Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سفر سفر ہے انتطار مت کرنا……………تحریر :عابدہ اسلام

Posted on
شیئر کریں:

سفر سفر ہے انتطار مت کرنا……………تحریر :عابدہ اسلام ، طالبہ جماعت دہم، آغاخان ہائیر سکینڈری اسکول، شیر قلعہ
گھر والوں کی یادیں لیے ماں باپ کی دعاؤں کے سائےتلے بچوں کا پیار سمیٹے دلوں میں امیدیں لیے اور آنکھوں میں خواب سجائے ایک قافلہ گوپس سے کراچی کی طرف روانہ ہوا۔اس قافلےمیں مستقبل کے ملالہ، عارفہ، ثمینہ بیگ،نتاشہ سلطان جیسے چمکتے ستارے بھی شامل تھے۔کچھ لوگ علم کی پیاس بجھانے نکلے تھے،علم کا سمندر سمیٹنے چلے تھے لیکن دریائے سندھ کی بے رحم موجوں کے نذر ہو گئے۔ہمارے پاک فوج کے کچھ جوان بھی اس بدقسمت قافلے کا حصہ تھے۔یہ وہ جان باز سپاہی تھے جو سرحدوں پر صبح و شام اپنی جان کی پروا کیے بغیر وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر چوکس رہتے تھے۔ اس بدنصیب قافلے میں شامل پاک فوج کے ان جوانوں کو کیا خبر تھی کہ موت نے ان کی زندگی کی دہلیز پہ دستک دی ہےیہ تو سکون کےچند لمحے اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارنے چلے تھےاور ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سو گئے۔یہ سواری اپنے اندرمستقبل کی کئی اُمیدیں لیے شاہراہ ِ قراقرم(K. K.H)کی پُرخطر اور سنگلاخ راستوں کو چیرتی ہوئی جارہی تھی، گاڑی میں سوار ہر مسافر اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے بےتاب و بے قرار تھا لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا جس نے ان مسافروں کو آخرت کی ابدی منزل کا مسافر بنا دی اور یوں اچانک ان کی گاڑی بے قابو ہوگئی اور ہر طرف چیخوں اور سسکیوں کی لہریں دوڑ گئیں ، بچوں کی معصوم آوازیں اور ایک ماں کی دعائیں گونجنے لگیں ۔ پل بھر میں ہر سمت خون کی ندیاں بہنے لگی ۔اپنے بچوں کو خون میں لت پت دیکھ کرایک ماں تڑپ رہی تھی ۔ اپنے کلیوں کو مرجھاتا دیکھ کر اس کی روح لرز رہی تھی۔بچہ ماں کی گودکی خوشبومحسوس کر رہاتھا،بیٹا والدین کے سلامت لوٹ آنے کی دعائیں مانگ رہا تھا،باپ اپنےبچوں کے ا دھورےخواب پورےکرنےکی سوچ میں مگن تھا،اب ساروں نے یہ جان لیا کہ زندگی کے آخری لمحے آگئے،اب وقت آگیا کہ اس رنگین دنیا کو الوداع کہہ دیں، اب وقت آگیا اولاد کے انمول رشتے سے جدا ہونے کا،اب وقت آگیادنیاکی اس افراتفری سے نکل کر دائمی سکون حاصل کرنے کا ،آخرکار اپنے اصل میں واصل ہونے اور اپنے رب زولجلال سے ملاقات کا وقت آ ہی گیا تھا۔کوئی ان اخری لمحات میں اپنے رب کو یاد کر رہا تھا ،اپنی زبان سے مسلسل درود شریف کاورد کر رہا تھا اور کوئی اس امید میں تھا کہ کاش کو ئی وسیلہ ہو ، کوئی مسیحائی ہو جو انھیں بچالیں ،لیکن موت کے چنگل سے آج تک کوئی بچ پایا ہےجو یہ بچ جاتے۔افسوس ان کی یہ اُمیدیں بھی دم توڑ گئی تھیں اور جو ہونا تھا وہ ہو کر رہ گیا۔ہر طرف بکھری لاشیں ،خون سے بھری زمین ایک ایسا ہولناک منظر پیش کر رہا تھاکہ آسمان بھی بنی نوح انسان کی اس بےبسی پر دل برداشتہ ہو کر اپنے آنسوؤں کو بارش کی شکل میں برسانے لگا۔کھائی اتنی گہری تھی کہ وہاں سے کوسٹر کے ٹکڑوں کا ملنا بھی ممکن نہ تھا ۔وہاں سے کسی کا بچ نکلنا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، ربِ زوالجلال کے معجزات کو کون روک سکتا ہے اس شہنشاہِ کائنات کی رضا سے اس خوفناک حادثے میں ایک جان محفوظ رہی۔موت کا ڈر اور اپنوں کو کھونے کا درد دل میں لیے یہ لڑکی بجائے ہمت ہارنے کے، بہادری اور دلیری سے مدد طلب کرنے کی کوشش میں لگی رہی۔اسی دوران اسے ایک وسیلہ نظر آیا اور اس نے انھیں اس المناک حادثے سے آگاہ کردیا۔اب اس بنتِ حوا کو ایک روحانی تسلی ملی کہ اس نے بطورِانسان اپنی ذمہ داری نبھائی اب وہ خوشی سے موت کو بھی گلے لگا سکتی ہے۔اس حادثے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ریسکیو ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور لقمۂ اجل بننے والے ان بد نصیب لوگوں کی میّتیں نکالنے میں لگ گئیں ۔جس راستے سے وہ لوگ ہنسی خوشی آئے تھے اب اسی راستے سے ان کی بے روح جسد خاکی روانہ کردیے گئے۔وہ ماں جو ہمیشہ اپنی سجدوں میں اپنی اولادوں لمبی عمر اور اچھے نصیب کی دعائیں مانگتی تھی، اب انھی بچوں کو سفید کپڑے میں لپٹے دیکھ کر کیا حالت ہوئی ہوگی۔وہ بچے جن کے کان والد کے خیریتی سے پہنچنے کی خبر سننے کے لیے بےتاب تھے ،اس حادثے نے ان سے دوبارہ کچھ سننے کی طاقت ہی چھین لیے۔ اپنے لختِ جگر کو رخصت کرنے کے بعد باپ کے آنسوابھی تھمے بھی نہ تھے کہ اس حادثہ نے اس کے بوڑھے کندھوں پر غموں کا بوجھ ڈال دیا۔اس باپ کو نیند کیسے آئے گی۔جو ہمیشہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے سینے سے لگاکر سوتا تھا۔ان بہنوں کا کیا ہوگا جنھوں نے چند دن پہلے اپنے بھائی کو شادی کے جوڑے میں دیکھا تھا جو اب کفن میں لپٹا ہوا ان کے سامنے بے حس و حرکت پڑا ہے۔داد اپنے پوتوں کے غم میں نڈھال یہ کہتے ہوئے زارو قطار روہا ہے کہ اب میں تجھے کبھی نہیں ڈانٹوں گا،کبھی نہیں روکوگا، تجھے اپنی پیٹھ پر بیٹھا کر تیرے ساتھ کھیلوں گا بس تو صرف ایک بار آنکھیں کھول اور اپنی پاکیزہ زبان سے ایک بار دادا کہہ کر پکار۔ لیکن افسوس جو ایک بار چلا جائے وہ لوٹ کر نہیں آتا ۔رورو کے آنسو سوکھ گئے لیکن غموں کا انبار کم ہونے کہ بجائے اور بڑھتا گیا۔
اس ہولناک حادثے میں کئی گھروں کے چراغ بجھ گئے،کئی کلیاں کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئیں ۔لیکن ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔اللہ کا فرمان ہے کہ “موت کا وقت اور مقام مقرر ہے ” ایک نہ ایک دن ہم سب نے اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے ۔ بحیثیت انسان ہم اس مشکل گھڑی میں غم زدہ خاندان کے غم میں شریک ہیں اور اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ مرحومین کی مغفرت فرمائیں اور لواحقین کو صبر ِ جمیل عطا فرمائیں(آمین)۔
آخر میں حکومت ِ وقت اور متعلقہ اداروں سے میں یہ گزارش کرنا چاہوں گی کہ وہ ایسے کسی بھی شخص یا ادارے کو یہ اجازت نہ دیں کہ وہ دولت کے حصول کی لالچ اور حرس میں لوگوں کی قیمتی جانوں سے کھیلیں اور یہ بھی یقینی بنائے کہ اس روٹ پر چلنے والی گاڑیاں اور ان گاڑیوں کو چلانے والوں کا معیار کیا ہے۔کیا وہ قانون کے مطابق معیاری اور مستند ہیں ؟ ذرا سوچیئے۔۔۔۔


شیئر کریں: