Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد ……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی………ایک اور تما شا

Posted on
شیئر کریں:

جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم جے آئی ٹی ( JIT) کو بھی تما شا بنا یا گیا ہے اور یہ نیا تما شا ہے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ طاہر داوڑ شہید کے ور ثا ء نے جے آئی ٹی کی تفتیش کے عمل کو مسترد کر دیا ہے مو لانا سمیع الحق شہید کے ور ثانے جے آئی ٹی کی طرف سے سیشن جج کی وساطت سے شہید کی قبر کشائی (Exumation) سے انکار کر دیا ہے اگر چہ وجو ہات الگ الگ ہیں تا ہم دو نوں نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیاہے وطن عزیز میں کسی جرم کی تفتیش کے لئے جا ئنٹ انو سٹی گیشن ٹیم بنا نے کا طریقہ بھی عوام کے اعتماد پر پو رانہ اتر ا، پورا کیوں نہیں اترا؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ما ضی قریب میں جے آئی ٹی کی تفتیش کا برُا حشر ہوا ہے “کھو دا پہاڑ نکلا چو ہا”والی بات سامنے آئی ہے اعظم سواتی کیس میں جے آئی ٹی بنی، پھر رپورٹ آئی اعظم سواتی رپورٹ کو ماننے سے انکار کر رہا ہے پا نامہ کیس میں جے آئی ٹی بنی 10صندوقوں میں رپورٹ مرتب کر کے عدالت لائی گئی 9صندوقوں میں سے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا دسویں صندوق سے اقامہ نکل آیا اور جرم ثا بت ہو اکہ بیٹے نے باپ کے لئے تنخوا مقر ر کی باپ نے وہ تنخوا وصول نہیں کی اس طرح کے بے شمار لطیفے سننے میںآئے اس لئے جے آئی ٹی پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ گیا اس سے پہلے کمیشن ،کمیٹی اور عدالتی تحقیقات سے عوام کا اعتماد اُٹھ گیا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں تو غضب ہو گیا سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی انوسٹی گیشن پربھی اعتماد کرنے کی گنجائش نہیں رہی جنرل ضیاء الحق اور 29جر نیلوں کی شہادت کے مقدمے کا ریکارڈ یہ بتا تا ہے کہ امریکہ کی اعلیٰ اختیاراتی ٹیم آئی پاکستان کا پیسہ کھا یا تفتیش کیا نتیجہ صفر رہا لیاقت علی خان اور حیات محمد شیر پاؤ قتل کیس بھی اسی طرح “مٹی پاؤ”کھاتے میں ڈوب گئے مغلوں اور انگریز وں کے دور سے یہ طریقہ واردات چلی آرہی ہے کہ حکومت جس چیز کی تحقیق کر نا نہیں چاہتی اُس چیز کے لئے جرگہ، کمیٹی ، کمیشن وغیر ہ بنا تی ہے سعادت حسن منٹو کا افسانہ’’ کمیشن‘‘ اسی موضو ع کا احاطہ کر تا ہے منٹو کا قلم بے مثال ہے اُن کا ہر جملہ ایک شعر یا مصرعے کی طرح کا ٹ دار اور طرح دار ہے کمیشن کا پلاٹ بے جان ہے مگر منٹو کے قلم نے اس کو جاندار بنا دیا دھو بیوں نے بادشاہ کی خدمت میں التجا کی کہ حضور والا کے دیوان سے ان کی مزدوری روک دی گئی ہے فاقوں پر فاقے کر نے کی نوبت آئی ہے ہمارے حال پر رحم فرما یا جائے حضور فیض گنجور نے کمیشن مقرر کر کے کمیشن کو ہدایت کی کہ دھو بیوں کی کتنی مزدوری بنتی ہے ؟ اور کیوں ادا نہیں ہوئی ؟ کب سے ادا نہیں ہوئی ؟ کتنی ادائیگی ہونی چاہیے اور کب ادا ئیگی ہونی چاہیے؟ کمیشن کو دفتر دیا گیا اور کمیشن نے بڑے طمطراق سے اپنا کام شروع کیا دھوبی فاقے کرتے رہے ایک عرصہ بیت گیا بادشاہ کا اکلوٹا بیٹا شکار پر نکلا اُس کا گذر دھو بیوں کی بستی پر ہوا دیکھا تو ہڈیوں کے چلتے پھر تے ڈھا نچے نظر آئے اپنے استاد، میر شکار سے تیر کمان مانگااور ایک ڈھا نچے پر تیر چلا یا ڈھا نچے نے چیخ ماری اور اس کی جان نکل گئی شہزادے کو لطف آیا کما ن میں جتنے تیر تھے سب کو آزمایا دھو بیوں کی بستی خالی ہو گئی جس دھو بی نے بادشاہ کے دربار میںآکر درخواست پیش کی تھی وہ بھی جان سے گیا اس واقعے کو بھی ز مانہ بیت گیا ایک دن بادشاہ کے در بار میں کمیشن کا سربراہ آیا اور رودار پیش کر تے ہوئے عرض کیا کہ دھو بیوں کی مزدوری ادا نہیں ہو ئی ان کا حق بنتا ہے اتنی رقم ہے اتنے ماہ و سال کی ادا ئیگی ہے اگر حضور غریب پرو ری کر ینگے تو فوری ادا ئیگی سے دھو بیوں کا بھلا ہو گا عالیجا ہ کو دعا ئیں دینگے بادشاہ سلامت نے حکم دیا دھو بی کو حاضر کیا جائے کو تو ال نے ماجر ا بیان کیا کہ دھو بیو ں کا محلہ اُس دن صاف ہو گیا تھا جس دن ولیعہد شہزادہ پہلے شکار پہ با ہر نکلے تھے میر شکار نے تصدیق کی بادشاہ نے کمیشن کے سر براہ کو شاباش دی اور انعام واکرام کے ساتھ رخصت کیا ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی اور تفتیشی عمل میں تعجب خیز آسانی کے باو جود ہمارے ہاں کسی بھی جرم کی تسلی بخش تفتیش نہیں ہوتی جن لوگوں کو گرفتار کر کے پولیس اپنی کارگردی دکھا تی ہے وہ لوگ جیلوں میں 8 سال یا 10 سال گذار نے کے بعد با عزت بری ہو جاتے ہیں وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ ہر جرم میں بڑے لوگ ملوث ہوتے ہیں ہر جرم کی تفتیش کسی بڑے کے دروازے پر جاکر رُک جاتی ہے ایک ریٹا ئر ڈ پولیس افیسر نے بڑی مجلس میں بتا یا کہ بڑے جرم میں موقع واردات سے چار آدمی بمعہ آلہ قتل پکڑے گئے اخباری زبان میں مجر موں کو’’ ر نگے ہاتھوں‘‘ گرفتار کر کے ہم خوش ہوئے رات کو بڑے صاحب کا فون آیا بڑے ملزم کو چھوڑ دینے کا حکم ہوا تھوڑی دیر بعد ایک اور ’’ بڑے صاحب ‘‘ خود آگئے دو ملزموں کو چھڑ ا کر ساتھ لے گئے ایک بند ہ رہ گیا ،ہم نے اس کو نامزد کر وادیا 10 سال بعد وہ باعزت بری ہوا ریٹا ئر ڈ پولیس افسر کی کہانی میں تفتیش کا خلاصہ ہے جے آئی ٹی ہو ، سکا ٹ لینڈ یارڈ ہو یا اقوام متحدہ کی ٹیم ہو اُس کا سامنا کسی نہ کسی ’’ بڑے صاحب‘‘ سے ہوتا ہے پھر بقول علامہ اقبال
کیا دبد بہ تیموری کیا شوکت نادری
ہو تے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر
تفتیش ایک آدمی کو دید و اور اس کو اختیا ر دید و پھر دیکھو مجرم کیسے پکڑ ے جا تے ہیں ہر دور میں تفتیشی ٹیم ’’ بڑے صاحب ‘‘ کے حکم کا محتاج بنا یا جاتا ہے اور ’’ بڑا صاحب ‘‘ تفتیش کے ہر عمل کو جان بوجھ کھوٹا کر دیتا ہے کیونکہ اُس کی بقا اسی میں ہے شہید طاہر داوڑ کی شہادت کے سانحے پر بننے والی جے آئی ٹی کو ’’ ایک اور تما شا ‘‘ نہ کہیں تو بھلا ہم کیا نام دید یں ع تما م شہر نے پہنے ہیں دستانے


شیئر کریں: