Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دیکھا جو تیر کھاکے کمین گاہ کی طرف……. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

تعلیمی اداروں میں منشیات کی خرید و فروخت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے وفاق اور چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے تفصیلات طلب کی ہیں اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر تھانے کا افسر جانتا ہے کہ ان کے تھانے کی حدود میں کون منشیات بیچ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کا کاروبار کرکے نئی نسل کو نشے کی لت میں مبتلا کرنا قوم کے مستقبل سے کھلواڑہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب رپورٹ مانگو تو انٹر نیٹ سے ڈاون لوڈ کرکے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کی خریدوفروخت کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ برسوں سے علم کے دشمن تعلیمی اداروں کو اپنا نشانہ بنارہے ہیں تاکہ نئی نسل کو نشے کی لت میں مبتلا کرکے انہیں معاشرے پر بوجھ بنایاجاسکے ۔ نجی تعلیمی اداروں کی نسبت سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ جامعہ پشاور وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں خیبر میڈیکل کالج، پشاور یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی، اسلامیہ کالج یونیورسٹی سمیت متعدد تعلیمی ادارے موجود ہیں ۔ہر تعلیمی ادارے کا انتظامی ڈھانچہ جدا ہے۔ یہاں پر پولیس چوکی بھی قائم ہے۔ پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ بھی موجود ہیں اور پھر عسکری گارڈز کے نام سے نئی فورس بھی بھرتی کی گئی ہے۔ جن پر یونیورسٹی کے اکاونٹ سے سالانہ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ ان کا کام یونیورسٹی کے اندر امن بحال رکھنا اور سماج دشمن عناصر پر نظر رکھنا ہے۔ اس کے باوجود دھڑلے سے منشیات کا کاروبار ہوتا ہے۔ جس میں باہر کے لوگوں کے علاوہ بعض اساتذہ اور طلبا کے ملوث ہونے کی افواہیں ہیں۔بات اگر سگریٹ، نسوار اور چرس تک محدود رہتی۔تو قابل برداشت تھی۔ اب تو تعلیمی اداروں میں دیسی اور ولایتی شراب، ہیروئن، شیشہ اور آئس کا بھی کاروبار ہوتا ہے۔والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی بھیجتے ہیں۔ وہاں موت کے سوداگر انہیں اپنا آلہ کار بنالیتے ہیں۔رات کے اندھیرے میں سکولوں کو بارودی مواد سے اڑانے والے اور دن کی روشنی میں قوم کے بچوں کو علم سے بے بہرہ کرکے نشے کی تاریک وادیوں میں اتارنے والے دونوں ہی قوم کے دشمن ہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا چاہئے جو ملک دشمن کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کام میں جو بھی سہولت کار یا آلہ کار بنتا ہے انہیں بھی نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ مگر یہاں بھی شاعر کا وہ قول صادق آتا ہے کہ ’’ دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف۔۔ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی‘‘قوم کے مستقبل پر وار کرنے والوں کے سرپرست یہاں بھی شرفاء کے لبادے میں ہمارے درمیان بیٹھے ہیں۔ بات وہی چیف جسٹس والی ہے کہ ہر تھانے کے ایس ایچ او کو معلوم ہے کہ اس کے علاقے میں کون منشیات کا کاروبار کرتا ہے۔ اس کے گودام کہاں ہیں اس کے کارندے کون کون ہیں کون قمارخانے چلاتا ہے۔ کون اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ کون موٹرسائیکلیں اور موبائل چھینتا اور لوگوں کی جیبیں کاٹتا ہے۔ کون گاڑیاں چوری کرکے انہیں پرزے کرکے بیچتا ہے۔ ان گروہوں کی سرپرستی کون کر رہا ہے؟ان تمام سوالات کے جوابات پولیس کے پاس ہوتے ہیں ۔مگر اس کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی پر دانستہ ہاتھ اٹھانے کی جرات نہیں کرتی۔خواہ اس مصلحت کوشی کا خمیازہ پوری قوم کوکیوں نہ بھگتنا پڑے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک ، آزاد اور خود مختار بنانے کا قوم
سے وعدہ کیا ہے۔ جس کے تحت ایف آئی اے، نیب اور دیگر اداروں کو فری ہینڈ دیا گیا ہے۔ اس آزادی کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں اور غیر قانونی کاروبار میں ملوث سینکڑوں افراد چند ہفتوں کے اندر قانون کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ پولیس کے محکمے کو بھی پیشہ ورانہ طور پر مضبوط ، آزاد اور خود مختار بنایا گیااور وہاں جزاوسزا کا کڑا قانون نافذ کیا گیا تو منشیات فروشی سمیت بیشتر جرائم کا سالوں یا مہینوں میں نہیں، چند ہفتوں میں خاتمہ ہوسکتا ہے۔


شیئر کریں: