Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان……..’’اُسامہ اکیڈیمی ایک ریفرنس بنتی جارہی ہے ‘‘……محمدجاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

کسی بھی کام کے پیچھے مقصد خلوص کا ہو ۔منزل واضح ہو ۔۔نیت پاک ہو ۔۔عزم مصمم اور بلند ہو تو وہ کام ایک حوالہ بن جاتا ہے ۔۔شرط یہ ہے کہ اس کی ابتدا میں بہت ساری آزمائشیں آتی ہیں ۔بہت صبر آزماء مرحلہ ہوتا ہے ۔۔کوئی حمایت حوصلہ افزائی نہیں ہوتی ۔کوئی ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتا ۔افوائیں ہوتی ہیں ۔پیشنگوئیاں ہوتی ہیں ۔اگر ابتداء کرنے والاحوصلہ محنت اور صبر کی چٹان ہو تو اس مرحلے سے نکلتا ہے ۔فارسی میں کہا جاتا ہے ۔۔
بہ ہر کارے کہ ہمت بستہ گردد
اگر خارے بود گلدستہ گردد
ایسے کاموں کے ثبوت کے لئے فخر موجوداتﷺ کا اکیلے میں اللہ کا پیعام لے کے میدان میں اترنا ہی کافی ہے ۔ہمارے سامنے دارالعلوم دیو بند ،تبلیغی تحریک جو ایک اللہ والے کی محنت سے شروع ہوئی تھی ۔عالی گڑھ جامعہ ۔۔اسلامیہ کالج پشاور جس کی بنیاد رکھنے والا اس کو اپنی اولاد کہتا تھا ۔ان سب کی مثال ایسی ہے کہ شروع میں آزمائیشیں بعد میں عظیم کامیابیاں ۔۔چترال میں اسامہ وڑائچ شہید کے بہت سارے کا م شاید خلوص سے شروع کئے گئے تھے اس لئے وہ کامیابی کے ساتھ جاری ہیں ۔۔ان کاموں میں اسامہ وڑائچ شہید کیرئیر اکیڈیمی سر فہرست ہے ۔۔انھوں نے اس اکیڈیمی کی بنیاد اس لئے رکھا تھا کہ چترال کے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے وہ آگے بڑھکر ملک کے دوسرے اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکیں ۔بڑے بڑے مقابلے کے امتحانات میں کامیاب ہو سکیں ۔اکیڈیمی کی بنیاد رکھنے کے وقت ڈی سی صاحب کے ساتھ بڑے لوگوں کا ایک گروپ شامل تھا لیکن اس کی شہادت کے بعد وہ سارے بڑے کنارے کر گئے ۔اکیڈیمی کا صرف نام رہ گیا ۔۔قریب تھا کہ بند ہو جاتی لیکن اس کو ایک مخلص با صلاحیت نوجوان مل گیا تھا ۔۔انھوں نے اپنے دو تین ساتھیوں کو لے کر اس ایکڈیمی کو نئی زندگی بخشی ۔۔فداء الرحمن ایک باصلاحیت اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہے انھوں نے اپنا پورا وقت ،صلاحیت اور اپنی دولت اس کی کامیابی پہ لگانے کا عہد کیا ۔انھوں نے اپنے چند ساتھیوں پروفیسر تنزیل الرحمن،احتشام الرحمنْ ۔۔لے کے دن رات محنت کی کہ آج یہ اکیڈیمی ایک حوالہ بنتی جارہی ہے ۔اس میں بچے ہر لحاظ سے تربیت اور تعلیم و تعلم کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔نئے تقاضوں کے مطابق ان کی رہنمائی کی جاتی ہے اور دور کے تقاضوں کے مطابق ان کوتیار کیا جاتا ہے ۔۔ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور ان کو گائڈنس دی جاتی ہے ۔یہ بچے مختلف زبانی امتحانات اسانی سے پاس کرتے ہیں ۔اس اکیڈیمی کے طلبا ء بہت کم وقت میں مختلف بڑے بڑے امتحانات پاس کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ اکیڈیمی واقعی ایک ریفرنس بنتی جا رہی ہے ۔۔اس کے علاوہ یہاں پہ کئی مشکل مضامیں کی ٹیوشن پڑھائی جاتی ہیں ۔قابل اساتذہ اپنی خدمات اس اکیڈیمی کو دیتے ہیں ۔۔۔اس کے علاوہ اس اکیڈیمی میں مختلف سر گرمیاں تعلیم سے متعلق ہوتی ہیں ۔ان میں سالانہ سائنس اور آرٹ نمائش بہت نمایاں ہے ۔اس نمائش میں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بڑھ چھڑ کر حصہ لیتے ہیں ۔بچوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے ۔۔نوجوان ٹیلنٹ سامنے آتا ہے اور وہ بچہ یا بچی جس کی صلاحیتیں خفتہ تھیں اجاگر ہوتی ہیں ۔۔اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔۔اور وہ اپنی تشنگی دور کرتا یا کرتی ہے ۔۔اس کے مستقبل کے خواب پور ے ہوتے دیکھائی دیتے ہیں ۔اس کے سامنے نئی راہیں کھلتی ہیں ۔وہ دوسروں کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کر کے مطمین ہوتا ہے ۔وہ دوسروں کی کاوشوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔اکیڈمی کی عمر دو سال ہے اور اس سال یہ دوسری نمائش تھی جو نہایت کا میابی سے دو دن جاری رہنے کے بعد چار نومبر کوا ختتام پذیر ہوئی ۔۔مختلف سرکاری اور نجی سکولوں اور کولجوں کے بچے اور بچیوں نے اس نمائش میں اپنے پروجکٹوں کے ساتھ شامل ہوئے دو دن تک زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے پروجکٹوں کا دورہ کیا اور چترال میں موجود نوجوان کی ٹیلنٹ کو بہت سراہا ۔ان کو یقین ہوگیا کہ ہمارا مستقبل روشن ہے ۔۔ ججوں نے فیصلہ مرتب کیا ۔کمانڈانٹ چترال سکاؤٹ کرنل معین الدین صاحب اور اے ڈی سی چترال جناب منہاس الدین میر محفل تھے ۔دوسرے مہمانوں میں یونیورسٹی چترال کے پروفیسر ز گرلز کالج چترال اور بوائز کالج چترال کے پروفیسرز مختلف سکولوں کے اساتذہ اور طلباء بڑی تعداد میں موجود تھے ۔ایک مقرر نے تقریر کی اسامہ کیریر اکیڈیمی کی کاوشوں کو سراہا ۔۔کوارڈینیٹر اسامہ اکیڈیمی فداء الرحمن نے اسامہ اکیڈیمی کی سر گرمیوں پہ روشنی ڈالی ۔کمانڈانٹ چترال سکاؤٹ نے ہر گروپ کے لئے ایک ایک ہزار روپیہ اور اکیڈیمی کے لئے دس ہزار روپیہ کا عطیہ دیا ۔۔یہ خوصورت تقریب ویسے تو اختتام کو پہنچی مگر اس اکیڈمی کی سر گرمیاں یہ بتا رہی ہیں کہ یہ ادارہ ایک حوالہ بنتا جارہا ہے اس لئے کہ تنزیل ،اختشام اورفداء جیسے مخلص اور با صلاحیت اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس کے لئے کمر ہمت باندھی ہے ۔۔جو یقیناًستاروں پہ کمند ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو پھر ہمیں ان سے محبت کیوں نہ ہو ۔۔۔


شیئر کریں: