Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گلگت بلتستان کی تیسری آواز……… تحریر: مفتی ثنا ء اللہ انقلابی

Posted on
شیئر کریں:

دھرتی ماں پاکستان کے جغرافیائی نقشہ پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح اظہر من الشمس ہے کہ ارض شمال گلگت بلتستان بلا شک و شبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ننگا پربت اور کے ٹو کے دامن میں انڈس ریورسے گزرتی بل کھاتی دنیا کی عجوبہ کائنات شاہراہ قراقرم ، کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے سنگم ، لالک جان نشان حیدر کی سر زمین شمال میں واقع اس خطے کے پشتنی باشندے 71سالوں سے اپنے آئینی اور قانونی مستقل حیثیت کے تعین کے بارے میں فکر مند پائے جاتے ہیں۔سرسری طور پر جائزہ لیا جائے تو یہاں کی دانش تین مکتبہ ہائے فکر میں گلگت بلتستان کے حوالے سے منقسم ہیں۔ پہلا طبقہ فکر کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں آئینی خود مختارصوبہ ڈکلیئر کیا جائے اس نقطہ نظر پر عمل درآمد عالمی حالات اور زمینی حقائق کے پیش نظر بظاہر مسئلہ کشمیر کیوجہ سے اسلام آباد کی خواہش کے باوجود نا ممکن ہے اسلئے 71سالوں سے تمنائے الحاق لئے منتظر فردا ہیں ۔ جبکہ دوسرا مکتبہ فکر یہ سوچ رکھتا ہے کہ گلگت بلتستان کو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے قابل غور اور دعوت فکر ہے اس مطالبے میں لیکن یہ آرزو بھی تشنۂ تکمیل ہے جبکہ گلگت بلتستان کی تیسری آواز جو کہ باقاعدہ دھیرے دھیرے عوام الناس میں اٹھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ خدا را آرڈیننس 2009کا عطیہ نام نہاد صوبائی ڈھانچہ اور سسٹم کو لپیٹ کر دوبارہ اسی پرانے نظام کی طرف لے جایاجائے ۔ اس مکتبہ فکر کے لوگ 1947تا2018تلک کے تمام حالات و واقعات کے پیش نظر یہ تمنا رکھتے ہیں کہ ہم گلگت بلتستان کی غریب عوام کو 32اشیاء جن میں تیل مٹی، ٹرانسپورٹیشن ، ہوائی سفر ، آٹا سمیت 32اشیاء ضرورت کی مکمل سبسڈی بحال کی جائے اور موجودہ اسمبلی کو رول بیک کر کے کوئی جاندار آرمی لفٹیننٹ جنرل کے انڈر کونسلز کے ذریعے گلگت بلتستان میں حسب سابق حکومت چلائی جائے ۔ نمبرداری سسٹم بحال کر کے زمینوں کا تحفظ کیا جائے ۔ تیسرا مکتبہ فکر یہ سمجھتا ہے کہ اگر ہمیں حقوق کے نام سے صوبائی اختیارات کے خوشنما عنوان کے تحت 30سے 40افراد کی بھیڑ سے 3نشستیں سینٹ و قومی اسمبلی میں دی جائیں تب بھی گلگت بلتستان کا عام غریب مزدور کی روزینہ 500سے اوپر بڑھ نہیں سکتی جبکہ حقوق دینے کی صورت میں جو کہ ہمیں پہلے سے حاصل ہیں ٹیکس کی بڑھوتری سمیت سبسڈی ختم ہونے کی صورت میں 22لاکھ عوام متاثر ہونگے۔ اشرافیہ طبقہ اور سیاستدانوں کے کل جملہ قریبی رشتہ دار اور خاندان شمار کئے جائیں تو ایک لاکھ کے لگ بھگ تعداد بنتی ہے جبکہ دوسری طرف 21لاکھ غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین کر سیاسی شعبدہ بازوں کی عیاشیوں کا سامان عیش کی فراوانی کے لئے راہ ہموار کرنے کے بجائے نظام کو لپیٹ دیا جائے تو بہتر ہے ۔ گلگت بلتستان کی تیسری آواز یہی ہے کہ اس وقت کسی بھی پاکستانی شہریوں سے زیادہ ہمیں فوائد مل رہے ہیں مثال کے طور پر چین ہمارے پڑوس میں دنیا کی سپر پاور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے صرف اعلان باقی ہے اس پڑوسی کے پاس گلگت کے پشتنی باشندے صرف پاس بنا کر جا سکتے ہیں جبکہ وفاق کے شہری ویزے کے بغیر سفر نہیں کر سکتے تو آخر پہلا اور دوسرا طبقہ خیال کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یہی نا کہ چند اشرافیہ کے لوگ مسند اقتدار پر قابض ہو کر اسلام آباد کی یاترا کریں، آرام دہ گاڑیوں پر سفر کریں، پر تعیش زندگی بسر کرنے کے لئے چند ممبران اسمبلی و سیاستدان جن کی تعداد کونسلرز سمیت 40بنتی ہے کیا ان گنے چنے لوگوں کی عیاشی اور شاہ خرچیوں کے لئے اور ان سے وابستہ چند خاندانوں اور حلقہ احباب کو ریلیف دینے کے لئے 22لاکھ عوام کے منہ سے نوالہ سبسڈی چھین لینا چاہتے ہو، گلگت بلتستان کے لوگوں کو کیا نہیں مل رہا جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگوں کو مل رہا ہے وہ لوگ گندم 2400کی خریدتے ہیں اور ہم 640پر ، وہ لوگ بجلی کا بل دو ہزار سے پندرہ ہزار تک بھرتے ہیں اور ہم 200سے 800تک یہی فرق ہے جو آپ کو ہضم نہیں ہو رہا ہے ۔ پاکستانی کارڈ گرین پاسپورٹ ایک ہی ہے، پاک آرمی میں لیفٹینٹ جنرل تک گلگت کے باشندے ایڈجسٹ ہیں ، پاکستان کے بڑے شہروں کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنر ز گلگت کے ایڈجسٹ ہیں، تمام یونیورسٹیز اور کالجز میں کوٹہ مختص ہے ۔ گلگت بلتستان کی تیسری آواز یہ ہے کہ پاکستان اور گلگت بلتستان ایک جسم کے مانند ہیں تو پھر الگ سیٹ اپ کا مطالبہ چہ معنی دارد ؟ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل تک نتھی ہونے کی وجہ سے صوبہ ناممکن دکھائی دیتا ہے تو پھر 22لاکھ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نام نہاد صوبائی سیٹ اپ کی بجائے ایک ہی راستہ ہے اور ایک ہی فارمولا اپنایا جائے اور وہ یہ کہ تمام آرڈیننس کی سردردی ، بیمار فالج زدہ نامکمل نظام کو لپیٹ کر ماضی قریب کی طرح کونسلز کے ذریعے حکومت قائم کی جائے ۔ طاقت کا سر چشمہ اللہ ہی ہے ، دنیا دارالاسباب ہے بظاہر طاقت کا کنٹرول پاکستان آرمی کے کسی لفٹیننٹ جنرل کو دیکر 32اشیاء ضرورت کی مکمل سبسڈی بحال کر کے چند افراد کے بجائے 22لاکھ عوام کو ریلیف دی جائے ۔ گلگت بلتستان کی تیسری آواز کا طبقہ فکر سینہ اقتدار پر براجمان نئے پاکستان کے نئے حکمرانوں سے اپیل کرتا ہے کہ خدا را غریبوں پر رحم کھاتے ہوئے مہنگائی ختم کر کے سبسڈی بحال کیا جائے ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
14667