Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

’’چھینک کے آداب‘‘……….. محمد عنصر عثمانی

Posted on
شیئر کریں:

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدافرمایا اورآپ کے اندرروح پھونکی، توحضرت آدم علیہ السلام کو فوراً چھینک آئی اورسب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کی توفیق سے چھینک پر ’’ا لحمدللہ‘‘ فرمایا ۔چھینک آنا اچھی بات ہے ۔چھینک انسان کی صحت کی علامت ہے۔نزلہ کے وقت نیز عام اوقات میں بھی جب چھینک آتی ہے تو انسان کا دماغ ،کان اور ناک کے راستے صاف ہوتے ہیں۔آنکھوں میں ٹھنڈک پیداہوتی ہے ۔سرکا بوجھ کم ہوجاتاہے،۔جب نومولود بچہ چھینکتاہے تو والدین اور معالجین چھینک کو بچے کی تندرستی کی علامت سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں ۔ غرض کہ چھینک انسان کی نشاط وچستی کا سبب ہے ۔جس سے انسان کو اعمال و طاعات نیز دنیوی کاموں میں نشاط پیداہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایا :’’انَّ اللّٰہ یْحِبْ العْطاسَ‘‘۔ ’’اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں ‘‘۔(کیونکہ اعمال میں چستی ونشاط کا سبب ہوتی ہے )۔(رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ ۱/۹۱۹)
دینِ اسلام کی خوبی اورکمال یہ ہے کہ اسلام انسان کو کامل واکمل بنانے کے لیے ہرچھوٹے اور بڑے ادب سے اس کو آراستہ ومزین کرتاہے۔چنانچہ اسلام نے انسانی ضروریات میں سے ہرضرورت سے متعلق بہترین آداب وتعلیمات کو پیش کیاہے ۔ ان میں سے ایک چھینک بھی ہے ،جسے ہم معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ اس کے آداب کو بھی بیان کیاہے ۔لہٰذاہمیں چاہیے کہ ہم چھینک کے آداب کومعلوم کریں اور ان پرعمل کریں۔چونکہ چھینک اللہ کی نعمت ہے اورصحت وتندرستی کی علامت ہے۔ چستی اور نشاط کا سبب ہے ،اس لیے چھینک آنے پر الحمدللہ کے ذریعہ اللہ کا شکراداکرنے کو مستقل عبادت قراردیاگیاہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اذا عطس احدکم فلیقل الحمد للہ ۔ترجمہ:جب تم میں سے کوئی چھینکے تو الحمد للّٰہ کہے‘‘۔ (رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ ۱/۹۱۹،۴۲۲۶)
سب سے پہلے انسان ہمارے داداحضرت آدم علیہ السلام کو جب چھینک آئی تو اللہ نے آپ کی زبان سے الحمدللہ کوجاری فرماکر ساری انسانیت کے لیے ایک ادب قراردیا ،شریعت اسلامیہ نے بھی اس کوادب بلکہ مستقل سنت قراردیاہے۔چھینک کے بھی چندآداب ہیں۔
(۱)جب کسی شخص کو چھینک آئے تو الحمد للّٰہ کہے۔ (رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ ۱/۹۱۹،۴۲۲۶) یا اَلحَمدْ لِلہِ عَلیٰ کْلِّ حَال کہے (رواہ الترمذی عن ابن عمر۲/۳۰۱) دونوں صورتیں جائز ہیں۔(۲)جب چھینکنے والا اپنی چھینک پر الحمد للہ کہے، تو سننے والا اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے۔(بخاری۱/۹۱۹،۴۲۲۶)(۳) یرحمک اللہ کے جواب میں چھینکنے والا یَھدِیکْمْ اللہَْ ویْصلِحْ بَالَکْم یا یَغفِرْاللہْ لَنَا وَلَکْم کہے۔(بخاری۱/۹۱۹،۴۲۲۶)(۴)چھینکنے والا چھینک کے وقت اپنے چہرے کو کپڑے یا کم ازکم ہاتھ سے ڈھانک لے (تاکہ چھینک کے وقت ناک اور منہ سے نکلنے والی ریزش سے کسی کوتکلیف نہ ہو،نیز کھانے پینے کی چیزوں میں ناک اورمنہ کی رطوبات نہ گریں)۔(۵)چھینک کے وقت اپنی آواز کو پست رکھے۔آپ علیہ السلام چھینک کے وقت اپنے چہرے کو کپڑے یا ہاتھ سے ڈھانک لیتے تھے اور آوازکو پست کرلیاکرتے تھے۔ (ابوداؤد۲/۶۸۶)(۶)محرم عورتیں چھینک کر الحمدللہ کہیں تومحرم مردوں کے لیے یرحمک اللہ کہنا ضروری ہے،نیز مردمحارم مردکی چھینک کاجواب دینا بھی ضروری ہے۔(ہندیہ ۵/۷۲۳
چھینک کا جواب مسلمان بھائی چھینک کر الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا یہ اس کا شرعی حق ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ایک مسلمان بھائی پر دوسرے مسلمان بھائی کے لیے چھ حقوق ہیں ۔(1 )جب کوئی مسلمان بھائی بیمارہوجائے تواس کی عیادت کرے (۲)جب کسی مسلمان کی وفات ہوجائے تواس کے جنازہ میں شرکت کرے (۳)اگر دعوت دے تو قبول کرے (۴)سلام کرے تو سلام کا جواب دے (۵)چھینک پر الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے (۶)مسلمان بھائی کی موجودگی اور غیرموجودگی میں اس کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرے۔ (مسلم ۲/۳۱۲حقوق المسلم )ان مواقع میں چھینک کا جواب ضروری نہیں۔(۱)جو آدمی چھینک کر الحمد للہ نہ کہے۔(بخاری۱/۹۱۹،۵۲۲۶)آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :اذَا عَطَسَ اَحَدْکْم فَحَمِدَ اللہَ فَشَمِّتْوہْ وَان لَم یَحمَدِ اللہَ فَلَاتْشَمِّتْوہ۔ترجمہ:’’جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اوروہ الحمدللہ کہے تو تم جواب دو اگر وہ الحمدللہ نہ کہے تو اس کا جواب مت دو ،لہذاجوشخص اپنی چھینک پر الحمدللہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہے‘‘۔ (رواہ البخاری۱/۹۱۹)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوشخص حاضرتھے، دونوں کوچھینک آئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی چھینک پر یرحمک اللہ فرمایا دوسرے کی چھینک پر یرحمک اللہ نہیں فرمایا ،اس پر دوسرے شخص نے عرض کیا، یارسول اللہ! آپ نے اس کے لیے یرحمک اللہ فرمایا، میرے لیے نہیں فرمایا، آپ نے ارشادفرمایا: اس نے چھینک پر الحمدللہ کہا؛اس لیے وہ جواب کا مستحق ہوا۔اورتم نے اپنی چھینک پر الحمدللہ نہیں کہا تو تم جواب کے مستحق نہیں ہوئے (متفق علیہ،بخاری۱/۹۱۹)۔(۲) جب آدمی تین مرتبہ سے زیادہ چھینکے،توجواب دیناضرروری نہیں ہے ،چاہے تو جواب دے،چاہے تو جواب نہ دے۔ (رواہ ابوداد۲/۷۸۶)۔(۳)بے ایمان کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا جائزنہیں ہے۔
حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’یہودی لوگ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں چھینکتے تھے (چھینک پر الحمدللہ بھی کہتے )اور یہ امید رکھتے کہ آپ علیہ السلام جواب میں یرحمک اللہ فرمائیں گے، لیکن آپ علیہ السلام ان کے جواب میں یرحمک اللہ نہ فرماتے (اس لیے کہ وہ اپنی بے ایمانی کی وجہ سے اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں، لہٰذ ان کو رحمت کی دعا نہیں دی جاسکتی)بلکہ ان کے جواب میں آپ علیہ السلام یَھدِیکْمْ اللہْ وَیْصلِحْ بَالَکْم فرماتے (اللہ تم کو ہدایت دیں اور تمہارے احوال درست فرمائیں )(رواہ ابوداد۲/۷۸۶)۔(۴) جمعہ وعیدین کے خطبات کے وقت میں جواب نہ دے (عمدۃ القاری۵۱/۰۴۳ )۔(۵)اگرکوئی شخص بیت الخلاء میں چھینک کر الحمدللہ کہے تو اس کا جواب بھی لاز م نہیں۔ (عمدۃ القاری۵۱/۰۴۳ )
اللہ پاک ہمیں ہر عمل کا پورا بدلہ عطاء فرمائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
16066