Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان…… گرلزڈگری کالج میں ایک لکچر کا آنکھوں دیکھا حال…..محمد جاویدحیات

Posted on
شیئر کریں:

گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چترال ملک کے ان تعلیمی اداروں میں شامل ہے کہ اس میں داخلہ لینا کسی طالب علم کے لیے خواب سے کم نہیں ۔اس ادارے کے اندر تعلیمی سرگرمیوں کو بے میثال بنانے میں جہان اس کالج کے سٹاف کی انتھک کاوشوں کا دخل ہے وہاں اس کے انتظام وانصرام کی میثالی ہونے میں کالج کی پرنسپل اور وائس پرنسپل کی جگر کاوئیاں شامل ہیں ۔۔انسان جب کچھ کرنے پہ آتا ہے تو سمندر بھی پھاڑتا ہے اور کوہ سے دریا بھی بہا تا ہے بس کچھ کرنے پہ آنے کی دیر ہوتی ہے ۔۔گورنمنٹ کے اداروں کی کارکردگیوں پر انگلیاں اُٹھائی جا رہی تھیں آج سرکاری کالجوں میں جہان پہ معیار تعلیم ہے میرٹ پہ داخلہ ہوتا ہے اور جو میرٹ میں نہیں آسکتے وہ غیر سرکاری اداروں کا رخ کرتے ہیں ۔گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چترال ان معیاری سرکاری اداروں میں شامل ہے ۔اس ادارے کے اندر بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں ان میں وہ صحت مند سر گرمیاں بھی شامل ہیں جو آج کے دور میں بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہیں ان میں سمینار ز،سمپوزیم ،ٹاکس،سر منز ،مختلف ادبی سر گرمیاں جن میں مباحثے ،مضمون نویسی ،حمد و نعت گوئی ،سائنسی نمائشوں میں حصہ لینا ۔ سٹال لگا نا ،کلچر کے تحفظ کے لئے روایتی دستکاریوں کی نمائش ،خانہ داریوں کا انتظام ،سپوٹس گالہ عرضیکہ کوئی ایسی صحت مند علمی سر گرمی نہیں جو اس ادارے کے اندر نہ ہوتی ہو۔ یہ اس ادارے کی پرنسپل اور سٹا ف کی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے کہ ادارے نے اپنی اعلی کار کردگی کی بنا پہ سال دو ہزار سترہ میں پورے صوبے میں بسٹ پرنسپل اوارڈ ، بسٹ ٹیچرزاوارڈاور بہترین کارکردگی پر نقد انعام کیا ۔۔ادارے میں پروگرامات کا ایک سلسلہ یہ ہے کہ یہ علاقے کے کسی اہل علم کو بلاتے ہیں اور ان سے کالج ہال میں مختلف موضوعات پہ لکچر دلواتے ہیں ۔۔طالبات سوالات پوچھتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں ۔۔ سولہ اکتوبر کو ایک بندے کو اہل علم سمجھ کر اس کے نام کال آئی کہ وہ لکچر پہ آئے۔ شاید یہ پہلی دفعہ تھی کہ ایک سکول ٹیچر کو’’ سکالر‘‘ سمجھا جارہا تھا ۔سکول ٹیچر کو بہت ہنسی آئی ۔۔اس نے ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اپنی کم مائگی کا احساس کیا اور پھر موضوع پہ غور کیا۔ دیکھا کہ اس کے پاس نہ علم ہے نہ تجربہ ۔۔البتہ عمر ہے ۔۔کافی عمر۔۔ شاید موجود حاضریں سے سب سے زیادہ عمر ۔۔اس کا گذرا ہوا وقت بھی ایسا ہے کہ گویا اس نے صرف عمر کے سانچے میں اس کو بھر دیا ہے ۔۔اور کچھ کیا نہیں ۔۔موضوع نئی نسل کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تھا ۔لکچر ر نے سوچا کہ آخر یہ نئی نسل کیا ہے؟ ۔۔یہ تو انسانوں کا ایک کارواں ہے۔۔ کوئی آگے آگے جاتا ہے۔۔ کوئی پیچھے پیچھے ۔۔کسی نے منزل پالی ہے۔۔ کسی کو تلاش ہے ۔آگے والا جس راستے سے جائے بعد میں آنے والوں کو بھی اسی راستے کو اپنا ناہے ۔۔مگر نہیں ۔۔سفر کھٹن ہے ۔۔سفر کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں ۔۔اس میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کوششوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔آتے جاتے کاروان اس سفر کو آسان بنانے کی مقدور بھر کوشش کرکے آگے بڑھتے ہیں ۔اسی کیفیت کو وقت کے پھر دور کے تقاضے کہتے ہیں ۔۔لکچرر نے سوچا کہ وہ اپنے سامنے گذرا ہوا وقت ان کے سامنے پیش کرئے گا ۔پھر موجود دور کے تقاضوں کے بارے میں بتائے گا ۔۔ان کو ڈرائے گا ۔۔پھر ان کو خوشخبری سنائے گا ۔۔وہ خوشخبری جو اس نے دسویں جماعت میں پڑھی تھی ۔۔ایک انگریزی نظم تھی۔۔۔ موضوع تھا۔۔ایک اچھا وقت آرہا ہے بچو !۔قلم کتاب کا وقت ۔۔ٹیکنالوجی کا زمانہ ۔۔سائنس کا زمانہ ۔آسائشوں کا دور ۔مقابلے کا دور ۔۔محنت اور جان کنی کا دور ۔صلاحیتوں کا دور ۔۔اگر صلاحیتیں ساتھ ہوں تو سارے تقاضے ختم ۔۔صاحب علم کے سامنے صاحب جائداد کی حیثیت ختم ۔بڑی حویلی ایک بڑے امتحان جس کو سی ایس ایس کہتے ہیں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔۔تعلیم حاصل کرنا نہیں ۔۔حاصل کرکے دیکھانا ہے ۔۔منزل دور ہے قریب نہیں ۔۔جو اپنی منزل قریب رکھے گا وہ چھوٹا انسان ۔۔منزل کا تعین بھی خود کرنا پڑتا ہے ۔۔اس تک پہنچنے کے لئے جد وجہد بھی کھٹن ہے ۔۔وقت بے وفا پنچی ہے ۔اڑ جائے تو پھر اس کو پکڑا نہیں جا سکتا ۔تم اسودہ دور کے خوش قسمت لوگ ہو ۔دنیا کی آسائشیں اور زندگی کی سہولیات تمہارے منتظر ہیں ۔۔اپنی دنیا جنت بنا سکتے ہو ۔۔دنیا کا مزہ لے لو دنیا تمہاری ہے ۔۔مگر اپنی شناخت کو مٹنے نہ دو ۔۔تمہاری تہذیب تمہاری پہچان ہے ۔۔ہر حال میں چترال کی بیٹی رہو ۔تم صرف حوا کی بیٹی ہی نہیں ہو اسلام کی بیٹی ہو ۔۔چترال کی بیٹی ہو ۔۔لکچرر کالج پہنچتا ہے ۔۔پرنسپل کے دفتر میں اس کا استقبال کیا جاتا ہے اس کو ایک کپ چائے پلائی جاتی ہے ۔۔پھر بتایا جاتا ہے کہ وائس پرنسپل نے زور دے کر آپ کو آنے کی دعوت دی ہے ۔۔بات اچھنبے کی ہے کہ پرنسپل اور وائس پرنسل پتھر کو موتی اور جگنو کو سورج کیوں سمجھتے ہیں ۔۔کسی کی سمجھ پہ اعتراض تو نہیں کیا جا سکتا ۔۔لکچرر ہال میں داخل ہوتا ہے ۔ہال مستقبل کے پھولوں سے سجا ہوا ہے ۔۔قوم کی عظیم بیٹیاں ان پھولوں کو سینچے کی بڑی ذمہ داری لئے موجود ہیں ۔علم کے یہ روشن چراغ جن کو زمانہ پروفیسرز کے نام سے یاد کرتا ہے اپنی نشستوں پہ برانجان ہیں ۔۔علم اور اہل علم کی محفل بھی کتنی پیاری محفل ہوتی ہے ۔۔سٹیج سیکرٹری کی اردو سن کر ایسا لگا کہ یہ یا تو لکھنو ہے یا دہلی ۔چترال کب کی دہلی بن گیا ۔چترال کی بیٹی نے اتنی ٹکسالی اردو کہاں سے سیکھی ہے۔۔ان کا لہجہ اور انداز قابل رشک تھا ۔انھوں نے نام اور کلام خدا سے محفل کا آغاز کیا ۔۔عندلیبان چترال نے تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مہربان ﷺکا شرف حاصل کیا ۔۔لکچر دینے والے کو سٹیج پہ بلایا گیا ۔اس کے حصے میں شاعر ،ادیب ،کالمسٹ ،ایجوکیشنسٹ اور کتنے القاب آئے ۔۔وہ شرمندہ ہوتا گیا ۔اور سٹیج پہنچ کر اتنا کہا کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔۔اس کو مرید پور کا پیر یاد آیا ۔۔انھوں نے چترال کے پھولوں کو مخاطب کیا ۔اپنا بچپن ان کو بتایا ۔وقت کے تقاضے بتائے ۔۔ان کے روشن مستقبل کی نشاندہی کی ۔ان سے کہا کہ زندگی سے لڑنا سیکھو ۔زندہ قومیں زندگی سے لڑا کرتی ہیں ۔۔سوالات پوچھے گئے ایک نے کہا سر ۔۔شاہین بننے کا گر سیکھاؤ۔۔ بتایا گیا شاہین بننا آسان نہیں ۔لیکن فضائے بیکران میں اونچی اڑان کا جس کو آرزو ہو وہ ضرور شاہین بن سکتا ہے ۔۔شاہین کا کام پروآز ہے ۔۔ایک نے کہا سر ۔۔لیٹریچر کی بات نہیں کی گئی ۔۔کہا گیا بیٹا !۔ادب زندگی ہے ۔۔ادب کے بے غیر زندگی بے مغنی ہے ۔۔بچیوں کی نظم و ضبط اور توجہ دیکھ کر کہنے والے کو یقین ہوگیا کہ قوم کا مستقبل روشن ہے اور اس روشن مستقبل کی بنیادیں یہاں سے مضبو ط ہوتی جائیں گی ۔۔کالج کے پرنسپل نے خطاب کرتے ہوئے بچوں کو پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے کا یقین دلایا ۔کہا! عورت کا مقام مرد سے بھی ذرا آگے ہے۔۔ بس مقام سمجھنا شرط ہے۔۔ دوسرے کے مقام تک پہنچنے کی آرزو میں کہیں ہم اپنا مقام بھی کھو نہ دیں ۔آپ اسلام ،چترال اور تہذیب کی بیٹی بن کر زندگی کی جنگ لڑتے رہیں اور میدان مارتے رہیں ۔۔آپ کی اپنی پہچان ہے ۔اپنی پہچان کا خیال رکھیں ۔۔اور اس طرح یہ یادگار مجلس ایک شرین یاد بن کے گذر گئی ۔۔چائے ،احترام ،خلوص اور کسی کو حد سے زیادہ توقیردینے کی سوغات اس سے الگ تھی ۔۔مہمان مہمانوں کی کتاب میں نہ سہی اپنی یادوں کی کتاب میں بہت کچھ لکھ گیا۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
15054