Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

طاہر داوڑ کی شہادت پر کابل انتظامیہ کا غیر سفارتی رویہ…….. پیامبر…….قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں کے نت نئے منظم منصوبے منظر عام پر آرہے ہیں۔ ملکی سا لمیت کے خلاف وطن عزیز کے دشمن مصروف ہیں اس کی ماضی میں کبھی مثال نہیں ملتی اسلام آباد سے ایس پی طاہر داوڑ کا مبینہ اغوا اور افغانستان میں قتل کئے جانا ایک ایسا منصوبہ تھا جو ملک دشمن عناصر نے تیار کیا۔ یہ این ڈی ایس اور را کی ریاستی اداروں کے خلاف منظم سازش ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے جمعرات کی شب ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ’’ افغانستان کی جانب سے غیرسفارتی طریقہ کار اور میت غیرسرکاری افراد کے سپرد کرنے کے اصرار کی وجہ سے ایس پی طاہر داوڑ کے سوگواران کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جس سے بچا جا سکتا تھا‘‘۔اس سے پہلے پاکستانی افواج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے بھی ایک پیغام میں ایس پی محمد طاہر داوڑ کے قتل کی مذمت کی ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ’’ ایس پی طاہر داوڑ کا اغوا، ان کی افغانستان منتقلی، ان کے قتل اور اس کے بعد افغان حکام کا رویہ کئی سوال اٹھاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا پاکستانی قوم نے ایک بہادر پولیس افسر کھو دیا ہے‘‘۔
شہید ایس پی محمد طاہر داوڑکی میت کو پاکستانی حکام کے حوالے کرنے میں کابل انتظامیہ نے جو منفی رویہ اختیار کیا وہ انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ کابل انتظامیہ کی جانب سے ایسا رویہ اختیار کرنا ، پاکستانی عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف مشتعل کرنا اور مملکت کے خلاف منفی پروپیگنڈوں کو بڑھاوا دینا تھا ۔ ایس پی طاہر داوڑ افغانستان کی سرزمین میں محفوظ پناہ گاہ بنانے والی کالعدم تنظیموں اور کالعدم جماعت کے خلاف سرگرم کردار ادا کرتے تھے جس کے نتیجے میں ان پر کئی بار جان لیوا حملے بھی ہوئے ۔ ایس پی محمد طاہر داوڑ کے مبینہ اغوا کو لے کر سوشل میڈیا میں ملک دشمن عنا صر نے پاکستانی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم کو بڑھاوا دیا گیا اور عوامی جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں اس وقت عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ایجنٹوں کا ایک بڑا نیٹ ورک کا جال بچھا ہوا ہے ۔ جو مختلف اداروں و جماعتوں کی چھتری تلے ملکی سا لمیت کے خلاف مذموم کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں شہید ایس پی محمد طاہر داوڑ کے اغوا جیسے کئی واقعات پاکستان میں اس سے قبل بھی رونما ہوچکے ہیں۔
2010 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان کو اغوا کیا تھا جنہیں بالاآخرچار برس بعد شمالی وزیر ستان میں آپریشن کے دوران پاکستانی افواج نے بازیاب کرایا ۔ پنجاب کے سابق مقتول گورنر سلیمان تاثیر کے بیٹے کو2011میں لاہور سے اغوا کیا گیا تھا ۔ جو بلوچستا ن کے علاقے کچلاک سے مارچ 2016میں بازیاب ہوئے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے علی حیدر گیلانی کو مئی2013میں ملتان سے انتخابی مہم کے دوران اغوا کرکے افغانستان پہنچایا گیا تھا ۔ جہاں تین برس بعد جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کے علاقے گیان سے شدت پسندوں کے چنگل سے بازیاب کرایا گیا۔مئی 2016میں علی حیدر گیلانی بازیاب ہونے والی دوسری بڑی سیاسی شخصیت کے بیٹے تھے۔کراچی میں جون 2016میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے بیر سٹر اویس شاہ کواغوا کیا گیا تھا ۔ جنہیں ٹانک سے جولائی2016میں فوج کی ایک کاروائی کے نتیجے میں بازیاب کرایا گیا ۔ فوجی کاروائی میں تین اغوا کار بھی ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان میں نامور و معروف شخصیات کو تاوان کے لئے اور اپنے مطالبات منوانے کے لئے اغوا کیا جاتا رہا ہے تاہم اہم شخصیات کواغوا کنندگان کی جانب سے ہلاک کرنے کے واقعات بہت کم پیش آتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کے پراسرا ر اغوا اور کابل انتظامیہ کے رویئے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پاک۔ افغان سیکورٹی بارڈر سسٹم ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے اس لئے پاک افغان داخل ہونے والے کئی راستے شدت پسندوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج کی جانب سے کئی حساس سرحدی مقامات پر بارڈر سیکورٹی سسٹم پر کام کیا جاچکا ہے لیکن اب بھی ایک بڑا رقبہ شدت پسندوں کی نقل وحرکت کو کنٹرول کرنے مشکلات پیدا کررہا ہے۔کابل انتظامیہ کی جانب سے پاک۔افغان سیکورٹی بارڈر سسٹم کو لگانے کی مخالفت کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس سے این ڈی ایس کے مذموم عزائم ناکام ہوجائیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس وقت2600کلو میٹر طویل سرحدی لائن ہے ۔ خاص طور پر شمال مغربی سرحدوں پر افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے بلا اشتعال پاک افواج پر فائرنگ بھی کی جاتی ہے تاکہ وہ سرحدوں پر حفاظتی باڑ نہ لگا سکیں۔
اسلام آباد سے پراسرار طور اغوا ہونے والے پشاور پولیس کے ایس پی محمد طاہر داوڑ کا تعلق شمالی وزیر ستان کے گاؤں ’خدی ‘سے ہے ۔ ایس پی محمد طاہر داوڑ ایک بہادر پولیس افسر تھے جو شدت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔انہوں نے شدت پسندوں کے خلاف متعدد کاروائیاں کیں ۔دو مرتبہ شدت پسندوں کے حملے میں زخمی بھی ہوچکے ہیں ۔ بنوں میں ا ن کے گھر پر خود کش حملہ بھی کیا جاچکا ہے جس میں ان کا ڈرائیور جاں بحق ہواتھا۔ ایک حملے میں ان کے ہاتھ اور پیر پر گولیاں لگیں۔شدت پسندوں کے خلاف نڈر و فرض شناس پولیس افسر کو ان کے جرات مندانہ خدمات میں محکمہ پولیس کا سب سے بڑا اعزاز قائد اعظم پولیس میڈل بھی دیا جاچکا ہے۔پشتو میں ماسٹر کی ڈگری لینے والے ایس پی محمد طاہر داوڑ پشتو زبان میں شوقیہ شعر و شاعری اور مقامی فنکاروں کے ساتھ گائیکی بھی کیا کرتے تھے۔ ایس پی محمد طاہر داوڑ شہید پشتو ادبی محفل رنڑا( روشنی) کے رکن بھی تھے اور باقاعدہ ادبی محافل میں شرکت بھی کیا کرتے تھے۔
اغوا کے بہت سے کیس حل کرنے والے لاہور کے سابق ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ذوالفقار حمید کے مطابق پولیس اور معاشرے کے لیے اغوا کی سب سے زیادہ سنسنی خیز اور پریشان کن وارداتیں وہ ہیں جن کے ذریعے دہشت گردی کے لیے مالی وسائل اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اغوا کے ایسے واقعات میں عموماً کوئی دہشت گرد یا کالعدم تنظیم ملوث ہوتی ہے۔ اغوا کے لیے ان کے ہدف کا انتخاب ان کا طریق کار اور تاوان کے لیے مانگی گئی رقم عام اغوا کی وارداتوں سے مختلف ہوتی ہیں‘۔
ایس پی محمد طاہر داوڑ شہید کے معاملے میں صراحت کے ساتھ یہ بات واضح ہے کہ ملک دشمن عناصر نے افغانستان اور بھارت گٹھ جوڑ سے نام نہاد قوم پرست تنظیم کے ذریعے مملکت میں شمال مغربی سرحدی علاقوں میں انتشار اور بے امنی پھیلانے کے لئے منظم مذموم کاروائی کی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی حصے سے افغانستان جانے کے لئے کئی راستے ابھی تک مکمل محفوظ نہیں ہیں ۔ وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی نے جمعرات کو سینیٹ میں طاہر داوڑ کے اغوا اور قتل کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ مختلف اداروں کی طرف سے ملنے والی معلومات کے مطابق مذکورہ ایس پی کو اسلام آباد سے اغوا کرنے کے بعد پہلے صوبہ پنجاب لے جایا گیا اور پھر چند دن وہاں پر رکھنے کے بعد اُنھیں پنجاب کے شہر میانوالی اور پھر بنوں کے راستے افغانستان لے جایا گیا‘‘۔ ترجمان وزیر اعظم افتخار درانی میڈیا میں یہ بیان دے چکے تھے کہ’’ ایس پی محمد طاہر داوڑ پشاورمیں تھے ‘‘ واقعے کے بعد اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ’’ انہیں پولیس انتظامیہ نے بتایا کہ ایس پی محمد طاہر اسلام آباد چھٹی پر آئے ہوئے تھے اور وہ واپس پشاور آچکے تھے‘‘۔ متضاد بیانات کے بعد وزیر اعظم نے انکوئری کا حکم دے دیا ہے۔ ایس پی محمد طاہر داوڑ کے قتل کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوچکا ہے اور کئی سوالات جواب طلب ہیں ۔
ننگرہار کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ دونوں ممالک میں نقل وحرکت کے لئے زیادہ تر غیر قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے طورخم بارڈر سے جلال آباد تک ایک سڑک بھی تعمیر کی ہے جو واحد تجارتی راستہ ہے تاہم غیر قانونی داخلے کے لئے کئی مقامات ابھی سیکورٹی بارڈر سسٹم کے تحت محفوظ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایس پی محمد طاہر داوڑ شہید کی لاش کی بازیابی اور سوشل میڈیا میں تصاویر وائرل کرانے میں ملک دشمن عناصر کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔ تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر کسی شدت پسند تنظیم کو ایس پی محمد طاہر داوڑ شہید سے کسی قسم کا انتقام لینا ہوتا تو وہ اسلام آباد سے ننگرہار لے جانے کے بجائے ایس پی محمد طاہر داوڑ کو اسلام آباد میں بھی نشانہ بنا سکتے تھے ۔ تاہم اس منظم مذموم کاروائی میں ملک دشمن عناصر کے نیٹ ورک کے سہولت کاروں کا ملوث ہونا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں رد الفساد آپریشن میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بیخ کنی کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ایس پی محمد طاہر داوڑ شہیدکے جسد خاکی کو پاکستانی سفارت خانے کو دینے کے بجائے قبائلی عمائدین کو دینے کا غیر سفارتی رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ این ڈی ایس اور را کا گٹھ جوڑ پاکستان میں قومیتوں کو نسلی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں فرقہ ورانہ ، لسانی ، گروہی اور مسلکی بنیادوں پر سازشوں کا جال بُنا چکا ہے جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے وقتاََ فوقتاََ ناکام بناتے رہتے ہیں ۔ اسی ضمن میں قومیت میں نسلی بنیادوں پر قبائل کو تقسیم کرنے کی روش دراصل افغانستان اور بھارتی ایجنڈے پر چلنے والی نام نہاد تنظیم کی کارستانیاں ناپختہ اذہان کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ایس پی طاہر داوڑ شہید کی تصاویر کو مخصوص ٹولے نے سوشل میڈیا میں وائرل کیا اور پھر انتشار پھیلانے کے لئے کراچی ، پشاور اور اسلام آباد میں احتجاج کے نام پر ملک دشمن تقاریر و اشتعال انگیزی کی ۔اس کے منفی اثرات سے ملکی سا لمیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایس پی محمد طاہر داوڑ شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سازش کو طشت ازبام کرے گی ۔ تاہم جس منظم انداز میں شہید ایس پی محمد طاہر داوڑ کو اغوا اور پھر کابل انتظامیہ نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اس سے ثابت ہورہا ہے کہ اس ناپاک منصوبے میں’’ این ڈی ایس‘‘ اور ’’را ‘‘کے سہولت کار ملوث ہیں۔جو پاکستان میں انتشار اور انارکی پھیلانے کی سازش کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ ‘پاکستان نے 80 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو جگہ دی لیکن اس کے باوجود طاہر خان داوڑ کی میت کی حوالگی سے متعلق افغان حکام کا رویہ غیر مناسب تھا اور جو رویہ طورخم پر دیکھنے کو ملا وہ اذیت ناک تھا۔’انہوں نے کہا کہ ‘افغان حکام نے طاہر داوڑ کی میت پاکستانی قونصل خانے کو دینے سے انکار کیا اور افغان حکام نے میت حوالگی کے بدلے کچھ مطالبات رکھنے کی کوشش کی، جبکہ ڈھائی گھنٹے انتظار کے بعد میت حوالے کی گئی۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘ریاست پاکستان، افغان حکومت سے اس رویے سے متعلق بات کرے گی۔’شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ‘خیبر پختونخوا حکومت سے طاہر داوڑ سے متعلق رپورٹ طلب کرلی گئی ہے، ریاست پاکستان اپنے ایک ایک سپاہی اور شہری کی ذمہ دار ہے اور ہم ایس پی داوڑ کے قتل کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔’
اب اس بات کو سمجھنے میں کسی بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ افغانستان ، اپنے شہریوں کے میزبان ملک کے ساتھ معتصبانہ رویہ رکھتا ہے۔اور ایسا رویہ منافرت پر مبنی اور سفارتی اقدار کے منافی ہے۔کابل انتظامیہ کا ایس پی محمد طاہر داوڑ شہیدکے جسد خاکی کو دود نوں تک پاکستانی حکام کے حوالے نہ کرنا اور این ڈی ایس ، را کے سہولت کاروں کے ذریعے مملکت میں انتشار پھیلانے کی کوشش قابل مذمت قرار دی گئی ہے۔ کابل انتظامیہ کا پاکستانی شہری کے قاتلوں تک رسائی دینے کے بجائے اپنے مطالبات منوانے کی کوششوں کے مذموم رویئے کو مہذب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔وزیر مملکت داخلہ اور وزیراعظم کو پارلیمان میں کابل رویئے ان کے مطالبات کے حوالے سے بریفنگ دینے کی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستانی عوام ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا اور شہید کئے جانے کے محرکات کو سمجھ سکیں۔
پاکستان ، افغانستان میں قیام امن کے لئے ہر ممکن سطح پر ہرفورم سمیت عالمی سطح پر بھی تحمل و برداشت کے ساتھ افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ ہر پلیٹ فارم پر افغانستان کی عوام کی خواہش کے مطابق خطے میں امن کی ہر کوشش کو سراہاتا اور دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت اور کابل انتظامیہ کے بلاجواز بے بنیاد الزامات پر تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے ۔لیکن کابل انتظامیہ نے جس طرح ایس پی محمد طاہر داوڑ شہید کے جسد خاکی پر اپنے ناپسندیدہ کردار ادا کیا ہے اس عمل سے پاکستان نے دلی دکھ کا اظہار کیا ہے ۔
پاکستان نے افغانستان میں امن کے لئے کسی بھی پلیٹ فار م پر کابل انتظامیہ کے خلاف پالیسی نہیں اپنائی بلکہ کسی بھی نوعیت کا پلیٹ فارم ہو ، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی خواہش کے مطابق افغان عوام کو ہی حق حاکمیت دینے کے عزم کو دوہرایا ہے۔ لیکن پاکستان کی تحمل مزاجی اور برداشت کی پالیسی کے برخلاف کابل انتظامیہ کا رویہ غیر مناسب رہا ہے ۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین میں پناہ دینا ، کالعدم دہشت گرد اور شدت پسند جماعتوں اور اغوا کاروں کو پناہ گاہیں دینا ، کابل انتظامیہ نے وتیرہ بنالیا ہے۔ پاکستان میں ہر بڑے سانحے و واقعے کی پشت پر کابل انتظامیہ ، این ڈی ایس اور بھارتی را کا ہاتھ نکلتا ہے ۔ بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا اور ان کی عالمی سطح پر حمایت کرنا کھلی دہشت گردی کی حمایت ہے ۔ اسی طرح خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں نسلی تفریق و منافرت کی فضا پھیلانے کے لئے قوم پرستی کے نام پر نام نہاد تنظیموں کو فنڈنگ اور ان کو استعمال کرنا این ڈی ایس او ر را کا مذموم طریقہ کارہے۔
کابل انتظامیہ تو بر ملا قبائلی علاقوں میں مداخلت کو اپنا حق قرار دے کر عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہے۔ افغانستان میں پاکستانی سفارت کاروں اور عوام کے ساتھ کابل انتظامیہ کا غیر سفارتی رویہ نیا نہیں ہے ۔ بھارتی کاسہ لیسی میں کابل انتظامیہ نے پختون روایات کا بھی خیال نہیں رکھا اور پختون ولی کے اقدار کو بھی نظر انداز کیا جس سے پختون قوم کو دلی تکلیف پہنچی۔ کابل انتظامیہ کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ ان کی سرزمین میں شدت پسندوں کو اتنی آزادی کس قانون کے تحت دی گئی ہے کہ وہ جب چاہے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوجاتے ہیں ، ہائی پروفائل اغوا کی کئی واقعات میں اغوا کاروں کا افغانستان کی سرزمین استعمال کرنا ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بین الاصوبائی سرحدوں میں بھی کالی بھیڑوں کو تلاش کرے جو ملک دشمن عناصر کے آلہ کار بن کر مملکت کی سلامتی و بقا کو نقصان پہنچانے کے لئے کسی اخلاقی اقدار و قانون کا لحاظ نہیں کرتے۔یقینی طور پر ہماری صفوں میں بھی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اپنے مخصوص مفاد کے لئے ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے محب الوطن عوام کو آگے آنا ہوگا ۔ نام نہاد قوم پرستوں کے منفی پرپیگنڈوں اورسائبر وار کے ہر حملے کو اپنے اتحاد و باہمی اتفاق سے ناکام بنانا ہوگا۔ملک دشمن عناصر ریاستی اداروں کے خلاف ہر قسم کی مذموم سازش میں خود مظلوم بنا کر مملکت کی جڑیں کھوکھلا کرنے کے لئے جذباتی نعروں اور من گھڑت قصوں کا سہارا لے گا ۔ عوام اپنے وطن کی حفاظت کے لئے پہلے بھی ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی اور اب بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی ۔ نام نہاد قوم پرست کسی بھی شکل میں ہوں ان کی حب الوطنی کو ان کے قوم و فعل سے پرکھیں کہ وہ پاکستان سے مخلص ہیں یا منافقت کا لبادہ اوڑے ہوئے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
15816