Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صدا بصحرا ……….. تردید یا تصدیق ؟………..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

کسی دانا کا مشہور قول ہے “اُ س نے واقعہ سنا یا میں نے مان لیا ، اُس نے قسم کھائی تو مجھے شک ہوا کہ جھوٹ تو نہیں بول رہا ؟ جب اُن نے دوسری بار قسم کھائی تو مجھے یقین ہوا کہ جھوٹ بول رہا ہے ” یہ بات سر کاری تر جمان کی تردید پر صادق آ تی ہے راحت اندورری کا شعر ہے ؂
جھو ٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سر کا ری اعلان ہوا ہے سچ بو لو
طا ہر داوڑ شہید 19دنوں تک غا ئب رہے سر کاری تر جمان نے ہر مر حلے پر گمشد گی کی تر دید کی اُ ن کو شہید کیا گیا تب بھی تر دید ی بیان آیا یہاں تک اُن کا جسد خا کی پا کستان پہنچا یا گیا سر کاری تر جمان نے تر دید کی جر ات نہیں کی میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب ہیں اُ نہوں نے سر کاری تردیدوں کا ریکار ڈ رکھا ہو اہے کہتے ہیں خدا جھوٹ نہ بلوائے 8972بار ایسی سر کاری تر دید یں آچکی ہیں جو سر کار کے اعتبار پر داغ لگا نے کے لئے کا فی تھیں داوڑ شہید والی تردید 8973ویں تر دید تھی مجھے تین دنوں کے اخبارات ایک ساتھ ملتے ہیں اور صبح کی جگہ شام کو ملتے ہیں میرے والد صاحب 1943سے خبریں سننے کے عادی ہیں فوج سے ریٹا ئر منٹ کے بعد محکمہ تعلیم میں مدرس رہے اخبار بینی اُن کا شوق ہے ضعف بصارت کی وجہ سے 95سال کی عمر میں اخبار پڑ ھ نہیں سکتے سر خیاں اور تبصرے ،تجزیے سن لیتے ہیں جب کسی خبر کی تر دید آتی ہے تو کہتے ہیں بیٹا دیکھنا ! یہ خبردرست لگتی ہے میرے والد صا حب کی طرح بہت سے بزرگ ایسے ہیں جو سر کاری تر دید کے مقا بلے میں افواہ کو درست مان لیتے ہیں کیونکہ سرکاری تر دید کا اعتبار ختم ہو چکاہے اور اس کو خبر کی تصدیق کا در جہ حا صل ہو اہے راحت اندوری کا ایک اور شعر ہے ؂
گھر کے اندر بیو پار ہے جھوٹ کا
دروازے پر لکھا ہے سچ بو لو
95سالہ بزرگ مو لانا محمد اشرف کہتے ہیں کہ سرکاری تر جمان کی ڈیو ٹی جھوٹ بولنے پر لگا ئی گئی ہے سقوط ڈھاکہ سے دو دن پہلے راولپنڈی سے ہتھیار ڈالنے کی اجا زت مل گئی ایک دن پہلے اکاش وانی ریڈیو اور بی بی سی نے خبر دیدی تو ہمارے سر کا ری ترجمان نے اس خبر کی پر زور تر دید کی 24گھنٹے بعد پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالے گئے سر کاری تر جمان کو ذرہ برابر شرم نہیں آئی 18ستمبر 2001کو خبر آگئی کہ پا کستان نے نا ئن الیون کے تنا ظر میں افغانستان پر حملوں کے لئے امریکہ کو اپنے زمینی اور ہوائی اڈے دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے معاہدہ ہونے وا لا ہے سر کاری ترجمان نے تر دید کی تو ہمیں یقین ہو اکہ بات درست ہوگی اکتو بر 2001ء میں افغا نستان پر حملہ ہوا تو پاکستان اور امریکہ کا معا ہدہ سامنے آگیا سر کاری تر جمان کی سب سے بڑی ڈھٹائی اُس وقت دیکھنے کو ملی جب جنرل مشرف کے قریبی ساتھی لفٹننٹ جنرل اشفاق پر ویز کیانی اور طارق عزیز دو بئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو ، آصف علی زرداری اور رحمان ملک کے ساتھ این آر او(NRO)کی تفصیلات طے کر رہے تھے سر کاری تر جمان اس کی تر دید کر رہا تھا 2مہینوں تک یہ صورت حال جاری رہی اُدھر طارق عزیز اورکیانی این آر او کے لئے کبھی نیو یارک ، کبھی لندن ، کبھی دوبئی کے چکر لگا تے رہے خبریں آتی رہیں آخر میں جاکر این آر او کا سر کاری اعلان ہوا سرکاری تر جمان کو پھر بھی شرم نہیں آئی یہ تین مثالیں” مشتے نمو نہ از خر وارے “کے طور پر پیش کی گئیں ورنہ ہمارے سر کاری تر جمان کی تر دیدوں کا شمار آسمان پر چمکنے والے تاروں سے بھی زیادہ ہے اور ریکارڈ کی بات یہ ہے کہ ہر بار اُ س کی تر دید کے پر خچے اڑا دیے گئے اب لوگ کسی خبر یا افواہ پر صرف اُس وقت یقین کر لیتے ہیں جب سر کاری تر جمان اس کی تر دید کر تاہے گو یا وہ تر دید نہیں کر رہا بلکہ تصدیق کر رہا ہو تاہے مشہور مقولہ ہے “جب تم نے مال کھویا کچھ بھی نہیں کھو یا مگر جس دن تم نے اعتبار کھو دیا اُس دن تم نے سب کچھ کھو دیا “ہمارے سر کاری تر جمان نے اعتبار کھو دیا ہے اب وہ کہے کہ دودھ سفید ہو تاہے تو لوگ باور نہیں کرینگے بلکہ سوچنے لگینگے کہ شا ید کا لے رنگ کا دودھ بازار میں آیا ہوگا کیا عجب چینیوں نے کا لا دودھ بھیج دیا ہوا اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سر کاری تر جمان کسی سہانی صبح کو سچ بولنے لگے ایسا ممکن نہیں ہے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس کو خا موش رہنے کا مشورہ دیا جا ئے شیکسپیئر کے ڈرامے کا ایک کردار کہتا ہے “جب تمہارے پا س بولنے کے لئے کچھ نہ ہو تو کچھ نہ بو لو”بس ہمارے سرکاری تر جمان کو یہ بات پلّے باندھنی چاہئیے ویسے قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ تین حکو متوں میں اہم عہدوں پر فائز رہ کر میں نے یہ بات سیکھی کہ کون سی بات عوام سے چھپائی جائے گورنر جنرل غلام محمد فا لج کے مر ض میں بستر مر گ پر تھے اور ہم اس کو صحت مند اور چا ق و چو بند ثا بت کر نے کے لئے بیمای کی تر دید کر تے تھے فیلڈ مار شل ایوب خان نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تو فیصلے سے پہلے افواہ اڑی، ایوان صدر سے افو ہوں کی تر دید ہو ئی اور اگلے دن صدر نے استعفیٰ دیدیا پھر کسی نے نہیں پو چھا کہ تر دید کس نے کی تھی ؟ یہ کھیل کا حصہ تھااور سب کو معلوم تھا مگر اب زمانہ بدل گیا ہے اکیسویں صدی میں سر کار کو جھوٹ بولنے اور جھوٹی تر دید جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں لوگ تر دید کو تصدیق سمجھ کر مان لیتے ہیں کہ افواہ سو فیصد درست ہے اس لئے حا کمان وقت کو “تردید “سے توبہ ہی کر نا چاہیئے


شیئر کریں: