Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ستم رسیدہ عوام ۔۔۔۔!……….. پیامبر ………. قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

موسم کے ساتھ تبدیل ہوتی فضا ہو یا پھر طبعیت دونوں فطری اثرات کے ساتھ نمو پزیر ہوتے ہیں۔ اب یہ قوت مدافعت پر منتج ہے کہ کس دباؤ کو کتنا برداشت کیا جاسکتا ہے۔مملکت میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ ان تبدیلیوں کا تعلق فی الحال بگڑتی معاشی صورتحا ل کی بحالی سے نہیں ہے بلکہ تبدیلیوں سے مُراد سیاسی منظر نامے میں نادیدہ قوتوں کی پیش رفت ہے ۔ جس سے پاکستانی عوام میں سراسمیگی کے اثرات کو دیکھا تو نہیں جا سکتا لیکن محسوس ضرور کیا جاسکتا ۔ اس بار عوام سیاسی معاملات کابڑی باریک بینی سے مشاہدہ کررہی ہے اور مملکت میں ہونے والی تبدیلیوں کے مخفی کرداروں سمیت سیاست کے ماہر پنڈتوں کو شطرنج کے مہروں کی طرح پیٹتے دیکھ اور بخوبی سمجھ بھی رہی ہے۔گر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے تو یقیناََ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کہنا خوابوں کی دنیا سے باہر نہ نکلنے کے مترادف ہے ۔
ریاست کے چاروں ستون اس وقت آزمائش کے کڑے وقت سے گزر رہے ہیں۔ ان حالات میں اندھے جذبات ، عجلت یا اشتعال انگیزی کی ہر دو صورت وطن عزیز کو خدا نخواستہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور پاکستان کی عوام اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہتی ہے کہ مخصوص حالات کی ’’ ٹائمنگ ‘‘ کو کیا نام دیا جائے ۔وقت کا بے رحم احتساب یا پھر مخصوص حالات کاخودرو پودوں کی طرح پیدا ہوجانا ۔ شاید ملکی سیاست کو مخصوص پیرائے کا تبدیل ہونے والا موسم قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جس کے بادل آنے و گرج برسنے کا کوئی متعین وقت نہیں ہے۔ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ موجودہ حالات سے کیا جاسکتا ہے کہ ماضی میں دانستہ یا غیر دانستہ فیصلوں کے نتائج کس قدر زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں ۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نئے پاکستان کا منشور لے کر آئی ہے اور ایسے وقت دینا ضروری ہے تو شاید یہ بیانیہ اُنہیں اچھا لگے جنہیں اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا پسند ہے۔عوام کو پرانے چہروں کے بدلے نقابوں سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ بلکہ اُس کی بنیادی مطالبہ، فرسودہ نظام کی تبدیلی کے لئے حقیقی کوششوں کو عمل درآمد ہوتے دیکھنا ہے۔ اصلاحات کے لئے موجودہ دور سے بہتر ماحول شائد کسی دوسری حکومت کو میسر نہ آیا ہو ۔ کیونکہ کسی بھی قوی حکومت کی رٹ کے لئے ریاست کے تمام ستونوں کا ایک صفحے پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اب چاہے کوئی مانے یا تسلیم نہ کرے لیکن موجودہ سیاسی حالات کسی بھی ممکنہ غیر مقبول فیصلوں کے لئے انتہائی سازگار ہیں۔ سفارتی ، معاشی ،دفاعی اور سیاسی محاذوں پر ریاست کو اس وقت کسی بھی قسم کا دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ اپوزیشن کا کردار اس قدر بے جان ہوچکا ہے کہ اگر حکمراں جماعت غلطیوں سے گریزکر ے تو اپوزیشن کا ’’ آئی سی یو ‘‘ سے جلد باہر آجانا ممکن نہیں ہے۔
لیکن یہاں سب سے اہم مسئلہ عوام کا ہے جو ان حالات کی ستم رسیدگی کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ توقعات ، امیدیں اور سہانے خواب ٹوٹتے نظر آرہے ہیں۔ انہیں یہ سب سلور اسکرین پر دکھائے جانے والی ایک ایسی فلم نظر آرہی ہے جس کے آخر میں The Endلکھا ہوا نظر نہیں آرہا۔ عوام کی ذاتی خواہشات میں سب سے پہلے اُن وعدوں کی تکمیل کے لئے بنیاد رکھے جانے کا منظر دیکھنا ہے جس کے لئے انہوں نے فرسٹ ڈے فرسٹ شو ، کے ٹکٹ لئے تھے ۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینے والی تاریکی میں مخصو ص ہیولے ہی دوڑتے و بولتے نظر آرہے ہیں جن کی پرفارمنس پر وہ ہی سٹیاں اور تالیاں بجا بجا کر تھک چکے ہیں۔ اب ان میں مزید سکت نہیں رہی ہے کہ وہ بار بار سٹیاں بجائیں یا پھر تالیاں ، کیونکہ وہ اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ دونوں کام کرنے سے بھی ان کی تسلی نہیں ہو رہی ۔شاید یہ عوامی خمیر ہے کہ وہ عجلت پسندی کی شکار ہوچکی ہے اور اندھے وعدوں پر سفید چھڑی لے کر چلنے کی عادی ، جس پر لگی گھنٹی کو وقتاََ فوقتاََ بجاتے رہنا ہے۔ گو کہ اُسے نظر کچھ نہیں آرہا ۔ صرف محسوس ہوتا ہے اور یہی وہ حساس ہے جس کو ’ چھٹی حس ‘‘ کہا جاتا ہے۔کوئی دیکھ کر بھی نابینا نظر آتا ہے تو کوئی بول کر بھی گونگا ہو جاتا ہے، جب کچھ سمجھ نہ آئے تو وہ سب کچھ سُن کر بہرا بن جاتا ہے ۔ اس خود فریبی سے باہر نکلنے کے لئے جتنے بھی ہاتھ پیر ماریں جائیں وہ دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ شاید اسی کو قانون فطرت کہتے ہیں ۔ انسانی قانون کو ہم کوئی نام کسی بھی نظام کی شکل میں دے سکتے ہیں۔
مفادات کے تالاب میں جب ایک گندی مچھلی سارے جَل کو گندا کرنے کی قوت رکھتی ہو تو ہمیں اس کمزوری کا ادارک کرنا لیناچاہیے کہ ایک کے مقابلے میں کئی صاف مچھلیاں گندے تالاب میں ڈال کر صاف نہیں کیا جاسکتا ۔ گو کہ اُن کی تعداد اُس ایک گندی مچھلی سے زیادہ ہے جو صاف تالاب کو گندہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔ لیکن یہ سمجھنے کے لئے سقراط سے پہلے سچ کے زہر کا پیالہ لینا ہوگا کہ کئی صاف مچھلیاں گندے تالاب کو صاف واقعتاََ صاف نہیں کرسکتی۔ وطن عزیز میں جس قسم کے بھی حالات واقع پزیر ہو رہے ہیں اس بات پر اکتفا ہے کہ اس سے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی جلد نہیں آسکتی ۔ وقتی اُبال آنے پر چولہے پر لگی آگ بجھ جاتی ہے اور صرف دھواں باقی رہ جاتا ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ تمام گرمی اثر کھو بیٹھتی ہے جس نے درجہ حرارت بڑھا دیا تھا ۔ کہنا صرف اتنا ہے کہ تیز آگ پر پکائی جانے والی ہانڈی بہت جلد جل جایا کرتی ہے جبکہ ہلکی آنچ کے لئے سانج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گرم لقمے کو پھونکیں مارنے سے ٹھنڈا کرنا بہتر ہے کہ تحمل اور صبر سے کام لیا جائے۔ تیز دوڑنے سے سانس بھی بہت جلد پھول جاتی ہے اور قوت رفتار میں بتدریج کمی واقع ہونے لگتی ہے جو بالاآخر بے جان وجود کی طرح بے ربط گرنے پر ہی اختتام پزیر ہوتی ہے۔
ملکی حالات اور پیدا شدہ صورتحال میں کئی ایسے سوالات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں جو وقت پر بے لگام ہوجائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رستے زخموں کو مرہم فراہم کیا جائے۔گر زخموں کا بروقت علاج نہیں کیا جائے تو پھروہ ’’ ناسور ‘‘ بن جاتے ہیں۔ کرم خوردہ پاکستان اپنے قیام سے آج تک اُس نازک دور سے گزر رہا ہے جس کی مسافت کا کسی کو علم نہیں ہے۔کانچ کے نازک فرش پر آہنی جوتوں کے ساتھ دوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ شیشے کاا نجام کرچی کرچی ہوجانا با اتمام سب کو علم ہے۔تو پھر کیوں ہم ایسے حالات کو پیدا کرتے ہیں اور اس پل صراط سے گذرتے ہیں جو ہمارے اعمال کے سبب ہی تیز دھار بنی ہے۔ سب سے پہلے اعتماد کی ایک ایسی دیوار کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں اس قدر مضبوط ہوں کہ یقین کامل ڈگمگا نہ سکے۔بے یقینی ، شکوک و شبہات کی بے ترتیب و مکدر فضائیں گرد آلودہ ہوتی ہیں جو صاف منظر کو بھی دھندلادیتی ہیں۔ارباب اختیار وہ سب کچھ کرے جو اس مملکت کی بقا و سلامتی کے لئے ضروری ہو۔ لیکن کسی بھی مرض کا علاج ’’ آب خضر‘‘ کی امید پر نہیں کیا جائے ، بلکہ بیچ سمندر میں ڈوبنے والی کشتی کے اُس سوراخ کو پہلے بند کیا جائے جو ناخداؤں کو ڈبو سکتی ہیں۔ گندے تالاب میں صاف مچھلیاں ڈال کر تالاب صاف کرنے سے بہتر ہے کہ گندی مچھلی کو ہی اُس تالاب سے پہلے باہر نکال لیاجائے ۔ کنوئیں میں گرے نجس جانور کو پہلے نکالا جائے ، پھر چاہے اُس پانی کو صاف کرنے کے لئے چالیس ڈھول کے بجائے پورا کنواں ہی خالی کیوں نہیں کرنا پڑے۔صاف مچھلیوں کے لئے صاف ستھرے تالاب بنا دیئے جائیں تاکہ گندی مچھلیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے آب رواں صاف و شفاف رہے ۔ بس اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ فروعی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کو مقدم رکھا جائے۔پاکستان کا مفاد سب سے پہلے ہونا چاہے کیونکہ اس نعمت کے کے کھونے کا خمیازے کی کیفیت سے گذر چکے ہیں۔ سقت و طاقت کے لئے ضروری ہے کہ منزل کی درست سمت کا تعین کیا جا چکا ہو۔ تجارب اور کسوٹیاں کھیلنے کے بجائے ہم سب کے حق میں بہتر یہی ہے کہ رب کائنات کی نعمتوں سے کفر نہ کریں ۔کیونکہ یہی ستم رسیدہ عوام کے حق میں بہتر ہے۔


شیئر کریں: