Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مرغی اور خوشحالی کا باہمی تعلق ………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

وزیراعظم کے دیسی مرغیوں والے بیان پر سوشل میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارم پر خوب لے دے ہو رہی ہے۔وزیراعظم نے غربت کے خاتمے کے لئے دیہی علاقوں کی خواتین کو دیسی مرغیاں فراہم کرنے کے منصوبے کا ذکر کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ خواتین دیسی مرغیوں کے انڈے اور چوزے بیچ کرخواتین اپنی معاشی حالت بہتر بناسکتی ہیں۔مرغی پالنے کے لئے کسی بڑے سرمایے کی بھی ضرورت نہیں۔مرغیوں اور انڈوں کی صورت میں ابتدائی سرمایہ حکومت فراہم کرے گی۔ اپوزیشن کی نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے شکوہ کیا کہ جب مرغیاں پال کر غربت کی شرح کم کرنے کی بات ہم کرتے ہیں تو مذاق اڑایا جاتا ہے جب بل گیٹس نے مرغی پالنے کو ترقی کرنے کا تیز ترین ذریعہ قرار دیتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ وزیراعظم کی اس وضاحت سے ان کے سیاسی مخالفین کس حد تک مطمئن ہوتے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم اس منصوبے کے حامی بھی پریشان ہیں کہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے وزیراعظم اتنی ساری مرغیاں اور انڈے کہاں سے لائیں گے۔ جہاں تک مرغیوں کو پالنے کا تعلق ہے۔ اس بارے میں مشتاق احمد یوسفی کا مشہور قول ہے کہ ’’مرغ اور ملا کے رزق کی فکر تو اللہ میاں کو بھی نہیں ہوتی‘‘مرغی کی خوبی یہ ہے کہ اپنا رزق خود تلاش کرتی ہے۔دانہ دنکا، کیڑے مکوڑے اور کنکر چن کر کھاتی اور اپنا پیٹ پالتی ہے۔ اس کے لئے مرغی خانہ بنانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ درخت پر بسیرا کرکے رات گذار دیتی ہیں۔ جہاں تک دیسی مرغی کے فوائد کا تعلق ہے تو وہ شمار سے باہر ہیں۔ شہر میں دیسی مرغی کا سوپ بیچنے والے ہفتوں ایک ہی مرغی کو سوپ کی دیگچی پر لٹکائے رکھتے ہیں اور اس کا گرم پانی بیچ کر ہزاروں کما لیتے ہیں۔کسی دل جلے نے چکن سوپ کو مرحوم مرغ کے غسل کا پانی قرار دے کر اس سے اجتناب برتنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ مرغی کا ہماری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بظاہر سیدھی سادی نظر آنے والی مرغی اتنی پیچیدہ چیز ہے کہ آج تک کوئی یہ نہیں بتاسکا کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی ہے یا انڈہ۔کسی لکھنوی نے طنز کیا تھا کہ گھر کی مرغی دال برابر ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ مرغی کو بے وقعت اور دال کی اہمیت جتانے کی کوشش تھی یا گھر میں پکنے والی دال کو بھی مرغی جتنی اہمیت دینے کی کوشش تحی۔ کچھ دوستوں نے کرتارپور سرحد کھولنے کے فیصلے اور دیسی مرغیوں کے منصوبے کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور اسے فاسٹ بالر عمران خان کی طرف سے نریندر مودی کے لئے گگلی قرار دیا ہے۔ جسے بھارتی سرکار کھیل سکتی ہے نہ چھوڑ سکتی ہے۔دور کی کوڑی لانے والوں کا خیال ہے کہ بھارت میں سکھوں کی بڑی تعداد مشرقی پنجاب میں رہتی ہے۔ جو بھارت کی زرعی پیداواراور پولیٹری کاروبار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ سکھوں کے بیشتر مقدس مقامات پاکستان میں ہیں۔ کرتاپور سرحد کھلنے کی بدولت بھارتی سکھ بلاروک ٹوک اپنے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے پاکستان آتے رہیں گے اور ہر سکھ اپنے بغل میں دیسی مرغی یا انڈوں کا تھیلا دباکر لائے گا تاکہ اپنے آنے جانے کے اخراجات نکال سکے۔ چونکہ سکھوں کی مذہبی تقریبات سارا سال جاری رہتی ہیں اس لئے بھارت سے دیسی انڈوں اور مرغیوں کی ترسیل بھی بلاتعطل جاری رہے گی۔ مشرقی پنجاب کی آبادی نصف پاکستان سے زیادہ ہے اس لئے باور کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی دیسی مرغیوں کی تمام ضروریات بھارتی سکھ پوری کریں گے۔اگرچہ بھارت کو اپنی لاکھوں کروڑوں مرغیاں سمگل ہوکر پاکستان پہنچنے کی فکرہے لیکن دلی سرکار مجبور ہے کیونکہ وہ سکھوں کو پاکستان آنے سے روکتی ہے تو خالصتان تحریک زور پکڑنے کا خدشہ ہے۔ سیاسی مخالفت اور مخاصمت سے قطع نظر دیسی مرغیاں پالنے کا منصوبہ کم خرچ بالانشین ہونے کے مترادف ہے۔ عوام کو دارو دوا کے لئے دیسی مرغی اور انڈے تو آسانی سے دستیاب ہوں گے۔ اور عوام کو پلاسٹکی مرغیوں سے نجات مل جائے گی۔ تاہم وزیراعظم کو یہ بات پلو میں باندھنا ہوگا کہ پولیٹری انڈسٹری سے وابستہ سرمایہ کار اس عوامی منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے۔حکومت اس منصوبے کے لئے ابتدائی سرمائے کے لئے مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس سے مدد لے سکتی ہے۔ جب وہ افریقیوں کو لاکھوں مرغیاں دے سکتا ہے تو پاکستانیوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟


شیئر کریں: