Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ترش و شیرین……‎ تعلیم و تربیت کے گلشن میں بیتے چند لمحات…….نثار احمد

Posted on
شیئر کریں:

گزشتہ روز اے کے ایچ ایس ایس کوراغ میں “زندگی ایک نعمت ہے، زندگی ایک امانت ہے” کے موضوع پر ایک روزہ سمینار منعقد ہوا جس کے صدرِ محفل اسسٹنٹ کمشنر مستوج ایٹ بونی عنایت اللہ جبکہ مہمانانِ خصوصی ڈسٹرکٹ خطیب چترال مولانا فضل مولا اور شاہی خطیب چترال مولانا خلیق الزمان تھے. میزبانی کے فرائض اے کے ایچ ایس ایس کی پرنسپل سلطانہ برہان الدین جبکہ اسٹیج کی زمہ داری فدا محمد (لیکچرر اسلامیات) سر انجام دے رہے تھے. مہمانانِ خصوصی کے علاوہ دو ماہرینِ نفسیات محترمہ نادیہ پروین اور محترمہ شازیہ بھی بطورِ مقرّر مدعُو تھیں.

ادارے کی طالبات کی طرف سے تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی سعادت حاصل کرنے کے بعد سکول کی پرنسپل محترمہ سلطانہ برہان الدین نے مہمانوں کو خوش آمدیدی کلمات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی مختصراً مگر نہایت جامع انداز میں زیرِ بحث موضوع پہ روشنی ڈالی. اپنے ادارے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پرنسپل صاحبہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ تربیت پہ بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے. حقیقت بھی یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں پے در پے فتح کے جھنڈے گاڑنے والے اے کے ایچ ایس ایس جیسے ادارے ہی ملک و ملت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں.

بعدازاں شاہی خطیب چترال مولانا خلیق الزمان نے انتہائی شیرین زبانی کے ساتھ نہایت ہی خوبصورت پیرائے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء ہونے والی زندگی نامی اِس بِن مانگے مگر بے مثال نعمت و امانت کے فلسفے کو خوب زہن نشین کروایا. حاضرین و حاضرات کو ہر حال میں مثبت سوچ و اپروچ اپنانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی تعلیم و ترغیب بھی دی. ڈسٹرکٹ خطیب مولانا فضل مولا نے بھی اپنی مدلل علمی و منطقی گفتگو کے زریعے شرکاء محفل کو خوب محظوظ کیا. جبکہ نفسیاتی پہلو پہ دونوں سائکالوجسٹس نے پُرمغز گفتگو کرکے سامعین سے خوب دادِ تحسین حاصل کیں. آخر میں اے سی مستوج کے ہمت و حوصلے سے بھرپور اختتامی کلمات کی سماعت کے بعد ہم یہی احساس پلے باندھ کر اس پروگرام سے اُٹھے کہ خود کشی کو ایک سنگین سماجی مسئلے کے طور پر لے کر اِس کے لئے ہر سطح پر آگاہی عام کرنے کی ضرورت ہے.
کسی بھی ذی شعور انسان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ زندگی جیسی شیرین اور قیمتی نعمت کو انجوائے کئے بغیر آپ ہی آپ اِس کا چراغ گلُ کرنا آج انسانیت کے لئے ایک انتہائی گھمبیر اور الارمنگ مسئلہ بنا ہوا ہے. سالانہ دنیا بھر میں خود کشی کرکے اپنی زندگی کا گلا گھونٹنے والے نو، دس لاکھ افراد کے تناسب میں اگرچہ پاکستان کا نام تھوڑا نیچے ہے لیکن امن و محبت کی سرزمین چترال میں اس کا جو خوفناک رُجحان حالیہ عرصے میں چلا اور بڑھا ہے، انتہائی حیرت انگیز ہے اور سخت تشویشناک بھی.

یوں تو اس جان کُش رجحان کے پیچھے بہت سارے عوامل و عناصر کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے . لیکن مادہ پرستی کے منہ زور سیلاب کی وجہ سے آج کے مسلمان میں تصورِ آخرت کی فقدانیت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نااُمیدی و یاسیت متعلقہ تمام وجوہات کی ماں ہے. ورنہ مشکل وقت میں اگر اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرکے قوت ِبرداشت کو جگاکر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے مشکل وقت کے گزرنے کا انتظار کیا جائے تو مجال ہے کہ انسان زندگی جیسی نعمت کو پاؤں تلے کچل کر اس کی ناقدری کا مرتکب ہو.

آج اگر ایک طرف معاشرے میں جڑ پکڑ کر شاخ پھیلاتی اس خودکشی کے نفسیاتی پہلوؤں کا باریک بینی سے سُراغ لگا کر اُن کے سدباب کے لئے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف منبر و محراب کے زریعے نئی نسل کے زہن میں اس مسئلے کی حساسیت اور اِس اقدام کی قباحت و کراہت بھی اونڈیلنے کی اشد ضرورت ہے. حکمت و بصیرت اور جدید اپروچ کے ساتھ نئی نسل کی مسلسل برین واشنگ کرنے اور اس کے نوخیز زہن میں اس بات کو بٹھانے اور چپکانے کی ضرورت ہے کہ خودکشی کے زریعے اپنی زندگی کا پھول مَسلنے والا دُکھوں اور غموں سے نجات و چھٹکارا ہرگز نہیں پاتا بلکہ خود کشی کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لئے اذیت و مصیبت کے حلق میں پھنسا اور دھنسا چلا جاتا ہے. سیدالمرسلین کے فرمان کے مطابق ’’جس نے گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو مار ڈالا، وہ دوزخ میں بھی گلاگھونٹے گا، اور جس نے نیزہ مار کر اپنے آپ کو ہلاک کیا اسے دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کونیزہ مارنے کا عذاب دیا جائے گا۔‘‘ (کنزالعمال) یعنی خود کشی کی بناء پرمصائب و مشکلات سے چھٹکارا نہیں ملے گا بلکہ دنیا میں جس چیز سے اورجس انداز سے خودکشی کرے گا آخرت میں اسی انداز کا عذاب دیا جائے گا۔

بہرکیف! مارکیٹ میں صحت کُش اشیائے خوردونوش کی موجودگی بھی ایک توجہ طلب مسئلہ ہے. کوالٹی بہتر بنانے کے حوالے سے حکومت ِوقت کی بڑی بڑی زمہ داری اور جواب دہی بنتی ہے کیونکہ مضر صحت اشیاء کی وجہ سے بھی زہنی تناؤ اور مستقل چڑچڑاپن جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن کی بناء پر ایک شخص کے لئے اپنی جان لینے کا فیصلہ چنداں مشکل نہیں لگتا.

بہرحال! خلاصہ یہ کہ زندگی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے بلکہ ہمارا پورا وجود بس اسی ذات کی امانت بھی ہے. اس کی حفاظت کرنا حتی الوسع ہماری ذمہ داری بھی ہے، اور اخلاقی و انسانی فریضہ بھی. شرعی نقطہء نظر سے بھی “انسانی جان” اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ایک ایسی امانت ہے جس کاتحفظ بہر صورت لازم اورضروری ہے. سامنے مصائب و مشکلات کے پہاڑ ہوں یا حوصلہ شکن اور صبر آزما حالات کا ڈھیر، اللہ کی اس عظیم امانت کو خود کشی کے ذریعہ لمحوں میں ضائع کر دینا اسلام میں جائز ہے اور نہ ہی نہ انسانیت کی نظر میں یہ کوئی قابلِ مدح حرکت ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس بابت اپنی استطاعت کے مطابق آگاہی پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
15751