Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

              ترش و شیرین………… بیمار معاشرہ ………….نثار احمد

شیئر کریں:

     جس معاشرے میں ہم نے آنکھ کھولی، پروان چڑھے اور جوان ہوئے اس میں ہم نے اپنے بڑوں کو مغرب، مغربی معاشرہ اور گورے انگریز کو کوستے، بُرا بھلا کہتے اور اُس پر چار حرف بھیجتے ہی دیکھا.. تمام بُرائیوں کی نسبت گورے انگریز کی طرف کرکے گوروں کے دیس مغرب کو طعن و تشنیع کرنے اور مغربی تہذیب کی دھجیاں ہوا میں بکھیرنے کی پُرشور مہم اجتماعی طور پر صف بہ صف ایسی چلی کہ ہمیں یاد ہی نہ رہا کہ من حیث القوم اخلاقی بُرائیوں میں ہم بھی زوال و انحطاط کی طرف ہی سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں. یاد تب آتا ناں! جب اپنا گریبان ٹٹولنے اور اس میں جھانکنے کی زحمت اُٹھاتے..لیکن یہاں دوسروں کی عیب بینی، حرف گیری اور دوسروں کی طرف انگشت نمائی کا چلن ہر چہار طرف ایسا رواں دواں رہا کہ کسی کو خود احتسابی کی فرصت ہی نہیں ملی. گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ کب کا اپنا اصل چہرہ کھو چکا ہے. آج ہم ایک تندرست نہیں بلکہ ایک بیمار معاشرے میں زندگی کی اذیت جھیل رہے ہیں.
انسان ہی تندرست و بیمار نہیں ہوتا بلکہ انسان کے بمثل ایک انسانی معاشرہ بھی تندرستی یا بیماری میں سے کسی ایک صفت کے ساتھ ضرور متصف ہوتا ہے. جس معاشرے کی اکثریت کی سوچ و فکر کا محور منفیت ہو ایسے معاشرے کو صحت مند معاشرہ کہنا کسی طور پر درست نہیں ہے.  بیمار معاشرے کی شناخت و پہچان ہرگز مشکل نہیں. ایسا بھی نہیں ہے کہ بیمار معاشرے کے افراد کے سروں پر لمبے لمبے سینگ اُگے ہوتے ہوں یا ایک عدد اضافی ناک چہرے کی ایک طرف ٹانگی ہوتی ہو، بلکہ جہاں لوگ دوسروں کی پگڑیاں سنوارنے کی بجائے اچھالنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہوں، جہاں چند بہروپیے مذہبی ماسک چڑھا کر اپنا منجن فروخت کرتے رہتے ہوں، جہاں ہر پہلا شخص ہر دوسرے شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہو، جہاں موقع پرستوں کی ایسی ریل پیل ہو کہ اُن میں انسانیت کا درد رکھنے والے خدا پرست آٹے میں نمک سے بھی کم دکھائی دیتے ہوں ، جہاں ڈاکٹر مریض کو اور دوکاندار گاہک کو چُونا لگا کر پیسہ بٹورنا اور مال بنانا چاہتا ہو، جہاں نرگسیت کے مرض میں مبتلا مذہبی لوگ بزعم خویش خود کو دائمی سیف سائڈ پہ سمجھ کر صرف دوسروں کو نیک بننے کی تلقین کرتے رہتے ہوں، جہاں کسی گلی کے نکڑ میں پرچوں کی دوکان کھولے دَس جماعتیا ملکی سیاست پر بالجزم ماہرانہ گفتگو کرتے ہوئے نہیں چونکتا ہو، جہاں شہری اپنے ہی محافظوں سے سہمے سہمے رہتے ہوں، جہاں اسلام پہ لب کھولتے ہوئے اوریجنل اسلامی تعلیمات اور فلسفہ ء اسلام سے نابلد نیم علم مذہبیوں سے ڈرا جاتا ہو، جہاں سوشل میڈیائی جنگل سے اُٹھا اُٹھا کر ہر قسم کی رطب و یابس کو دھڑادھڑ ماشاء اللہ، سبحان اللہ کہہ کر شئر کرکے مطمئن ہوا جاتا ہو،  ایسا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ ہی کہلاتا ہے.
حالیہ ایک واقعے کو لے کر جس بھونڈے طریقے سے سوشل میڈیا میں  “بعض چترالی ” دوستوں کی جانب سے ہاہاکار مچانے اور اپنے دل کا غبار نکالنے کا سلسلہ تاہنوز جو جاری ہے، اسے دیکھ کر یقین کی حد تک گمان ہوتا ہے کہ ہمیں تندرست معاشرہ بننے میں بہت نہیں، بلکہ بہت زیادہ وقت لگے گا. کہیں اشاروں کنایوں اور کہیں صراحت کے ساتھ اس واقعے کو لےکر فیس بک میں تماشہ و ہلّا گلّا کرنے والوں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی جماعت کے “بعض” دوست بھی ماشاءاللہ پیش پیش ہیں. (سب نہیں، چند ایک ) حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو   “جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا”  جیسی احادیث کے عربی الفاظ بھی ازبر یاد ہوتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو بات بات پہ قرآن و حدیث اور شریعت کا نام لے کر سیکنڈوں میں دوسروں کو چپ کراتے ہیں. جن کا کام رات دن قرآن پڑھانا ہوتا ہے. یہ مسجدوں کی صفائی اور اذان جیسے اہم فریضے سر انجام دے رہے ہوتے ہیں. سروں پہ ٹوپی اور چہروں پہ داڑھی سجائے قرآن کی تعلیم و تدریس سے وابستہ “حضرات ” اس طرح نیچ اور پست لیول پہ اُتر کر لوگوں کو رسوا کرنے کے لئے اُن کے گناہوں کا ڈھنڈورا کرتے پھیریں تو آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل بھی بھر بھر کر خون کے آنسو بہاتا ہے.
حقیقت یہ ہے کہ احساس کمتری کے روگ میں مبتلا لوگ ہی دوسروں کی کمزوریاں تلاشتے رہتے ہیں جہاں کوئی ایسا واقعہ ہاتھ لگے تو پھر آو دیکھتے ہیں نہ تاؤ. پھر اُنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت یاد آتی ہے نہ کوئی حدیث. کانوں میں اُنگلیاں ڈالے منادی کرتے ہوئے گلیوں میں نکل پڑتے ہیں کہ “لو جی یہ کیا ہو گیا ہے” … یوں دل کا بوجھ ہلکا کرکے ہی واپس لوٹتے ہیں.
 حالانکہ ایک اچھے مسلمان کی دینی و اخلاقی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ کسی دوسرے کا راز فاش نہ کرے ، کسی کی پوشیدہ بات جاننے کی کوشش  نہ کرے، دوسروں کےعیوب کی پردہ پوشی کی کوشش کرے ۔ دنیا میں کوئی بھی معصوم نہیں ہے ، گناہ ہرایک سے سرزد ہوتا ہے ، سارے لوگوں میں عیوب ونقائص ہیں. کسی کا گناہ اُس کی حماقت کی وجہ سے ظاہر ہوتا ہے اور کسی کا نہیں ہوتا. (شاید گناہ واضح ہونے کی باعث ہی پرلے درجے کی حماقت ہوتی ہے ).. ایک اللہ کی ذات ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک وصاف اور ہر قسم کی خوبی اس میں بدرجہ کمال ہے۔ جب کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں تو پھر دوسروں کے عیوب و نقائص کو بیان کرکے انہیں لوگوں کے سامنے رُسوا و ذلیل کرنے کی کوشش چہ معنی دارد ؟؟؟ ایسے لوگوں کے لئے سخت قسم کی سزا ہے جو اپنےعیوب پر تو آنکھیں بند کرتے ہیں  لیکن دوسروں کے عیوب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑتے ہیں.  سیاست چمکانے اور اپنی جُھوٹی و مصنوعی برتری و پاکیزگی جتانے و بتانے کے لئے دوسروں کو ذلیل کرتے وقت اتنی بات زہن کے ایک گوشے میں ضرور رکھنی چاہیے کہ آج ہم کسی کو رسوا کرتے ہیں تو کل قیامت میں اللہ تعالی ہمیں بھی لوگوں کے سامنے ذلیل ورسوا کرے گا۔
 آمدم برسرِ مطلب یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فکری، زہنی و نفسیاتی لحاظ سے ہم خطرناک بحران سے دوچارہیں جس کی وجہ سے ہم روز بروز زوال و تباہی کی طرف بڑھے جا رہے ہیں اس سے نمٹ کر درست سمت کی طرف قدم اُٹھانے کےلئے سب سے پہلے تو ہمیں کُھلے دل کے ساتھ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم بیمار قوم ہیں اور ہمیں علاج کی ضرورت ہے..ورنہ جس روش پہ اب چل پڑے ہیں اُسے سامنے رکھ کر اس معاشرے کو فکری اور اخلاقی لحاظ سے  اگر بونوں کا معاشرہ کہنا بڑی جسارت ہے تو پھر کم ظرفوں، پست زہنوں، تنگ نظروں، کوتاہ فکروں، حسد کی آگ میں جل جل کر کُڑھنے والوں، بحر ِاحساسِ کمتری میں سر تا پیر غرق لاعلاج مریضوں، احساس برتری سے سرشار اور خوش فہمی کا شکار نرگیست زدوں اور سیاسی و مذہبی بلیک میلر گروہوں کا معاشرہ کہنا کسی طور پر بھی غلط نہیں ہے. اللہ تعالی ہمیں حقیقت دیکھنے والی آنکھ نصیب فرمائے..
  یہ حوصلہ بھی عطا كر مجھے خدائے كریم
كہ اپنے آپ كو خود آئینہ دكھاؤں میں

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
16377