Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

غم، احساس اور ادب……….. درمکنون

Posted on
شیئر کریں:

اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے ان میں صرف انسان کوگویائی کی قوت دی گئی ہے تاکہ وہ محسوس کرنے کے ساتھ بیان بھی کرکسے۔ انسان اپنی ذات کے سوا باقی دنیا کو دو پہلوؤں سے دیکھتا ہے۔ داخلی اور خارجی پہلو۔ اردگرد بکھری ہوئی مادی اشیاء کا وجود ہم سے علیحدہ ہے۔ اس کے باوجود ان کے اثرات جو ہمارے ذہن پر پڑتے ہیں۔ وہ داخلی ہوتے ہیں مثلاً غم کی کیفیت میں انسان کو رربط باہر کی چیزوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر کسی کو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے زندگی کی بازی ہارتے ہوئے دیکھا ہو تو یہ ایک خارجی واقعہ ہے لیکن اس سے جو تاثر ہمارے دل و دماغ پر پڑتا ہے اس کا اثر داخلی ہوتا ہے۔ اس وقت ہمیں خوبصورتی نظر نہیں آئی۔ اور نہ ہی بہار کی رعنائیاں نظر کو خیرہ کرتی ہیں۔ کیونکہ غم کا داخلی تاثر اتنا گہرا ہوتا ہے ک م باقی دلکشیوں سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ حالانکہ بہار اور پھولوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہوتی۔ دراصل ہمارے اندر کی دنیا میں بھونچال آیا ہوتا ہے جس کا اثر ہم خارجی اشیاء پر بھی محسوس کرتے ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خارجی واقعات اور داخلی کیفیات کا اثر پذیری کا تعلق ہے۔ ادیب اور شاعر خارج سے جس طرح متاثر ہوتا ہے اور حالات کا اپنے دل و دماغ پر پڑنے والے نقش کو الفاظ میں ڈھالیتا ہے گویا محسوسات کو زبان بخشتا ہے وہ دوسروں پر بیتنے والے واقعات کو اپنے اوپر طاری اور اپنی شخصیت میں جذب کرکے حسین پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ اس کے پیش نظر عموماً کہا جاتا ہے کہ جو شاعر ہے وہ یقیناً ناکام عاشق رہ چکا ہوگا۔ کیونکہ
دل، تبسم کسی کو دو پہلے
مفت میں شاعری نہیں ہوتی
لیکن شاعر ہونے کے لئے عشق کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ البتہ یہ بات بھی کافی وزن رکھتی ہے کہ سچے عشق سے شاعری میں سوز وگداز، ٹھہراؤ، دھیماپن اور مٹھاس کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ایسے مرحلے میں جب ذاتی محسوسات الفاظ کا روپ دھار کر اس کی زبان سے نکلتے ہیں تو ان میں نشتریت پیدا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ شاعر و ادیب کی قوت متخیلہ عام لوگوں کی نسبت تیز ہوتی ہے۔ دوسروں کے لئے جوبات معمولی اور سطحی ہو۔ ان کے لئے وہ غیر معمولی اور عمیق ہوتی ہے وہ صرف خیالات اور الفاظ کے درمیان رابطہ پیدا نہیں کرتے بلکہ احساس میں جذبات کی آمیزش کرکے منفرد روپ میں سامنے لاتے ہیں وہ قطرے میں سمندر دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے موقلم سے نکلنے والے حروف قارئین کو اپنی کہانی لگتے ہیں۔ ٹوٹے اور دھکتے دل کی دھڑکنوں کو زبان بخشنے کا فن انہیں خوب آتا ہے یہ ایسا فکری عمل ہے جو حسن کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔ اس کے لئے وقت، زمانہ اور معر کی کوئی قید نہیں ۔ ایسے لوگوں کی تخلیقی کاوشیں وقت کی قدغنوں کو بھی عبور کرکے ہم تک پہنچتی ہیں۔ غالب کے تجربات ہمیں اپنے معلوم ہوتے ہیں۔ میر کے غموں کا بوجھ ہم اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں۔ اقبال کے تصورات سے سرشاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے کیونکہ ان عظیم لوگوں نے صرف محسوس ہی نہیں کیا بلکہ آنے والے زمانوں کو بھی محسوس کروانے میں کامیاب ہوئے۔ انہیں یہ فن آتا تھا کہ کس طرح بات دل سے نکلے اور دوسرے کے دل میں ترازو ہوجائے۔ سماج کے یہی حساس افراد جب واردات قلبی کو کسی کیفیت کے طور پر آشکار کرتے ہیں اور یہ تشکیل فنی ہیت اختیار کرلیتی ہے تو ادب کے نام سے موسوم ہوجاتی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
15449