Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سانحہ کوہستان غذر کی تاریخ کا المناک حادثہ….. تحریر: شاہ ایران شیرازی

Posted on
شیئر کریں:

زندگی اور موت کی کشمکش جاری ہے جس طرح لوگ دنیا میں آرہے ہیں اسی طرح رخصت بھی ہورہے ہیں۔انسانی زندگی کے خاتمے کا کوئی وقت تعین نہیں جہاں بھی جس وقت جس عمر میں فیصلہ ہوجاتا ہے لوگ بلائے جاتے ہیں۔کوئی طبیب کوئی مسیحا اور کوئی عمل اور کوئی وظیفہ اس فیصلے کو ٹالنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے۔ہم حادثات کا شکار ہوتے ہیں ہمیں بیماری سے سابقہ پڑتا ہے۔ہم جوانی کے رعنائیوں بڑھاپے کی ناتو اینٹوں تک سفر پر مجبور ہیں۔یہ زندگی انہی حقیقتوں سے عبارت ہے۔آج تک کی کاوشیں اس حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کرسکیں۔ عالم کے پروردگار نے خبر دی ہے کہ زندگی اور م وت کا یہ سفر اپنی ایک غایت رکھتا ہے۔ایک نیا جہاں آباد ہوتا ہے انتہائی خوبصورت جہاں سج میں موت کا آزار نہیں جس میں بیماریاں اور حادثات نہیں۔جس میں بڑھاپے کا تصور نہیں غریبی اور ناداری نہیں، معذوری اور مجبوری نہیں بلکہ دل پسند نعمتیں ہیں جس میں زندگی کی ساری رعنائیاں جمع کردی گئی ہیں کھانے اور پھل ایسے کہ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں بستر اور لباس ایسے کہ بادشاہوں کو نصیب نہیں کمرے اور محل ایسے کہ سلاطین کے عظیم سکن ان کے سامنے بے حقیقت ہوجائیں۔پھر یہ سب کچھ ابدی ہے۔نہ اس میں دکھ ہے نہ الم نہ کوئی جانے کا خدشہ ہے اور نہ اس میں کمی کا اندیشہ ہے اور نہ مستقبل پر اوہام کا پردہ پڑا ہوا ہے کہ آدمی اسے بنانے اور محفوظ کرنے کے ترادد میں پڑا رہے۔یہ شاندار دنیا ہر آدمی پا سکتا ہے سب کو برابر کا موقع حاصل ہے دنیا کی بے خطا جدوجہد بھی ناکام ہوسکتی ہے لیکن آخرت کے لئے کیا ہوا ذرہ برابر اہتمام بھی رائیگاں جانے والا نہیں شرط صرف یہ ہے کہ آدمی “احسن عملاََ” ہو۔ وہ خدا کی بندگی کے تقاضے پورا کرے خدا کے پہلو سے بھی اور انسانوں کے پہلو سے بھی۔اپنوں کی ہنستی کھلکھاتی زندگی اچانک حادثہ کی نظر ہوکر مرجھا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ واقع ایک انسان کی موت پوری انسانیت کی موت ہے قوموں کی تاریخ میں کچھ دن اہمیت کا حامل ہوتے ہیں اٹھائیس اکتوبر کے دن کو گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن کے نام سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اٹھائیس اکتوبر کو یاسین گوپس سے راولپنڈی جاتے ہوئے ایک بدقسمت کو سڑ حادثے کا شکار ہوا جس میں ایک ہی گھر کے چار افراد سمیت سترہ مسافر ہلاک جبکہ ایک خاتون معجزانہ طور پر بچ گئی۔
ہلاک ہونے والوں میں پاک فوج کے چار حاضر سروس جوان بھی شامل تھے۔جو چھٹی کاٹ کر واپس جارہے تھے وہ فوجی جوانوں سمیت ایک درجن سے زائدفرزندان غذر کو ہزاروں افراد کی موجودگی میں ان کے آبائی علاقوں میں سپردخاک کردیا گیا۔ تدفین کے موقع پر رفت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے اپنے پیاروں کی اچانک حادثاتی موت نے ضلع غذر کی ہر شہری کے آنکھوں کو نم کردیا۔پورے غذر کی فضا مکمل سوگرار رہی۔
حادثے میں مرنے والوں چار افراد کی Dead Bodies کو ابھی تک نہیں نکالا جاسکا ہے جس میں دو فوجی جوان بھی شامل ہیں۔ 29اکتوبر کو دن تین بجے ایک درجن سے زائد افراد کی اجتماعی نماز جنازہ آرمی ہیلی پیڈ گلگت میں ادا کردی گئی جس میں گورنر گلگت بلتستان، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور کمانڈر ایف سی این اے کے علاوہ بڑی تعداد میں سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
صوبائی وزیر سیاحت فدا خان اور گوپس یاسین کے عوام اپنے پیاروں کے نعشوں کیلئے گوپس فٹ بال گراؤنڈ میں صبح سے ہیلی کے انتظار میں بیٹھے تھے۔سورج ڈھلنے کے بعد خبر ملی کہ ہیلی نے بائی ایئر دس منٹ کی مسافت طے کرنے کے زحمت نہیں کی اور تمام Dead Bodies کو گاہکوچ میں اتارا ہے اس خبر نے غم سے نڈھال غذر کے عوام کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیا عوام نے انتظامیہ کی طرف سے مہیا کی گئی ایمبولینس کا استعمال کرنا بھی گوارا نہیں کیا بلکہ اپنی مدد آپ تمام Dead Bodiesکو رات کی تاریکی میں آبائی علاقوں یاسین، گوپس اور پھنڈر پہنچایا گیا لیکن اندھیرے کی وجہ سے تدفین ملتوی کرنا پڑا۔
اتنے بڑے سانحہ کے بعد توقع یہ کہ جارہی تھی کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت عوام غذر سے ہمدردی کیلئے ایک روزہ سوگ منانے کا اعلان کرے گی لیکن صوبائی حکومت عوام کے پیاروں کی Dead Bodiesکو راستے میں چھوڑ کر پاکستان اور گلگت بلتستان کے لئے سب سے زیادہ قربانی دینے والے ضلع شہدائے غذر کے عوام کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔چار Dead Bodiesدو ہفتے گزرنے کے بعد بھی نہیں ملے ان کی تلاش کیلئے بھی صوبائی حکومت کوئی اقدام نہیں اٹھا رہا ہے اہل خانہ اپنی مدد آپ اپنے پیاروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
اس واقعے اور حکومتی رسپونس کے بعد لوگوں میں مایوسی کی لہر اٹھ گئی اور غذر کے نوجوانوں اور عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔پائیلٹ کو گاہکوچ سے آگے نہ جانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ سیاسی ہو یا سماجی معاملات، علاقائی ترقی ہو یا بنیادی سہولیات کی فراہمی ہمیشہ غذر کو ہی دیوار سے کیوں لگایا جاتا ہے؟؟؟
یہ وہ سوالات ہیں جو غذر کے ہر شہری کے ذہن میں گردش کرتے ہیں میرے اس محدود سوچ کے مطابق ان سب ناانصافیوں کی بنیادی وجہ ضلع غذر کی کمزور لیڈر شپ ہے۔
اہالیان غذر دیامر اور کوہستان کے غیور عوام کے اس خدمت کو کبھی نہیں بھولیں گے جنہوں نے رات کے اندھیرے میں Dead Bodies کو نکالنے کے لئے سخت محنت کی اور ثابت کردیا کہ انسانیت کی خدمت کی جاتی ہے ۔رنگ، نسل، ذات، مذہب دیکھ کر نہیں۔اللہ آپ کو اس خدمت کا صلہ دے۔
آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ کوہستان ٹریفک حادثے میں جابحق ہونے والے تمام مرحومین کو اللہ پاک جنت میں اعلیٰ مقام نصیب کرے اور لواحقین کو اس صدمے کو برداشت کی ہمت دے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
15753