Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سرکاری محکموں کی کارکردگی پر سوالات……….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے سرکاری محکموں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ بجٹ پر بحث کے دوران کٹوتی کی تحریکوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی، عنایت اللہ، شگفتہ ملک، شاہدہ وحید، ثوبیہ شاہد، میاں نثار گل، ظفر اعظم اور دیگر اپوزیشن ممبران نے مختلف محکموں کے لئے مطالبات زر کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں ان سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ سرکاری محکمے سکیمیں بناتے ہیں ان کے لئے غیر ملکی امداد بھی آتی ہے۔ وہ پیسے کہاں اور کب خرچ ہوئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ منصوبہ بندی و ترقیات کا محکمہ نہ کوئی منصوبہ بندی کرتا ہے نہ ہی ترقی نظر آتی ہے۔ ایک منصوبہ ادھورا چھوڑ کر دوسرا منصوبہ شروع کیا جاتا ہے۔ اور پہلے والے منصوبے کی تمام تعمیرات کا صفایا ہوتا ہے۔ جس سے قوم کا اربوں روپے کانقصان ہوتا ہے۔ بغیر منصوبہ بندی کے ترقیاتی سکیمیں شروع کرنے والوں سے نقصان کی وصولی کی جانی چاہئے۔خود حکومت کا بھی موقف ہے کہ سیاسی مداخلت کے ذریعے قومی اداروں اور سرکاری محکموں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا ہے۔ ان میں اصلاحات اور انہیں سیاسی اثر سے پاک کرنا ضروری ہے۔ گویا اداروں میں اصلاحات کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہیں۔ جب صوبائی قانون ساز ادارے میں کسی ایشو پر حکومت اور اپوزیشن کا موقف یکساں ہو۔ تو اصلاحات کے عمل میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ ملازمین کی فوج ظفر موج کے باوجود سرکاری اداروں کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہونے کا سبب معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم اپنے بجٹ کا دو تہائی حصہ ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں، مراعات اور پنشن کے علاوہ توسیع و مرمت پر خرچ کرتی ہے۔ کوئی شہری اپنے جائز حق اور انصاف کے لئے درخواست جمع کرائے تو اس کی فائل نقدی کا پہیہ لگائے بغیر ایک میز سے دوسری میز تک مہینوں میں بھی نہیں پہنچ پاتی۔ کام نکالنے کے لئے رشوت اور کمیشن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جو لوگ انصاف خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ان کی ساری عمر دفتروں ، کچہریوں اور عدالتوں کا چکر لگاتے لگاتے گذر جاتی ہے مگر انصاف پھر بھی نہیں ملتا ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ ناانصافی کو اپنا مقدر سمجھ کر چپ رہتے ہیں اور کچھ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر انصاف چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔تحصیل کچہری سے لے کر سپریم کورٹ تک پورے عدالتی نظام کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ پبلک ہیلتھ، سی اینڈ ڈبلیو، تعلیم، صحت، زکواۃ و عشر، سماجی بہبود، منصوبہ بندی ،معدنیات، سیاحت و ثقافت، جنگلات، لائیو سٹاک، زراعت، آبپاشی، آبنوشی، صفائی، بلدیات، دیہی ترقی اوربہبود نسواں سمیت تمام سرکاری محکموں میں وسیع پیمانے پر تطہیر کی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو عوام کی خدمت پر لگایا جاسکے۔ہمارے ہاں لوگ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے پر سرکاری ملازمت کو اسی وجہ سے ترجیح دیتے ہیں کہ ایک بار سرکار کے کام میں گھس جانے کے بعد کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہاں خاطر خواہ تنخواہیں اور دیگر مراعات ملتی ہیں جبکہ کام کرنے کی کوئی پابندی نہیں۔فرائض سے غفلت، لاپرواہی اور بڑی سے بڑی غلطی پر بھی چند دنوں کے لئے معطل یا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ سرکاری محکموں میں انتہائی قابل، دیانت دار اور فرض شناس لوگ بھی ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ رشوت اور کمیشن نہ لینے ، پورے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دینے اور دیانت داری سے کام کرنے
والوں کو بیوفوف سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی تھانے کی حدود میں قتل کا واقعہ ہوجائے۔ اور اس تھانے کا ایس ایچ اوفریقین سے اتنی رقم نہ بٹور سکے کہ اس سے اپنی بیٹی کی شادی کراسکے یا نئے ماڈل کی گاڑی خرید سکے تو وہ نالائق افسر گردانا جاتا ہے۔ رشوت کو معیوب سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسے اوپر کی کمائی کا نام دے کر سرکاری ملازمین اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگے ہیں۔ معاشرہ اتنا بگڑ گیا ہے کہ دولت کو شہرت اور عزت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کے حصول کے لئے لوگ جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی پروا نہیں کرتے ۔اب جبکہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن نے بھی سرکاری محکموں میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ صوبائی حکومت کو جنگی بنیادوں پر سرکاری محکموں میں اصلاحات کا عمل شروع کرنا چاہئے۔


شیئر کریں: