Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قومی مفاد کے منافی شرائط………. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

وزیرخزانہ اسد عمرنے قوم کو نوید سنائی ہے کہ ملکی مفادات کے خلاف آئی ایم ایف کی کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کا وفد آنے والے ہفتوں میں قرضے کی شرائط طے کرنے پاکستان آرہا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ چین سے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں ناپسندیدہ شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے ہمیں زرمبادلہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ چین کو برآمدات کا حجم دوگنا کرنے پر اتفاق ہوا ہے جس سے ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوگا۔آئی ایم ایف سے قرضے کا پیکج لینے کا فیصلہ اس سال فروری میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے کیا تھا۔جس کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان توانائی کے منصوبے شروع کرنا چاہتا ہے جس کے لئے پاکستان کو فوری مالی امداد کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد عبوری حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے قرضے کے لئے پاکستان کے روابط جاری رہے۔ اگست2018میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو انہوں نے مالی بحران کو ٹالنے کے لئے بیل آوٹ پیکج لینے کا فیصلہ کیا۔ قرضہ پیکج پر مذاکرات کے لئے آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے گذشتہ ہفتے پاکستان کے دورے کے موقع پر تصدیق کی کہ پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکج کی درخواست کی ہے۔تاہم پیکج کی شرائط ابھی طے نہیں ہوئیں۔آئی ایم ایف سے قرضہ لینا کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان اب تک بارہ ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے لے چکا ہے۔ قرضہ مانگنے والا دینے والے سے اپنی کوئی شرائط نہیں منواسکتا۔ قرض دینے والا اپنی شرائط پر پیسے دیتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف اپنے قرضے کو اس بات سے مشروط کرے کہ اس پیسے میں کوئی کرپشن نہیں ہوگی۔ یہ پیسہ ایسے منصوبوں پر لگایا جائے گا جس سے عوام کو فائدہ پہنچنے کے ساتھ آمدن کا ذریعہ بھی بن جائے۔ ٹیکس نیٹ بڑھایاجائے۔بجلی، گیس، پانی اور خدمات پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے تاکہ قرضہ سود سمیت مقررہ وقت پر واپس کیا جاسکے۔ ان شرائط کو یکسر ناقابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا ۔لیکن بدقسمتی سے ہمارا ٹریک ریکارڈ کافی خراب ہے۔ملک وقوم کے نام پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشائی ترقیاتی بینک، پیرس کلب اور مختلف ملکوں سے اربوں ڈالر کے قرضے لئے جاتے رہے۔لیکن وہ رقم عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبوں کے بجائے ذاتی عیاشیوں اور غیر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوتی رہی۔اور قرضے کی رقم سود سمیت قوم کو ادا کرنی پڑرہی ہے اور قوم کا بچہ بچہ لاکھوں روپے کا مقروض بن چکا ہے۔موجودہ حکومت کو توقع ہے کہ جن لوگوں نے قومی وسائل کو لوٹا۔ان سے قومی دولت واپس لے کر قرضے اتارے جائیں گے۔ لیکن یہ شیخ چلی کا خواب ہے۔ اس پر آئی ایم ایف کو رضامند کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ موجودہ ریکوری مہم میں حکومت کے ہاتھ وہی رقم لگ سکتی ہے جو لوگ بدحواسی میں دوسرے لوگوں کے اکاونٹ میں ڈال رہے ہیں یا منی لانڈرنگ کے دوران پکڑے جارہے ہیں۔ جن لوگوں کی دولت بیرون ملک جائیدادوں، آف شور کمپنیوں، فیکٹریوں اور کاروبار کی صورت میں ملک سے باہرموجود ہے۔ ان میں سے اکثر ممالک کے ساتھ تحویل مجرمین اور غیر قانونی طور پر منتقل کی گئی دولت کی واپسی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ اس لئے سرے محل، ایون فیلڈ محل، سوئس اکاونٹ سے اربوں ڈالر کا حصول سردست دیوانے کا خواب ہے۔ اگر حکومت پانچ سالوں کے دوران لوٹی گئی دولت کا نصف حصہ بھی وصول کرپاتی ہے ۔ تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔وقت آگیا ہے کہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے اور بیرونی امدادکی توقع پر بجٹ بنانے کے بجائے اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اکیس کروڑ میں سے چار پانچ کروڑ لوگوں کو اگر ٹیکس نیٹ میں لایا گیا۔ تو ہمیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ہمارے پاس ترقی کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں۔ زرخیز زمین، آبی وسائل، لامحدود معدنی ذخائر سے مالامال پہاڑ، تیل، گیس، قیمتی دھاتیں، قیمتی و نیم قیمتی پتھر، دلکش قدرتی مناظر، فلک بوس برف پوش چوٹیاں،گھنے جنگلات، چار موسم اور جفاکش افرادی قوت ترقی کے بنیادی لوازمات ہیں۔ مگر انہیں پوری طرح بروئے کار لانے کی اب تک کوئی کوشش نہیں کی گئی۔توقع ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد کے لئے قومی مفادات کے منافی شرائط قبول نہ کرنے اور اپنے قوت بازو پر انحصار کرنے کے اپنے موقف پر حکومت قائم رہے گی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
15499