Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خیبر پختونخوا کا پوشیدہ خزانہ……… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت نے آخر کار اپنے وسائل کو ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی ٹھان لی ہے۔سیاحت کو ترقی دینے کے لئے 227مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ہزارہ ڈویژن کے 66ملاکنڈ ڈویژن کے 119اور قبائلی علاقہ جات کے 42مقامات شامل ہیں۔ حکومت کے ابتدائی سو دنوں کے اندر چار مقامات کو ترقی دینے کا کام شروع کیا جائے گا۔ ہر سال چار مقامات سیاحت کے لئے تیار کئے جائیں گے اگلے پانچ سالوں کے اندر صوبے کے 20مختلف مقامات پر سیاحوں کو تمام سہولیا ت فراہم کی جائیں گی۔ محکمہ سیاحت نے جو فریم ورک تیار کیا ہے اس کے مطابق چترال، کاغان، کالام، کمراٹ اور سوات کی وادیوں میں موجود سیاحتی مقامات کو بجلی، گیس اور پانی کی بلاتعطل فراہمی اورسڑکوں کی حالت بہتر بناکر سیاحوں کو راغب کرنے کے اقدامات کئے جائیں گے۔فریم ورک میں آنسو جھیل، درال، کنڈول، مہوڈھنڈ، جبہ زومولو، دودی پت،کٹورہ، سیف الملوک، لولوسر اور پیالہ جھیلوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ صوبے کے قومی پارکوں میں بروغل نیشنل پارک، چترال گول نیشنل پارک، لولوسر پارک، سیف الملوک پارک اور شیخ بہاو الدین نیشنل پارک میں سیاحوں کو سیر و تفریح کی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ قلعہ بالاحصار،شاہی قلعہ چترال، مسجد مہابت خان، کافر کوٹ، خیبر پاس اور تخت بھائی کے آثار قدیمہ اور تاریخی عمارتیں بھی سیاحوں کے لئے کھول دی جائیں گی۔ قبائلی علاقہ باجوڑ میں سات، خیبر میں چار، کرم میں تین، مہمند میں سات شمالی وزیرستان میں نو ، جنوبی میں آٹھ اور اورکزئی میں چار مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں بنیادی سہولیات سے آراستہ کرکے سیاحوں کے لئے کھول دیا جائے گا۔ سیاحوں مقامات تک آمدورفت کو آسان بنانے کے ساتھ وہاں سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان مقامات کی طرف سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے چیئرلفٹ، پانی اور برف کے کھیلوں، پیراگلائیڈنگ،ٹینٹ ویلج اور بیس کیمپ کی سرگرمیاں شروع کی جائیں گی۔ ان مقامات کی صفائی، ہوٹل و ریسٹورنٹس کے قیام ، ریسٹ ہاوسز کی تعمیر اور بچوں کے لئے چلڈرن پارک بنانا بھی منصوبے میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پورے پاکستان خصوصا خیبر پختونخوا کو قدرتی حسن اور وسائل سے نہایت فیاضی سے نواز ا ہے۔ یہاں فلک بوس برف پوش پہاڑ بھی ہیں۔ گھنے جنگل اور نایاب جنگلی حیات کی بھی کمی نہیں۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے بھی ہیں اور بلند و بالا آبشار بھی ہیں۔یہاں پائے جانے والے چرند اور پرند دنیا کے بہت کم ملکوں میں موجود ہیں۔ لہلہاتے کھیت کھلیان اورانواع واقسام کے پھلوں اور پھولوں کے باغات بھی ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والے سینکڑوں اقسام کے رسیلے انگور، درجنوں اقسام کے خوشبودار، میٹھے اور رسیلے سیب اور ناشپاتی، خوبانی،بے دانہ توت، رسیلے مالٹے اور بہترین اقسام کے انار اپنی مثال آپ ہیں۔یہاں پیدا ہونے والے ملکھون، سینجور، بیریش کے پھولوں کی خوشبوجب ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پھلتی ہے۔تو پورا علاقہ معطر ہوتا ہے۔سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی اونچائی پر واقع دنیا کے بلند ترین قدرتی سٹیڈیم شندور جائیں تو بادلوں سے اٹھکیلیاں کھاتے برف پوش پہاڑ آپ کے قدموں کے نیچے دبے محسوس ہوتے ہیں ۔یہ طلسماتی اور افسانوی مناظر سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ضرورت اگر کسی چیز کی ہے وہ سڑک، بجلی، قیام و طعام اور تفریح کی مناسب سہولیات کے ساتھ سیکورٹی فراہم کرنے کی ہے۔ یہ سہولیات میسر ہوں تو خیبر پختونخواکی سیر کے لئے آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔ جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ ملے گا۔ لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ مقامی دست کاریوں کے لئے مارکیٹ میسر آئے گی۔ غربت کی شرح کم ہوگی اوران دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔خیبر پختونخوا حکومت اگر اپنی پانچ سالہ آئینی مدت کے دوران صرف سیاحت کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے تو ہمیں وفاق، مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی ایجنسیوں سے امداد لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ نیپال کی مثال ہمارے سامنے ہے اس کی مجموعی آبادی دو کروڑ 64لاکھ 94ہزار ہے اور اس کا رقبہ ایک لاکھ 47ہزار 181مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کی آبادی تین کروڑ 55لاکھ25ہزار اور رقبہ ایک لاکھ ایک ہزار 741مربع کلو میٹر ہے۔نیپال کی سب سے بڑی صنعت اور زریعہ آمدن سیاحت ہے سالانہ لاکھوں افراد دنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ دیکھنے آتے ہیں اور اربوں کا زر مبادلہ چھوڑ جاتے ہیں وہاں کی فی کس آمدنی دو ہزار 842ڈالر سالانہ ہے جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی ایک ہزار 547ڈالر سالانہ ہے۔یہی شرح خیبر پختونخوا کا بنتا ہے۔ ہمارے پاس بھی کے ٹو، نانگا پربت، کاشابروم اور تریچ میر کی بلندوبالا چوٹیاں ہیں ۔توقع ہے کہ اگر سیاحت کے فروغ کا یہی جذبہ کارفرما رہا تو آنے والے چند سالوں کے اندر خیبر پختونخوا پورے جنوبی ایشیاء میں اہم سیاحتی علاقے کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
14948