔ہاتھا پائی کرتے ۔گھر کا دروازہ رشتہ داروں پر بند کرتے ۔بہنوں کو کہیں آنے جانے کی اجاذت نہ دیتے۔۔غرض یہ واقعی ’’پاگل ‘‘ تھے،،پھر یوں ہوا کہ وقت اور حالات بدل گئے۔اِ ن تمام حضرات کی شادیاں ہوگئیں۔کردار تبدیل ہوگئے۔وہ تمام بھائی حضرات جو کبھی شاہانہ مزاج رکھتے تھے جو ذہنی مریض کا کردار ہواکرتے تھے۔جن کی ڈر سے ماں اور بہنیں اونچی آواز میں بات نہیں کر پاتی تھیں وہی بھائی جن کی خدمت ماں اور بیٹی پر فرض ہوا کرتا تھا،اب وہ ہماری بہووں کے شوہر کہلاتے ہیں اور اب اُنکی زندگیاں کچھ اسطرح گزر رہی ہیں۔اب وہ بیوی کے اگے کھانا رکھتے ہیں۔اپنے کپڑے خود دھوتے ہیں،اپنے بوٹ خود پالش کرتے ہیں ،اور جب کبھی یہ سب کرتے ہوئے انہیں کوئی بہن یا ماں دیکھ لیں تو ا پنی شرمندگی چُھپانے کے لئے رسول پاکﷺ کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہؐ بھی اپنے سارے کام خود کیا کرتے تھے،، اب یہ حضرات گھروں سے نکلنے سے پہلے بیوی سے اجازت لیتے ہیں وہی حضرات جو کبھی باپ کو ’’سوال ‘‘ کرنے کا حق نہ دیتے تھے اب گھروں میں داخل ہوتے ہوئے یہ بیوی کی ڈر سے ایت الکرسی پڑھا کرتے ہیں۔۔بیوی اور بچوں کی خدمت میں مشغول ان بیٹوں سے اب بوڑھے ماں باپ برداشت نہیں ہوتے۔بہنوں کو دیکھ کر انکے آنکھوں میں خون اُترتا ہے۔یہ وہیں مرد ہیں جن کا قبلہ انکی ’’ بیویاں ‘‘ ہیں۔۔اردو ڈکشنری میں لفظ ’’زن مُرید ‘‘ اِ نھی مردوں کے لئے ا ستعمال ہوا ہے۔جنھوں نے بیوی کو اپنا ’’ قبلہ ‘‘ بنا یا ہوا ہے ۔
درحقیقت ان مردوں کی مثال اُس مُرغی کی طرح ہے جو ہر سامنے آیا ہوا دانہ چکھتی ہیں اور اگے بڑھ جاتی ہیں۔ہاں وہ تمام مرد حضرات جو بیوی کے کہنے پر اپنے سگے ماں باپ بہن بھائی اور رشتہ داروں سے تعلقات رکھے یا توڑے۔جو بیوی کی آنکھوں سے دیکھے ،بیوی کے ذہن سے سوچے وہ تمام حضرات اس مُعا شرے میں اشرف المخلو قات انسان نہیں بلکہ ’’ مُرغیاں‘‘ ہیں۔میں نے اس خاتون کے چہرے پر ایک بار پھر نظر دوڑائی تو مجھے بے ساختہ ہنسی آئی۔۔مُجھے یاد آیا کہ پچھلے چند سالوں سے بیٹوں کی نا فرمانی اور بہووں کی بد اخلاقیوں سے تنگ آکر ہماری خواتین نے مدرسوں کا رُخ کرنا شروع کردیا تھا خیال انکا یہ تھا کہ اگر قُر آن حفیظ ،ترجمان اور تفاسیر کی علم حاصل کرنے والی بہوویں لائی جائیں گی تو گھروں میں اسلامی نفاز ہوگا،بیٹے نا فرمان نہیں ہونگے ماں باپ کا حق ادا ہوتا رہے گا۔مگر افسوس در افسوس کہ ان مدرسوں سے علم حاصل کرنے والیوں نے خاندانی نظام کا مزید جنازہ یہ کہہ کر نکال دیا کہ بہو پر ساس سسر کے کوئی حقوق نہیں وغیرہ وغیرہ۔مدرسے والیوں نے یہ ایک نیا پرو پیگنڈہ شروع کردیا ہے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ورغلا رہے ہیں۔مجھے حیرت ہے کہ ۳۰ پاروں کا ترجُمہ ،احادیث اور تفاسیر پر ۵ سال کے علم سے بھی کیا انکو اس حکم کے بھی معنی نہ ملے کہ ’’ تُم پر سب سے ذیادہ حق تمھارے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے ذیادہ حق ا سکے ماں کا ‘‘ کون ہے یہ ما ں ؟؟ وہی جسکو بد بختی سے ساس کا نام دے کر اُس کے حقوق چھین لئے گئے۔۔سوچنے کی بات ہے کہ روز قیامت حضرت عمرٌ سے اگر علاقے میں پیا سا مرنے والے جانوروں کے بارے میں سوال ہوگا تو کیا ہم سے ہمارے گھروں میں موجود بوڑھے ضیف کمزور اور بے بس والدین کے بارے میں سوال نہ ہوگا ؟؟؟؟؟ افسوس کہ قُرآن کا علم بانٹنے والے ہی اگر قُرآن کو غلط استعمال کریں گے تو باقی مُعا شرے کا کیا حال ہوگا۔اگر یہ کہا جائے کہ بہو کا انتخاب مسئلہ کشمیر سے کم نہیں تو غلط نہ ہوگا۔جہاں تک مُشاہدہ ہوا ہے کچھ خواتین نے پڑھی لکھی لڑکیوں کو ووٹ دیا تو بیشتر نے اسکے برعکس کم پڑھی لکھی یا بالکل ہی ناخواندہ بہو کا انتخاب کیا،اِ نکے مُطابق پڑھی لکھی لڑکیاں ذیادہ چالاک ہوتی ہیں۔ایک طبقہ کم عُمر لڑکیوں کا انتخاب کرتا ہے تو بعض روشن خیال خواتین نے لیڈی ڈاکٹرز کا انتخاب کیا یہ سوچ کر کہ گھر میں انسانی خدمت کرنے والی مسیحا آئے گی تو روح کے زخموں پر بھی مرہم رکھے گی مگر ہر قسم کے تجربات کا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا نکلا۔۔
ان سینکڑوں مُشاہدات کا نتیجہ میں نے اپنی کم علمی اور ناقص دماغ سے یہی ا خذ کیا کہ عورت چاہے پڑھی لکھی ہو یا نہ ہو۔چھوٹی عمر کی ہو یا بڑی۔قُرآن حفیظ ہو یا عالمہ۔۱۷۔۱۸ گریڈز کی اُستانیاں ہو یا لیڈی ڈاکٹر۔۔اگر اُس میں انسانی ہمدردی کے اوصاف نہیں ہیں تو وہ ’’ کچھ بھی ہو ‘‘ یقین جانییے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بجائے غیر عورتوں میں اچھائی ڈھنڈتے پھرنے کے اپنی ’’ اولاد ‘‘ میں وہ اصاف پیداکرنی ہوگی کہ آنیوالے وقتو ں میں وہ اشرف المخلوقات ہی رہیں ’’ مُر غیاں ‘‘ نہ بنیں،، ہاں ہمارے والدین کواپنے بیٹوں کی تربیت اُن خطوط پر کرنی ہوگی کہ وہ بیوی سے اپنے ماں باپ اپنے بہن بھائی اور رشتہ داروں کی ’’ عزت ‘‘‘ کرواسکیں۔۔مُعاشرہ چاہے چترال کا ہو سندھ کا پنجاب کا یا بلوچستان کا،اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اپنے لئے ڈیرھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنے کے خاطر ماں باپ کو دُکھ دینے والے اور بہن بھائیوں کو ذلیل کرنے والے افراد ہر جگہ موجود ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ہر گھر میں آہ وفغاں تب ہی بند ہوئی جب تک کہ گھروں کے بٹوارے نہ کئے گئے۔ورنہ ہر گھر میں بھائی بھائی کا تو کہیں بیٹے باپ کا گریباں پکڑتے رہے ہیں۔اور ساس بہو اور نند نام کے جھوٹے ڈرامے ہوتے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس معاشرے میں بوڑھے باپ کو زلیل کئے بغیر یا بہنوں کے سروں سے چادریں کیھنچے بغیر بھی کوئی شخص الگ گھر کی تعمیر کرسکتا ہے؟؟کوئی بیٹا یا بھائی غاصب بنے بغیر بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرسکے گا؟؟یا تا قیامت یہ غاصب حضرات بہنوں کے قبروں پر اپنے مکانات تعمیر کرتے رہیں گے؟؟؟؟؟میرا یہ سوال بلخصوص اُن تمام افراد سے ہے جو پانچ وقت باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں۔جنکے چہرے مُبارک سنت نبویﷺ کے نام پر دھاریوں سے سجے ہوئے ہیں۔لیکن انکی ساری مسلمانیت اُسوقت جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے جب اِ نکی بہنیں بیٹیاں وراثت میں اپنا حق مانگتی ہیں۔انھی غاصب حضرات کے لئے رسول پاکﷺ نے کئی مرتبہ یہ فرمایا کہ ’’بیٹیوں کے معاملے میں اﷲسے ڈرتے رہو،،‘‘ ایک اور جگہ مال پر قبضہ کے حوالے سے فرمایا کہ اگر بالشت بھر زمین پر بھی قبضہ جمایا ہے تو یہ انھوں نے اپنے لئے اگ کی ذخیرہ اندوزی کی ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے چی غیچی کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تو کافی حضرات بُرا مان گئے کہ ’’ہم ایسے نہیں ہیں ‘‘ بہت اچھی بات ہے کہ آپ تمام لوگ ایسے نہیں جن پر وہ مضمون لکھا گیا تھا،یاد رکھیں مضمون ہمیشہ اُسی طبقے پر لکھا جاتا ہے جو ایسے ہی ہوں۔۔آج کے مضمون میں بھی اگر کسی کو اپنا ’’ چہرہِ مُبارک ‘‘ نظر آیا ہے تو کم ازکم استغفار ہی کرلیں۔اور جن کو نظر نہیں آیا یقیناًوہ خوش قسمت ہیں۔۔
ہاں وہ تمام افراد جو اپنے بیوی بچوں کے حقوق کے لئے کسی اور کے حقوق میں ڈنڈی نہ ماریں وہ نہایت خوش قسمت ہیں۔وہ ماں باپ کے لئے قابلِ فخر ہیں لیکن وہ حضرات جو اپنی بیوی بچوں کے لئے دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں جو اپنی ہوس اور لالچ کی خاطر اگ کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں۔وہ اِ س دھرتی پر بوجھ ہیں وہ ناسور ہیں۔۔۔یہ وہی ہیں جو اندھوں کی طرح زن مُریدی سے نا مُرادی کے سفر کی طرف گامزن ہیں۔اور اس نا مُرادی کے سفر میں ایسے تمام حضرات کے ہاتھ سوائے پچھتاوے اور شرمندگی کے اور کچھ نہیں آئے گا۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
16680